Inquilab Logo

موجودہ ماحول میں مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی کیا ہو؟

Updated: February 07, 2023, 1:43 PM IST | Hassan Sarwar | Mumbai

مسلمانوں کو قلیل مدتی حل کی نہیں بلکہ سیاسی طور پر مخالف اور ثقافتی طور پر پولرائزڈ ہوچکے معاشرہ میں اپنے وجود کی بقا کیلئے طویل مدتی منصوبے اور حکمت عملی کی ضرورت ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

گزشتہ دنوں مجھے ایک خوش کن حدتک مبہم  موضوع ’’ہندوستانی سیاست کے موجودہ ماحول میں مسلم سیاست‘‘ پر  مذاکرہ کا دعوت نامہ ملا۔ ہمیں بتایاگیا کہ مذاکرہ کا پس منظر آنے والے مہینوں میں یکے بعدیگرے ہونے والے اسمبلی انتخابات ہیں جنہیں  ۲۰۲۴ء   کے  پارلیمانی الیکشن کا’سیمی فائنل‘ قراردیا جارہاہے۔ افسوس کہ میں اس میں شرکت نہیں کر سکا، مگر جن دوستوں نے اس میں شرکت کی،  ان کا کہنا ہے کہ اس میں شرکت کرکے میں نے اپنا کوئی نقصان نہیں کیا، یعنی میں  نے کچھ بھی نہیں کھویا ۔  
 ایک صاحب نےبتایا کہ اس مذاکرہ  میں بھی ’’وہی معمول کی اُداسی اور یاسیت بھری باتیں ‘‘ تھیں۔اس بات پر تنقید ہوئی کہ مسلم سماج ’’بہت زیادہ سیاست زدہ‘‘ ہے۔ ’’مسلم سیاست‘‘ا ور ’’مسلم لیڈرشپ‘‘ جیسے موضوعات ہمیشہ میرے لئے دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ مسلم معاشرہ کے تعلق سے سب سے بڑی غلط فہمی یہی ہے کہ  وہ بہت زیادہ سیاست زدہ  ہے۔ اگر سیاست سے ہماری مراد ایسے سیاسی نظریات ہیںجو کسی کےاہداف اور مفادات کے فروغ  کا باعث بنتے ہیں    (اور یہی ہونا بھی چاہئے)  تو حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرہ کے تعلق سے یہ گمان قطعی غلط ہے۔ اس کے برخلاف مسلم سماج سیاسی خلاء کا شکار ہے۔ ان کے پاس نہ کوئی معتبر سیاسی لیڈرشپ ہے، نہ ہی کوئی ایسا سنجیدہ سیاسی منصوبہ ہے جس کے ذریعہ اپنی نمائندگی کو بڑھانا مقصود ہو(ورنہ ۲۰۰؍ ملین افراد کچھ تو اہمیت رکھتے ہیں۔) مسلمانوں کے پاس سیاسی لابنگ کیلئے نہ قابل اعتبار گروپ ہیں  اورنہ  ہی کوئی سیاسی پلیٹ فارم ہے۔  شہریت ترمیمی ایکٹ  کے خلاف شاہین باغ جیسے مظاہرہ کو چھوڑ دیں تو مسلمانوں میں  سیاسی فعالیت کا بھی فقدان ہے۔ کم از کم  جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے،  جو ایک طویل عرصہ ہے،  یہی  صورتحال ہے۔ 
 اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم معاشرہ ایک طرح کے الجھاؤ کا شکار ہے۔ خود ساختہ اور خود پسند سیاسی لیڈروں کی غلط ترجیحات کی وجہ سے برسہابرس سے وہ اصل مسائل پس پشت چلے گئے ہیں جو اس  کے وجود کی بقا سے متعلق ہیں اور اس کے برخلاف معاشرہ اسلامی شناخت  کے علامتی موضوعات جیسے مسلم پرسنل لاء، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مسجد، مدرسہ اور اب حجاب   کے معاملات میں الجھ کر رہ گیا ہے۔  روزی روٹی، سلامتی، تعلیم، روزگار اور امتیازی سلوک جیسے کلیدی مسائل کی جانب وہ توجہ ہی نہیں دے پاتا۔ ساری سیاست شناخت کی سیاست تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔اس سلسلے میں نہ کانگریس نے کوئی رول ادا کیا، نہ ہی سیکولر سمجھی جانے والی دیگر پارٹیوں  (ایس پی، بی ایس پی یا جنتادل پریوار سے علاحدہ ہونےوالی دیگر پارٹیوں)نے کوئی مدد کی۔  ان پارٹیوں  نے مسلمانوں کے مفاد میں کام کرنے کا دعویٰ تو کیا مگر فی الحقیقت وہ مسلمانوں  کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتی رہیں۔ 
 ان کا کہنا ہے کہ مسلمان اس وقت جس   اہم  ترین چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں وہ سیاسی اور سماجی طور پر انہیں منصوبہ بند طریقے سے حاشیہ پر ڈالا جانا ہے۔ جنہیں کبھی  ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا وہ اب سیاسی اچھوت بن کررہ گئے ہیں۔ یہ بہت بڑی تنزلی ہے۔ 
 وہ اسی ذہنی  انتشار اور کنفیوژن  کے ساتھ آنے والے اسمبلی انتخابات کی تیاری کررہے ہیں۔  ان کے پاس ان انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوئی حکمت عملی ہے، نہ کوئی ایسا منصوبہ جس کے ذریعہ سیاسی سطح پر وہ  اپنی موجودگی کااظہار کرسکیں۔اگر ان کے پاس کوئی حکمت عملی ہے تو وہ بس منجدھار کے ساتھ اس امید کے ساتھ بہنا ہے کہ ’’کچھ تو ہو ہی جائےگا۔‘‘ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ  جب تک اس بات کو نہیں سمجھا جائےگا کہ انہیں کس طرح کے بحران کا سامنا ہے اوراس سے نکلنے کیلئے  جب تک ضروری کوششیں اور اقدامات نہیں  ہوںگے تب تک کچھ نہیں ہوگا۔ افسوس کہ  ماضی میں کی گئی سیاسی غلطیوں کے احساس کرلینے کے علاوہ   ایسا کچھ  ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر یہ خیال تقویت پارہا ہے کہ کسی متبادل کا انتخاب کئے بغیر کانگریس کو ترک کرنے کافیصلہ بہت جلد بازی  میں کر لیا گیاتھا۔ 
 جیسا کہ میں ان کالموں میں  پہلے بھی لکھ چکا ہوں، مسلم سیاسی طور پر الگ تھلگ کردیئے جانے کی موجودہ صورتحال سے نکلنے کیلئے اب کانگریس کے پاس واپس جانے کے خلاف نہیں  ہیںمگر اب کانگریس اس کیلئے بہت زیادہ تیار نظر نہیں آتی۔ کانگریس کیلئے مسلمان اب ترجیح  نہیں  رہ گئے کیوں کہ وہ  اپنی ’مسلم حامی ‘شبیہ سے باہر نکلنے کی تگ و دو میں  ہے۔  سینئر لیڈر اے کے انٹونی اپنی پارٹی سے عوامی سطح پر یہ اپیل کرچکے ہیں کہ وہ اقلیتی ووٹروں کو واپس لانے کی کوششوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ہندو ووٹروں کے دل جیتنے پر توجہ مرکوز کرے۔ تھرو اننت پورم میں کانگریس کے یوم تاسیس سے خطاب کرتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ ’’آپ کو صرف اقلیتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اکثریتی ہندوؤں کی ہے۔ یہاں مسلمان مسجد  اور عیسائی چرچ میں تو جاسکتاہے مگر جب ہندو دوست مندر میں جاتے ہیں یا ماتھے پر تلک لگاتے ہیں تو ان پر ’نرم ہندوتوا‘ کا لیبل لگا دیا جاتاہے۔‘‘ان کا یہ بیان مسلمانوںکی دوری سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کیلئے ’نرم ہندوتوا‘ کی طرف کانگریس کی پیشقدمی کا مظہر ہے۔ 
 ’مسلمانوں کی منہ بھرائی‘ کے بی جےپی کے الزام کی اگر کسی تصدیق کی ضرورت تھی تو اے کے انٹونی کا یہ بیان اس  ضرورت کی بدرجہ اتم تکمیل کرتا ہے ۔ انٹونی بالکل وہی بات کہہ رہے ہیں جو بی جےپی کہتی آرہی ہے کہ ہندو اکثریتی ہندوستان میں اقلیتوں کو رجھانے کی کوشش کرنااچھی سیاست نہیں  ہے۔ توقع کے عین مطابق بی جےپی نے کانگریس کو نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ ’’مسلم ووٹ بینک‘‘ کو کھو دینے کے بعدکانگریس  اب ہندوؤں کو رجھانے کی کوشش کررہی ہے۔ 
  ایسے وقت میں جبکہ  راہل گاندھی  بی جےپی کی انتشار کی سیاست کا مقابلہ کرنے کیلئے ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں مصروف ہیں، انٹونی کا یہ عجیب وغریب بیان ایسا نہیں تھا کہ اس کا نوٹس نہ لیا جاتا۔ اس نے  بلاشبہ مسلم ووٹروں کو کنفیوژ کردیاہے جو یہ سمجھ رہے تھے کہ راہل گاندھی کی بھارت  جوڑو یاترا کا ایک بنیادی مقصد پارٹی کے پرانے مسلم  اور اقلیتی ووٹروں کو پیغام دینا ہے۔ حالانکہ  انٹونی کے بیان سے قبل بھی یہ واضح نہیں تھا کہ بھارت جوڑو یاترا کی وجہ سے  راہل گاندھی  کے تعلق  سےمسلمانوں  میں پیدا ہونے والی دلچسپی کس حدتک ووٹوں میں  تبدیل ہوگی مگر انٹونی کے مذکورہ بیان کے بعد تو یہ اور بھی غیر واضح ہوگیاہے۔ 
  پولرائزیشن کے اس ماحول میں جہاں مسلمانو ں کیلئے  انتخابات میں متبادلات محدود ہوتے چلے جارہے ہیں، مسلم ووٹروں کی ذہنی کیفیت کو بیان کرنے کیلئے  انگریزی لفظ ’ڈائلیما‘ (گومگو کیفیت، یا دہری مشکل)مسلمانوں کے ساتھ نتھی سا ہوگیا ہے۔   اگر آپ گوگل پر لفظ ’مسلم‘ اور ’ڈائلیما‘ ٹائپ کرکے  سرچ کریں تو آپ کو کچھ اس طرح  کے نتائج ملیں گے:
(اردو ترجمہ)  ’اتر پردیش کے مسلم ووٹروں کی گومگو صورتحال‘‘، ’’مسلم ووٹر گومگو کی کیفیت کا شکار‘‘، ’’بنگال میں مسلمانوں کیلئے دہری مشکل‘‘، ’’کسے ووٹ کریں : مسلمانوں کی دہری مشکل‘‘...
 مجھے یاد ہے کہ اُن اچھے دنوں میں جب مسلمانوں کے پاس متبادل ہوا کرتا تھا، مسلمان ہمیشہ شکایت کیا کرتے تھے کہ انہیں سیاسی منظر نامہ میں غلط جگہ پر رکھا گیا ہے۔ حالیہ دنوں  میں  سیاسی منظر نامہ  کے محدود ہوجانے کی وجہ سے مسلم ووٹروں کی مشکل اور بڑھ گئی ہےکیوں کہ ہندو ووٹروں کو رجھانے کی دوڑ میں ان کے پرانے اتحادیوں نے ان کی جانب توجہ دینا چھوڑ دیا ہے۔ 
 تو اب سوال یہ  پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان خود کو سیاسی طور پر بامعنی بنانے کیلئے کیا کریں او ر کہاں جائیں؟ ان کے پاس بہت زیادہ متبادلات نہیں ہیںمگر کئی نظریات ہیں جن پر گفتگو ہورہی ہے۔ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان مستقبل میں تمام انتخابات کا پوری طرح سے بائیکاٹ کر دیں۔یہ بھی کہا جارہاہے کہ مسلمانوں کو سیکولر سیاسی جماعت کھڑی کرنی چاہئے یا  وہ دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ مل کر  تحریک شروع کریں۔ یہ صلاح بھی دی جارہی ہے کہ مسلمان صرف مسلم امیدوار کو  ہی ووٹ دینے کی حکمت عملی اختیار کریں یا پھر ان ہی امیدواروں کو ووٹ دیں جوان کی پریشانیوں کو حل کرنے کا وعدہ کریں۔ 
 مگر ان میں سے کوئی بھی منطقی  یا بہت سوچ سمجھ کر دیا گیا مشورہ نہیں ہے۔ اس کے برخلاف یہ اپنے وجود کی بقا کے چیلنج سے دوچار الگ تھلگ کئے جاچکے  اورقیادت سے محروم  معاشرہ  کے اس کنفیوژن کو ظاہر کرتا ہے جس کا وہ  شکار  ہے۔ مسلمانوں کو قلیل مدتی حل کی نہیں بلکہ  سیاسی طور پر مخالف  اور ثقافتی طور پر پولرائزڈ ہوچکے معاشرہ میں اپنے وجود کی بقا کیلئے طویل مدتی منصوبے اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک عملی اور عام فہم حل یہ ہوگا کہ غوروخوض کریں، شناخت کےمسائل کو کچھ دیر کیلئے پس پشت ڈال دیں، نظریات کو بھی بالائے طاق رکھیں  اور اُس کی تائید کریں جس کے بارے میں  یقین ہوکہ  وہ اُن کیلئے کام کرےگا۔ 
(حسن سرور سیاسی تجزیہ نگار  ہیں جو لندن میں مقیم ہیں۔ )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK