Inquilab Logo

کیا پیغام ہے امریکی صدر کی حالیہ تقریر میں؟

Updated: February 17, 2023, 11:08 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

موصوف نے اپنی پالیسی اور اقدام کو امریکہ کے حق میں مفید ثابت کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ریپبلکن پارٹی کے لوگوں کو اعتماد میں لے کر ہی انہوں نے وہ اقدام یا فیصلے کئے تھے جو امریکہ کیلئے نتیجہ خیز اور مفید ثابت ہوئے ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی سالانہ تقریر جو ’’اسٹیٹ آف دی یونین‘‘ کہلاتی ہے اس وقت کی ہے جب چین اور امریکہ میں ایک خاموش جنگ جاری ہے۔ بحیرۂ ہند میں کشمکش پہلے ہی جاری تھی کہ روس اور یوکرین میں جنگ چھڑ گئی اور اب وہ غبارہ پھٹنے کا بھی امکان پیدا ہوگیا ہے جو چین نے چھوڑا ہے اور جو امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ ہم چین سے کانفلیکٹ (تصادم و ٹکراؤ) نہیں کامپی ٹیشن (مسابقت/ مقابلہ) چاہتے ہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی بیان دیا ہے کہ ہم مسابقت سے نہیں گھبراتے لیکن واقعہ یہ ہے کہ دونوں کے ذہن میں مسابقت کا تصور تجارت و سفارت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں عالمی معیشت پر قبضہ کے ساتھ جنگی مشق سے جنگ تک سب کچھ شامل ہے اور ہر معاملے میں چین امریکہ کو اور امریکہ چین کو شکست دینے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ اس کشمکش کو وسیع تر پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔
 امریکی پارلیمنٹ کے دو ایوان ہیں۔ ایک کو سینٹ کہتے ہیں۔ اس میں جو بائیڈن کو پارٹی کی اکثریت حاصل ہے لیکن دوسرے ایوان ہاؤس آف ری پریزنٹیٹو (ایوان نمائندگان) میں حزب مخالف یعنی ریپبلکن پارٹی کے نمائندوں کو اکثریت حاصل ہے اس لئے اپنی بات منوانے یا اپنا من پسند قانون پاس کروانے کے لئے جو بائیڈن کی پارٹی کو حزب اختلاف کا اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ دوسری بار صدارت کی کرسی حاصل کرنے کے لئے تو یہ اور ضروری ہے۔ شاید اسی لئے اپنی مذکورہ تقریر میں انہوں نے زیادہ توجہ داخلی معاملات میں دی ہے۔ اپنی اور اپوزیشن پارٹی کو یہ یاددہانی کرانے کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ جو کر رہے ہیں، کر چکے ہیں یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں سب امریکہ کو مضبوط تر بنانے اور دنیا بھر کے ملکوں پر اس کی برتری برقرار رکھنے کے لئے ہے۔ موصوف نے اپنی پالیسی اور اقدام کو امریکہ کے حق میں مفید ثابت کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ریپبلکن پارٹی کے لوگوں کو اعتماد میں لے کر ہی انہوں نے وہ اقدام یا فیصلے کئے تھے جو امریکہ کے لئے نتیجہ خیز اور مفید ثابت ہوئے ہیں۔ آئندہ بھی انہوں نے اپنی یہ پالیسی یعنی ریپبلکن پارٹی کے نمائندوں کو اعتماد میں لینے کی پالیسی جاری رکھنے کی بات کہی۔ اپنے ملک کی برتری کو باقی رکھنے کی ان کی کوششوں پر سوال اٹھانا مشکل ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ جو کوشش کر رہے ہیں مسند صدارت پر آئندہ بھی فائز ہونے کیلئے یہ ضروری بھی تھا۔ داخلی معاملات پر زیادہ توجہ کرنا بھی اسی لئے تھا کہ امریکی عوام کو یقین دلایا جا سکے کہ وہ امریکہ کو ہر اعتبار سے یعنی معاشی، فوجی اور سماجی اعتبار سے دنیا کا مثالی ملک بنانے میں کامیاب ہیں اور اس کامیابی کو باقی رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ امریکی عوام آئندہ کیلئے بھی ان کو صدارت کی کرسی پر فائز کریں۔
 کچھ دنوں پہلے انہوں نے چین کے جاسوسی غبارے کو مار گرانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کے اس اعلان یا فیصلے پر مباحثے بھی ہو رہے ہیں اس لئے یہ حیرت کا باعث نہیں کہ انہوں نے اپنی مذکورہ تقریر میں اپنے اعلان یا فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی۔ نہ صرف اپنے فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی یا اپنے فیصلے کا جواز فراہم کیا بلکہ اس عزم کو بھی دہرایا کہ جب بھی چین امریکہ کی سالمیت اور خودمختاری پر حملہ کرے گا، امریکہ اس کا جواب دے گا۔ امریکی صدر کا انداز تو ایسا تھا جیسے وہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو ایسا کریں گے ان کو ان کا ملک سزا دے گا۔ اسی تقریر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ کو بھی وہ باور کرا چکے ہیں کہ وہ تصادم و ٹکراؤ نہیں چاہتے بلکہ مسابقت اور مقابلہ آرائی پر گامزن رہنے کے اپنے فیصلے اور اعلان پر اب بھی قائم ہیں۔ وہ چین سے ہر قسم کا تعاون کرتے رہیں گے۔ ہاں ان کے ملک کی مقتدریت یا خودمختاری پر کسی طرح کی ضرب پڑی تو پھر منہ توڑ جواب دینے یا ایسا کرنے والوں کو سبق سکھانے سے گریز نہیں کریں گے۔
 اب زبان سے کہنا یا تاثر دینا غلط نہیں ہے۔ ہر ملک کو اپنی سرحدوں اور مقتدریت کی حفاظت کرنے کا حق ہے۔ مگر کیا امریکہ اور چین اس وقت جس راہ پر گامزن ہیں یا آئندہ جس قسم کا اقدام کرنے کی بات کہہ رہے ہیں وہ عمومی معنی میں اپنی سرحد اور قومی مفاد کا تحفظ کرنے جیسا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں، یہ تو سیدھے سیدھے دنیا پر فوجی، سائنسی اور سیاسی یا سفارتی برتری حاصل کرنے کی جنگ ہے جو کسی بھی وقت مکمل جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ دونوں ملک اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں مگر ان کی مجبوری یا مصلحت ہے کہ وہ سرحدوں یا قومی مفادات پر حرف آنے کی صورت میں دفاع یا اقدام کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ گزشتہ سال اگست میں سابق اسپیکر نینسی پیلوسی تائیوان کا دورہ کرچکی ہیں اور نئے یا موجودہ ہاؤس اسپیکر کیون میکارتھی بھی جن کا تعلق جو بائیڈن کی مخالف ریپبلکن پارٹی سے ہے تائیوان کا دورہ کرنے والے ہیں لہٰذا چین کا مشتعل ہونا اور امریکہ کا اس اشتعال کو کم کرنے کی کوشش کرنا ضروری تھا سو انہوں نے یہی کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جو بائیڈن کی ایک مشکل بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ دوبارہ صدارتی الیکشن لڑنا اور اس میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے امریکی عوام کو یہ پیغام یا تاثر دینا ضروری تھا کہ امریکی قیادت مضبوط ہاتھ میں ہے اور یہ ہر شعبہ میں اپنی برتری کو برقرار رکھے گی۔ ’’اسٹیٹ آف دی یونین‘‘ تقریر میں بھی انہوں نے یہی کہا ہے۔
 اس تقریر میں جہاں یہ پیغام ہے کہ امریکہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جس سے چین سے اس کی جنگ کا امکان پیدا ہو وہیں یہ پیغام بھی ہے کہ امریکہ ہر شعبۂ حیات میں کل بھی اپنی برتری برقرار رکھے ہوئے تھا اور آئندہ بھی برقرار رکھے گا۔ وہ امن کا حامی ہے مگر برتری قائم رکھنے کے لئے جنگ بھی کرسکتا ہے۔

american Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK