Inquilab Logo

اقوام متحدہ میں اسرائیل کی بوکھلاہٹ اورتلملاہٹ کیا اشارہ دے رہی ہے؟

Updated: October 29, 2023, 1:31 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

یونائٹیڈ نیشنز کے سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس کی جانب سے شدید تنقید کے بعد اسرائیلی اور صہیونی نمائندوں کا جوابی ردعمل کہیں نہ کہیں یہ واضح کررہا ہے کہ انہیں کوئی ڈر ستارہا ہے۔

There are protests against Israel all over the world, because of which the Israeli government is in a panic. Photo: INN
اسرائیل کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج ہورہے ہیں ، جس کی وجہ سے اسرائیلی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ تصویر:آئی این این

دنیاکی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دی جانے والی غزہ پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں نے گزشتہ نصف دہائی بدترین جبر میں گزارنے کے بعد گزشتہ دنوں ایک جوابی حملہ کیا۔ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ اس نے اسرائیل کی صہیونی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا۔انہوں نے جنگ کو اسرائیلی حدود میں لے جا کر خطے کی طاقتور ترین عسکری قوت کو بدترین ہزیمت سے دوچار کیا۔ اس حملے سے ایک روز میں جتنے اسرائیلی ہلاک ہوئے اتنے اب تک کسی اور حملے میں نہیں ہوئے۔ یقینی طور پر اسرائیل کی جوابی کارروائی بھی انتہائی سفاکانہ رہی۔تقریباً ۲۲؍ لاکھ آبادی پر مشتمل غزہ پر اسرائیلی فوج ماضی میں بھی بمباری کرتی رہی ہے لیکن اس کی شدت کبھی بھی اتنی نہ تھی جتنی اس مرتبہ ہے۔اسرائیلی جان بوجھ کر عام آبادی بشمول بچوں کو نشانہ بنارہے ہیں ۔ لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔ اس وقت غزہ کا مکمل محاصرہ ہو چکا ہے ۔ خوراک، ایندھن اور دیگر اشیاء بھی وہاں تک نہیں پہنچ رہی ہیں ۔ یہ محاصرہ جس کا مقصد غزہ کی آبادی کو بھوکوں مارنا ہے واضح طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ایک غاصب قوت کا محکوم آبادی کے خلاف اعلان جنگ بہت عجیب سی بات ہےلیکن طاقت کے بے پناہ استعمال کے باوجود اسرائیل اہل غزہ اور حماس کی مزاحمت کو ختم نہیں کر سکا ہے۔ فلسطینی جنگجو اب بھی اسرائیلی علاقوں میں لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔اس جنگ کے جلد ختم ہونے کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں بلکہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ جنگ مقبوضہ مغربی کنارے تک بھی پھیل سکتی ہے جہاں پہلے سے ہی اسرائیلی افواج موجود ہیں۔ 
 اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پہلے ہی یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اسرائیلی ردعمل مشرق وسطیٰ کو تبدیل کر دے گا۔درحقیقت یہ جنگ پہلے ہی علاقے کی جغرافیائی سیاست کو بدل رہی ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی حمایت کی ہے۔ اس تنازع نے ایک بار پھر مغربی منافقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔طویل عرصے سے مصائب کا شکار ان مظلوموں کی مشکلات بھی مغرب کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ سکیں ۔ 
 مغربی دنیا اسرائیل کی نسل پرست پالیسیوں کے آگے منہ پھیر لیتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے عسکری قوت کا وحشیانہ استعمال اور مغرب کی جانب سے اس کی حمایت شاید ابھی مزید فلسطینیوں کی جان لےگی لیکن اس مزاحمت کو نہیں کچل سکتی۔ غزہ کو پوری طرح سے تباہ و برباد کردینے کے بعد بھی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا جنگی جنون برقرار ہے۔ وہ زمینی حملہ کرکے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکیاں روزانہ دے رہے ہیں لیکن اب تک وسیع تر زمینی حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرسکے ہیں ۔ ہر چند کہ ان کی فوج چھاپہ مار کارروائیاں کررہی ہے لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غزہ میں باقاعدہ داخل ہونے سے کس قدر خوفزدہ ہے۔ہوائی حملے اور بمباری میں دوبدو جنگ کا خطرہ نہیں ہوتا ہے اور کسی فوجی کی جان جانے کا خطرہ بھی بہت کم ہوتا ہے لیکن زمینی حملے کی صورت میں کیا خطرات سامنے آئیں گے اس بارے میں کوئی بھی اندازہ لگانا مشکل ہے۔
  اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوغطریس نے غزہ میں ہونے والی عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں پر جب اسرائیل کو آئینہ دکھانا شروع کیا اور انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تو اسرائیل چراغ پا ہو گیا ۔ اس نے نہ صرف اقوام متحدہ کےسیکریٹری جنرل سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کردیا بلکہ انہیں اسرائیل کے تئیں جانبدار بھی قرار دے دیا جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے غطریس نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا جو اس سے پہلے نہیں کہا گیا ہو ۔ خود اقوام متحدہ کی اسرائیل کے خلاف متعدد قرار داد موجود ہیں جو یہ واضح کرتی ہیں کہ ماضی میں بھی اس کی جارحانہ اور وحشیانہ کارروائیوں کی شدید مذمت ہوتی رہی ہے۔انتونیو غطریس نے بھی حماس کی واضح طور پر مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کو آئینہ دکھایا تھا ۔ ہر چند کہ ماضی میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے براہ راست مذمت کا واقعہ یاد نہیں آتا لیکن عالمی ادارے کی متعدد قرار دادیں اس کی ویب سائٹ پر موجود ہیں ۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس مرتبہ ایسا کیا ہوا کہ اسرائیلی نمائندے اتنے چراغ پا ہو گئے؟
 اس کی وجہ ہماری سمجھ میں یہی آتی ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں اسرائیل نے سفارتی سطح پر اپنے آپ کو قابل قبول بنوانے میں کافی تگ و دو کی ہے۔ عرب ممالک سے اسکے تعلقات میں کافی بہتری آئی تھی اور اس نے کمال ہوشیاری سے ۲؍ ریاستی حل کو پس پشت ڈالتے ہوئے دنیا کے ذہنوں سے یہ بات محو کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ غاصب قوت ہے اور فلسطین کے علاقوں پر قبضہ جماچکا ہے۔ انتونیو غطریس نے اسرائیل کو ۵۶؍ سال کا جبری اور گھٹن زدہ قبضہ یاد دلادیا۔ انہوں نے یہ بات کسی چھوٹے موٹے پروگرام میں نہیں بلکہ ایسے عالمی فورم پر کہہ دی جہاں پوری دنیا کے نمائندے موجود تھے۔ ان کے بیان کا نوٹس لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی نمائندے اتنے برہم ہو گئے کہ انہوں نے غطریس کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔ چونکہ جنگ جیتنے کا ایک اصول فریق مخالف کو اعصابی طور پر کمزور کرنا بھی ہوتا ہے، اس  لئے  اسرائیل کی حامی خبروں سے  پوری دنیا میں تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے بہت بڑی حماقت کر دی ہے۔ اس کی حماقت کی سزا نہ صرف غزہ بلکہ پورے فلسطین کو بھگتنی پڑ رہی ہے اور یہ کہ اسرائیل اپنی کارروائیوں میں حق بجانب ہے۔ اس تاثر کو مزید مضبوط کرنے کے  لئے امریکہ اور اس کے حواری اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی  اور بمباری کو اسرائیل کی مدافعت کا حق قرار دے رہے ہیں۔ گویا حماس کے خلاف جنگ جیتنے کے  لئے بھرپور  پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے لیکن جب کسی عالمی ادارہ کا سربراہ اپنے ایک بیان سے اس پروپیگنڈے کی ہوا نکال دے اور سچائی کو پوری دنیا کے سامنے ببانگ دہل بیان کردے تو اسرائیل کا تلملانا اور بوکھلانا فطری ہے۔
  اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تلملاہٹ میں اسرائیل اہل غزہ پر ظلم کے اور کتنے پہاڑ توڑتا ہے اور فلسطین کے مصیبت زدہ عوام کس حد تک صبر کرتے ہیں۔ ویسے یہ طے ہے کہ جب بوکھلاہٹ طاری ہوتی ہے تو پھر دانشمندانہ اقدامات کا کوئی راستہ نہیں نکلتا اور جو راستہ بچتا ہے وہ سیدھے زوال کی طرف جاتا ہے۔ انہیں مکافات عمل کا ڈر ستارہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK