ریاستی حکومت اور بعض یونیورسٹیوں میں مرکزی حکومت کی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ اسکیم کے تحت ہونے والے تحقیقی کاموں سے اردو کو یکسر خارج تو نہیں کیا گیا ہے لیکن تحقیق کی روداد دیوناگری (ہندی) رسم الخط میں تیار کرنے کی شرط عائد کر دی گئی ہے، یہ مضحکہ خیز بھی ہے اور افسوس ناک بھی۔
بیشتر یوینورسٹیز میں اب تعلیم کا خیال کم اور حکومت کی خوشنودی کا خیال زیادہ رکھا جاتا ہے۔ تصویر:آئی این این
شمالی ہندوستان کی جن یونیورسٹیوں میں شعبۂ اردو کا وجود باقی ہے، وہاں یرقانی فکر کے حامل ارباب اختیار کے علاوہ درس و تدریس پر مامور افراد بھی زبان و ادب کی ترویج و ترقی کی راہ میں مختلف قسم کے مسائل کھڑے کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی اور کالجوں میں اب اردو کے ایسے خیر خواہوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو علمی و ادبی تقاریب میں اردو کو درپیش مسائل پر انتہا درجے کی فکر مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جب بات عملی سطح پرکچھ کرنے کی آتی ہے تو اس وقت یہ خیر خواہ ارباب اختیار اور اعلیٰ حکام کی ہاںمیں ہاں ملانے کو ترجیح دیتے ہیں۔لسانی تعصب میں مبتلا یرقانی ارباب اختیار کی ہاں میں ہاں ملانے کا ہی نتیجہ ہے کہ شعبہ ٔ اردو میں طلبہ کی تعداد ہر سال کم ہوتی جار ہی ہے ۔ اعلیٰ حکام کے ذریعہ شعبہ جاتی بجٹ میں تخفیف کے سبب طلبہ اور اساتذہ کو اکثر ان سہولیات سے بھی محروم رہنا پڑتا ہے جو درس و تدریس کے مختلف مراحل کوآسان اور موثر بنانے میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔
یونیورسٹی سطح پریرقانی حکام اردو کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک کرتے ہیں جس کا واحد مقصد تعلیمی سطح پر اس زبان کی مقبولیت کو کم کرنا ہے۔ا ردو زبان و ادب کی ترویج و تدریس سے وابستہ افراد کے تئیں اقتدار کا رویہ احسان مندی والا ہوتا ہے اور اردو اساتذہ و مختلف اداروں میں چیئرمین اور ڈائریکٹر کے منصب پر فائز اردو کے نام نہاد خیر خواہ احساس ممنونیت کے اظہار میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تدبیر کرنے میں ہمہ وقت منہمک اور مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ رویہ اردو کے خیر خواہوں کے رتبے اور مالی منفعت کو تحفظ تو فراہم کرتا ہے لیکن اس سے زبان و ادب کو مختلف سطحوں پر جن نقصانات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے وہ اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک مضحکہ خیز مثال یہ بھی ہے کہ ریاستی حکومت اور بعض یونیورسٹیوں میں مرکزی حکومت کی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ اسکیم کے تحت ہونے والے تحقیقی کاموں سے اردو کو یکسر خارج تو نہیں کیا گیا ہے لیکن تحقیق کی روداد دیوناگری (ہندی) رسم الخط میںتیار کرنے کی شرط عائد کر دی گئی ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس شرط کے ساتھ تحقیق کرنے والے اردو اساتذہ بھی زبان و ادب کی خدمت کا دم بھرتے رہتے ہیں۔ اردو کے یہ مثالی خادم دراصل اس مہم کو تقویت عطا کر رہے ہیں جو گزشتہ نصف صدی سے اردو کو دیوناگری رسم الخط میں لکھنے پر زور دیتی رہی ہے۔ اردو شعرونثر سے وابستہ سیکولر قسم کے ارباب ادب بھی ذاتی مفاد اور بعض مصلحتوں کی بنا پر اس مہم کی تائید کرتے رہے ہیں۔یہ مہم اگر چہ کامیاب نہیں ہوئی لیکن اب جو حربے استعمال کئے جا رہے ہیں اگر وہ کارگر ہو گئے تو اردو بغیر روح کے جسم کی مانند ہو جائے گی ۔
ادھر کچھ برسوں سے یونیورسٹی اور کالجوں میں اردو پڑھانے والے ایسے اساتذہ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو زبان و ادب کی تدریس میں لسانی و ادبی نکات کی نشاندہی اور ان کی توضیح، تشریح اور تعبیر کے بجائے ان تعصبات اور تحفظات کے اظہار کو ترجیح دیتے ہیں جو مسلک، ذات اور علاقہ کی بنیاد پر ان کے افکار اور طرز حیات کو ممتاز بناتا ہے۔ زبان و ادب کی تدریس کو مذہبی دائرے میں محصور کر نے کی ایک مثال یہ ہے کہ اب میر ؔ و غالبؔکے شاعرانہ اوصاف و کمال پر گفتگو کم اور ان کے دین و ایمان پر بحث زیادہ ہوتی ہے اور مذہب کے یہ محافظ کلاس روم میں بیٹھ کر ہی اردو شعرا و ادبا کیلئے جنت و جہنم کی بشارت کر دیتے ہیں۔ایسے مثالی مذہبی اخلاقیات کے پابند اساتذہ کا جذبہ ٔ ایمانی اس وقت جوش میں آجاتا ہے جب انھیں کلاس روم میں منٹو اور عصمت کے افسانے پڑھانے کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔یہ اساتذہ بیشتر اس ذمہ داری کو اس طور سے پورا کرتے ہیں کہ کلاس روم میںان افسانوں کی ایک سطر بھی نہیں پڑھاتے اور مستزاد یہ کہ منٹو اور عصمت جیسے فکشن نگاروں کے کافر ہونے کا فتویٰ بڑے وثوق کے ساتھ صادر کر دیتے ہیں۔ایسے ماحول میں پڑھنے والے طلبہ زبان و ادب کے اوصاف و محاسن اور نقائص و معائب کو کس حد تک سمجھ پائیں گے ، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
زبان و ادب کی تدریسی صلاحیت سے محروم اور دین و ایمان کی محافظت میں اکملیت کے درجے پر فائز یہ اساتذہ صرف شعرا و ادبا کی عاقبت کا ہی فیصلہ نہیں کرتے بلکہ مسلکی تعصب کی بنا ان طلبہ کو بھی مختلف حیلوں سے نقصان پہنچاتے ہیں جو عقیدے کی سطح پر ان سے مختلف ہوتے ہیں۔اردو کی علمی اور ادبی فضاپر دین و ایمان کا رنگ چڑھانے کی انہی کوششوں نے فسطائی عناصر کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ اردو کو کٹھ ملاؤں اور دہشت گردوں کی زبان کہنے لگے ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو کے مفکر اور دانشو ر زبان و ادب کی ترقی و ترویج کی راہ میں حائل ان مسائل کا کوئی موثر حل تلاش کرنے کے بجائے مصلحت آمیز رویہ اختیار کئے رہنے کو عافیت سمجھتے ہیں ۔یہ مصلحت کوش خادمان اردو خود اس زبان کیلئے ایک مسئلہ بن گئے ہیں۔