Inquilab Logo

لوک سبھا کی ۴۰۰؍ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ بھی، بے قراری بھی، آخر ماجرا کیا ہے؟

Updated: February 25, 2024, 5:45 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

مختلف پارٹیوں کے اُن پٹےہوئے لیڈروں کو جو اپنی پارٹی کیلئے کچھ نہیں کر سکے، بی جےپی کا حصہ یا اس کا اتحادی بنانے کا مقصد کیا چند فیصد ہی سہی سیکولرووٹوں میں سیندھ لگانا نہیں ہے۔

Ashok Chavan, who was appointed as the Chief Minister by the Congress, also wore the belt of the BJP. Photo: INN
کانگریس کی طرف سے وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز کئے گئے اشوک چوان نے بھی بی جے پی کا پٹہ پہن لیا۔ تصویر : آئی این این

لوک سبھا الیکشن  میں اکیلے ۳۷۰؍ سے زائد اور این ڈی اے کے ساتھ مل کر ۴۰۰؍ سیٹیں جیتنے کے وزیراعظم مودی کے دعوے کے  بعد بھی بی جے پی جس طرح دیگر پارٹیوں  اوران کے لیڈروں کو توڑ کراپنے خیمے میں لانے میں مصروف ہے،اس سے نہ صرف اس کی  بے قراری ظاہر ہوتی ہے بلکہ یہ سوال بھی  پیدا ہوتاہے کہ وزیر اعظم جو دعویٰ کر رہے  ہیںکیا بی جےپی کو اس پر یقین نہیں ہے یا پھر دیگر پارٹیوں(بطور خاص کانگریس کے) لیڈروں کی بی جے پی میں  اور این ڈی اے اتحاد کی  پارٹیوں  کی  این ڈی اے میں یہ ’’اِن کمنگ‘‘ہی وہ حکمت عملی جس کے ذریعہ زعفرانی اتحاد کو ۴۰۰؍ کے پار پہنچانے کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا جائےگا۔ 
 جانچ ایجنسیوں، یکطرفہ میڈیا اور یکطرفہ چندہ(انتخابی بانڈ کے توسط سے) کے ذریعہ  اپوزیشن پارٹیوں کی کمر پہلے ہی توڑی جاچکی ہے،  اب ان پارٹیوں کو  توڑنے بلکہ انہیں ان کے اصل لیڈروں سے چھیننے کا عمل شروع ہوچکاہےجو علاقائی سطح پر اثر و رسوخ  رکھتی ہیں مگر بی جےپی کے خیمے میں شامل  نہ ہونے کی جرأت کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ مہاراشٹر میں اس کی پہلی شکار شیوسینا  اور دوسری شکار این سی پی ہوئی مگر اس کا آغاز رام ولاس پاسوان کی پارٹی ایل جے پی سے ان کے انتقال کے بعد ہواتھا ۔ رام ولاس کی موت کےبعد پارٹی کی باگ ڈور چراغ پاسوان کے  ہاتھ میں تھی مگر وہ اپنےوالد کا سوگ بھی نہیں مناپائے تھےکہ ان کے چچا نے بغاوت کردی اور الیکشن کمیشن نےانہیں ہی اصل پارٹی قرار دے دیا۔یہ اس کے باوجود ہوا کہ چراغ پاسوان خود کو  مودی کا ’ہنومان‘کہتے  نہ تب تھکتے تھے، نہ اب تھکتے ہیں۔
 مہاراشٹر میں شیوسینا کواُدھو ٹھاکرے سے اور این سی پی کو شرد پوار سے چھین لینے کے بعد کانگریس کےسابق وزیراعلیٰ   اشوک چوان کا بھی شکار کرلیاگیا۔اُدھر بہار میں کرپوری ٹھاکر کیلئے ’بھارت رتن‘ کااعلان کرکے نتیش کمار کا اور یوپی میں  چودھری چرن سنگھ کو ’بھارت رتن‘کیلئے نامزد کرکے جینت چودھری  کا شکار کرکے ’انڈیا‘اتحاد کی کمر توڑ دینے کی کوشش کی گئی۔  اس بیچ  مدھیہ پردیش میں ہر روز کانگریس کے لیڈر بی جےپی میں شامل ہو ہی  رہے ہیں۔ کمل ناتھ بھی پر تول رہے تھے مگرشاید بات نہیں بن سکی۔ انہیں بی جےپی میں شامل نہیں کیاگیا مگرکم وبیش ختم ضرور کردیاگیاکیوں  کانگریس  میں وہ اب جب تک رہیں  گے، مشکوک ہی رہیں گے۔  
  اس میں کوئی شک نہیں کہ  وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی قیادت میں  بی جےپی سیاسی پارٹی کم اور الیکشن جیتنے کی مشین زیادہ بن گئی ہے۔ مسئلہ قومی سلامتی کا ہو، عوامی فلاح وبہود یا بنیادی ضروریات کا یا پھر خارجہ پالیسی کا، زمام اقتدار سنبھالنےوالے بی جےپی  کےقائدین کی ترجیح   اول الذکر  امور نہیں، اگلا الیکشن ہی ہوتاہے۔ اس لئے مختلف پارٹیوں کو توڑنے، انہیں این ڈی اے میں شامل کرنے اور کانگریس  کے  لیڈروں کو بغاوت پر آمادہ کرکے زعفرانی چولا پہنانے کا مقصد بھی     بنیادی طور پر ایسا ماحول تیار کرنا ہے جس میں ایسا لگے کہ بی جےپی ہی جیت رہی ہے اور اسی لئے سیاسی درجہ ٔ حرارت کو پہچاننے والے پالا بدل رہے ہیں۔بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی کیوں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض’’تاثر کے کھیل‘‘ کے علاوہ  حالیہ دَل بدلی کا بی جےپی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نتیش کمار ہوںکہ جینت چودھری ، ایکناتھ شندے ہوں کہ اجیت پوار  ان کے پیروں تلے سے زمین پہلے ہی کھسکتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ نتیش اپنی پارٹی بچانے کی تگ ودو میں  مصروف ہیں۔ ایکناتھ شندے اور اجیت پوار بی جےپی کی مدد سے اقتدار اور پارٹی پر قابض ہونے میں بھلے ہی کامیاب ہو گئے  ہوں، عوامی سطح پر انہیں وہ حمایت حاصل نہیں ہے جو اُدھو ٹھاکرے  اور شرد پوار کو حاصل ہے۔ پارٹی کا نام اور نشان چھن جانے کےبعد اس حمایت میں ’’ہمدردی‘‘ بھی شامل ہوگئی ہے۔  سابق وزیراعلیٰ اشوک چوان   کے پاس کانگریس  سے ۳۸؍ سالہ  وابستگی  اور سابق وزیراعلیٰ کاٹیگ تو ہےمگران کی سیاسی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ ۲۰۱۹ء   میں وہ اپنی سیٹ بھی نہیں بچاسکے تھے۔  اس کے بعد بھی اگر بی جےپی ان لیڈروں  کا خیر مقدم کررہی ہےا ور انہیں نواز رہی ہےتو یہ ایک بڑی انتخابی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔   

یہ بھی پڑھئے: اُتراکھنڈ کے یکساں سوِل کوڈ میں یکسانیت کم، مسلم دشمنی زیادہ

 اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جےپی مسلم خواتین اور پسماندہ مسلمانوں کو رام کرنے کی کیسی ہی کوشش کرلے گزشتہ ۱۰؍ برسوں کی اس کی  سرکاری پالیسیوں کےبعد  اس بات کا امکان  بہت کم ہے کہ مسلم ووٹر براہ راست اس کے حق میں ووٹنگ کرے۔ دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ ۱۰؍ سالہ اقتدار کے بعد یہ بہت فطری ہے کہ جنہوں نے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں بی جےپی کے حق میں ووٹنگ کی ان میں سے کچھ اب اس سے متنفر ہیں۔  یہ وہ ووٹرہیں جنہوں نے مذہب یامودی بھکتی کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیئے تھے بلکہ ترقی اور مثبت امیدوں کی بنا پر زعفرانی پارٹی کے حق میں فیصلہ سنایاتھا۔ ایسے ووٹر اب  اس سے دور ہٹیں گے۔  بی جےپی کے سامنے ووٹوں کے اس نقصا ن کی بھرپائی کا مسئلہ ہے۔ وزیراعظم  اور وزیر داخلہ ۳۷۰؍ اور ۴۰۰؍ کے اعدادو شمار پیش کرکے اپوزیشن کو بھلے ہی دہلا رہے ہوں مگر وہ اس حقیقت سے  بخوبی واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ  ۲۰۱۹ء میں اگر یوپی کی ۸۰؍ میں سے ۷۲؍ سیٹیں جیت لی تھیں تو اب اس میں اضافہ کرکے تمام ۸۰؍ سیٹیں نہیں جیت پائیں بلکہ ۷۲؍ سیٹوں کو بھی  اسی وقت برقراررکھا جاسکے گا  جبکچھ  نئے ووٹروں کوہموار کیا جائے جو اُن ووٹروں  کی بھرپائی کرسکیں  جو بی جےپی سے مایوس ہوکر اب کسی اور    کے حق میں ووٹنگ کریں گے۔   مذہب ، دیش بھکتی اور مودی کے نام پر جو لوگ بی جےپی کو ووٹ دے سکتے تھےان کی تعداد اپنے نقطہ ٔ عروج کو پہنچ چکی ہے،اس میں مزید  اضافہ ممکن نہیں اس لئے ووٹروں کے نئے طبقے کو ہموار کرنا پڑےگا۔ یعنی سیکولر ووٹوں کو ہموارکرنا ہوگا۔ا س میں بڑی تعداد مسلم ووٹروں کی ہے۔ یہ ووٹر بی جےپی کے حق میں تو ہموار ہونے سے رہے مگر بی جےپی  سے ہاتھ ملانے والے ’سیکولر ‘ لیڈروں اور پارٹیوں کے ساتھ بہت معمولی تعداد میں سہی مگر آسکتے ہیں اور اس طرح  این ڈی اے  کے ووٹنگ فیصد میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسے اس طرح سمجھیں کہ اجیت پوارکی پارٹی اگر اقلیتوںکیلئے ریزرویشن اوران کے حقوق کی بات کرتی ہے توکل تک ان کے خیمے کے کسی  لیڈر کی حمایت میں ووٹنگ کرنے والے مسلم اور سیکولرووٹروں میں سے  ۱۰۰؍ فیصد نہیں تو ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد  ووٹر تو ان کے ساتھ آہی جائیں گے۔  ووٹروں کی یہ تعداد  اُن ووٹروں کی بھرپائی کرسکتی ہے  جنہوں نے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء  میں تو بی  جےپی کو ووٹ کیا مگر اب دور ہوسکتے ہیں۔  باالفاظ دیگر  اس حکمت عملی کے تحت بی جےپی کا مقصد مسلمانوں   اور سیکولر شہریوں کے حق میں بات کئے بغیر اوران کا احسان لئے بغیر ان کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی اس حکمت عملی میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اور رائے دہندگان اسے سمجھ پاتے ہیں یا نہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK