بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کیلئے امروہہ سے منتخب کنور دانش علی کے ساتھ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے آخری دن جو کچھ ہوا، ہماری پچہتر سالہ پارلیمانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔
EPAPER
Updated: September 25, 2023, 1:42 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کیلئے امروہہ سے منتخب کنور دانش علی کے ساتھ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے آخری دن جو کچھ ہوا، ہماری پچہتر سالہ پارلیمانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔
بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کیلئے امروہہ سے منتخب کنور دانش علی کے ساتھ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے آخری دن جو کچھ ہوا، ہماری پچہتر سالہ پارلیمانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ جمہوریت میں مذہب، ذات، فرقہ، برادری، خطہ، زبان وغیرہ کو بنیاد بناکر طعن و تشنیع بھی ممکن نہیں ہے تو نہایت سوقیانہ انداز میں براہ راست گالی گلوج کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ ہوا ہے، جمہوریت کے مندر میں ہوا ہے اور ایک رکن پارلیمان (بدھوڑی) کے ذریعہ ہوا ہے اس لئے یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ آئندہ بھی ایسے واقعات ہوں ، پارلیمنٹ کے اندر بھی ہوں اور باہر بھی ہوں ، کبھی کبھار نہیں بار بار ہوں ، اس لئے ضروری ہے کہ خاطی رکن پارلیمان کو قرار واقعی سزا ملے جو اس بات کو یقینی بنا دے کہ جو ہوا وہ پہلی بار تو تھا، آخری بار بھی تھا اور اب اس نوع کا واقعہ کبھی نہیں ہوگا، کہیں نہیں ہوگا۔ اس کیلئے ازحد ضر ری ہے کہ ان کے خلاف پنج طرفہ کارروائی ہو:
(۱) لوک سبھا کے اسپیکر انہیں ایوان کیلئے نااہل قرار دیں اور ان کی رکنیت منسوخ ہو۔
(۲) بی سے پی کے قومی صدر انہیں پارٹی سے برخاست کریں ۔
(۳) کوئی دوسری پارٹی انہیں اپنی صف میں شامل نہ کرے اور اگر کرتی ہے تو یہ اعلان کرے کہ اسے ان کی بدزبانی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
(۴) حکومت بدھوڑی کی بدزبانی پر شرمسار ہے تو اسے چاہئے کہ جس طرح ان الفاظ کی فہرست شائع کی جاتی ہے جن کا پارلیمنٹ میں استعمال ممنوع ہے بالکل اسی طرح عوامی زندگی کیلئے قانون بنائے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنے والے کے خلاف پولیس فوراً کارروائی کرے گی جو نوعیت کے اعتبار سے ’’ایٹروسٹی ایکٹ‘‘ کی طرح سخت ہوگی۔کیا یہ سب ہوگا؟ ملک کے مفاد پرستانہ اور جانبدارانہ سیاسی نظام بالخصوص موجودہ حالات میں اس کی تمنا کرنا خود کو دھوکے میں رکھنے جیسا ہے مگر چونکہ حکومتیں قانون کی بالادستی کا دم بھرتی ہیں اس لئے وہ یا تو اس طرح دم بھرنا ترک کردیں اور ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے رو بہ عمل رہنے کا اعلان کردیں یا ان تجاویز پر غور کرکے نیز قانونی پہلوؤں سے اس کا جائزہ لے کر ایک ایسا قانونی حصار بنا دیں جس سے باہر نکلنے کی جرأت کسی میں نہ ہو۔
(۵) وزیر اعظم مودی نے پارلیمنٹ کی پرانی عمارت سے نئی عمارت میں منتقلی کے موقع پر جو کچھ کہا تھا اس کے مفہوم میں یہ بھی تھا کہ یہ عمارت اراکین پارلیمان کے درمیان بہتر اور خوشگوار تعلقات کو مستحکم کرنے میں معاون ہوگی جس سے جمہوریت کو فروغ حاصل ہوگا۔ مگر اس تقریر کے پانچویں دن ہی مودی صاحب کی پارٹی کے ایک سانسد بدھوڑی نے تمام پارلیمانی مریاداؤں کی ایسی تیسی کردی۔ اب یہ وزیراعظم کی بھی آزمائش ہے کہ وہ پارلیمانی اخوت کے بیان کردہ فلسفہ پر قائم رہتے ہیں اور بدھوڑی جیسوں کو منہ بند رکھنے کا حکم دیتے ہیں یا خاموش رہ کر بالواسطہ حمایت کو ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ گزشتہ ساڑھے نو سال سے تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے ۔سابقہ تجربات کی روشنی میں بعض لوگوں کو یقین ہے کہ بدھوڑی کا نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں ہوگا بلکہ جلد یا بہ دیر ان کی قدر افزائی ہی ہوگی۔ بلاشبہ ماضی میں ایسا ہوا ہے مگر کیا ایسا ہوتا ہی رہے گا؟ پارلیمنٹ کی پرانی عمارت میں جو پچہتر سال میں کبھی نہیں ہوا، وہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے پہلے ہی اجلاس میں ہوگیا۔ اگر اس پر خاموشی رہی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بدھوڑی جیسوں کی عادت بن جائے اور نئی عمارت میں آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے!