Inquilab Logo Happiest Places to Work

کرنی سینا سے تحفظ کیلئے رکن پارلیمان رام جی لال سمن نظر بند

Updated: May 02, 2025, 11:23 PM IST | Agra

جے بھیم کہنے پرزدوکوب کئے گئے نوجوان سے ملنے علی گڑھ جارہے تھے جہاں ان پر کرنی سینا حملہ کرچکی ہے، پولیس نے گھر سے باہر ہی نہیں نکلنے دیا، پورا علاقہ چھاؤنی میں تبدیل کردیاگیا

Samajwadi Party MP Ramji Lal Saman talking to the media at his residence.
سماجوادی کے ایم پی رام جی لال سمن اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتےہوئے

مسلمانوں کو بابر کی اولاد کہنے والوں کو راجیہ سبھا میں منہ توڑ جواب دینے والے سماجوادی پارٹی  کے ایم پی   رام جی لال سمن کو کرنی سینا سے تحفظ فراہم کرنے کے بجائے یوگی سرکار نے انہیں  ہی گھر پرنظر بند کردیا ہے۔ وہ  علی گڑھ میں جے بھیم کہنے کی پاداش میں  ۲؍ دلت نوجوانوں کو زدوکوب کئے جانے کے معاملے میں  ان سے ملنے اور یکجہتی کااظہار کرنے کیلئے  جانا چاہتے تھے مگر پولیس نے نہ صرف یہ کہ انہیں   روکنے کیلئے گھر پر نظر بند کردیا بلکہ پورے علاقے کو چھاؤنی میں تبدیل کردیا ہے۔  
 ان کے گھر کے باہرمتعدد تھانوں کی پولیس اور پی اے سی  کے جوان  تعینات ہیں۔ پولیس نے رام جی لال سمن کے گھر کے چاروں طرف سیمنٹ کی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ 
 مکان کے آس پاس کا علاقہ چھاؤنی بنا دیا گیا
 پولیس کی کارروائی کے خلاف ممبرپارلیمنٹ    دھرنے  پر بیٹھ گئے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت کے کہنے پر انہیں سیکوریٹی کے نام پر نظر بند کیا گیا ہے۔رام جی لال سمن نے کہا کہ دلتوں پر مسلسل ظلم ہو رہا ہے۔ ان کی آواز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کے دکھ میں شریک ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ ممبرپارلیمنٹ نے بتایا کہ انہیں بلند شہر میں اس  دلت خاتون کے گھر جانے کی اجازت  بھی نہیںدی گئی جسے  شہ زوروں نے  بری طرح مارا پیٹا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اب ہمیں علی گڑھ جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ وہاں بابا صاحب   امبیڈکر کا ویڈیو بنانے پر تین نوجوانوں کو مارا پیٹا گیا۔ تینوں نوجوانوں کو برہنہ کرکے سرعام زدو کوب کیا گیا۔ اس کا ویڈیو بھی بنایاگیا۔ وہ ویڈیو سب نے دیکھا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ صرف دلت نوجوانوں کو دفعہ۱۵۱؍ کے تحت چالان کرکے گرفتار کیا گیا۔ان کو برہنہ کرنے اور بے رحمی سے مارنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ‘‘سمن نے بتایا کہ ’’اس سے پہلے جب ہم بلند شہر جا رہے تھے تب ہم پر حملہ کیا گیا۔ اتر پردیش کی حالت پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ اب سب کچھ وزیر اعلیٰ کے دفتر میں بیٹھے لوگوں کے کہنے پر ہو رہا ہے۔‘‘
کرنی سینا کیوں ناراض  ہے
واضح رہے کہ۲۱؍ مارچ کو ایس پی رکن پارلیمنٹ رام جی لال سمن نے راجیہ سبھا میں رانا سانگا پر بیان دیا تھا، جس پر کرنی سینا، چھتریہ سماج اور ہندو تنظیموں نے برہمی کا اظہار کیا۔۲۶؍ مارچ کو کرنی سینا نے ایم جی روڈ پرواقع  ان کی  رہائش گاہ پر حملہ کیا۔ ایک بڑا ہنگامہ بھی برپا کر دیا، جس میں کرنی سینا کے حامی اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ اس کے بعد ہری پروت پولیس اسٹیشن میں دو کیس درج کیے گئے۔ رکن پارلیمان  کے بیان کی مخالفت میں کرنی سینا نے۱۲؍ اپریل کو ’رکت سوابھیمان سمیلن‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا۔۲۷؍ اپریل کو علی گڑھ کے گبھانہ میں ان کے قافلے پرسمن پر حملہ کیا گیا۔ ایس پی ایم پی رام جی لال سمن تقریباً۲۰؍ گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ آگرہ سے بلند شہر جا رہے تھے۔ اس کے بعد کرنی سینا کے عہدیداروں نے علی گڑھ کے کھریشور چوک پر رام جی لال سمن کے خلاف نعرے لگائے اور ٹائر پھینکے۔ رکن پارلیمان کے ڈرائیور کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے کالا تیل پھینکا تھا۔ 
 ملنے اورفون کرنے والوں کا ریکارڈ
راجیہ سبھا ایم پی رام جی لال سمن کا گھر ہری پروت پولیس اسٹیشن سے صرف ۵۰۰؍میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ایم پی کی رہائش گاہ کے اطراف کی سڑکوں پر پولیس، پی اے سی اور ریپڈ ایکشن فورس کو تعینات کیا گیا ہے۔ ایم پی کی رہائش گاہ پر پولیس اہلکار اور پی اے سی تعینات ہیں۔ ممبرپارلیمنٹ کے گھر آنے والے یا ان سے ملنے والے ہر فرد کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔ موبائل پر آنے والے تمام فون کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔
عدالت میں مقدمہ زیر سماعت
ادھر ایم جی روڈ پر ایس پی ایم پی کی رہائش گاہ پر کرنی سینا کے حملے کو لے کر رام جی لال سمن ہائی کورٹ پہنچے ہیں۔ ایم پی رام جی لال سمن کے وکیل عمران اللہ نے عدالت میں دلیل دی کہ ایم پی پر حملے کیے جارہے ہیں۔ انہیںقتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ زبان کاٹنے کا ایک کروڑ روپے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ پھر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سن لیے۔ سماعت کے بعد جسٹس راجیو گپتا اور جسٹس ہرویر سنگھ کی عدالت نے یوپی اور مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ اب کیس کی اگلی سماعت ۲۸؍مئی کو ہوگی۔
 رام جی لال کو کرنی سینا سے تحفظ فراہم کرنے کےبجائے انہیں  ہی گھر پر نظر بند کئے جانے کی سیاسی حلقوں میں شدید تنقیدیں ہورہی ہیں اور اتر پردیش میں قانون کی حکمرانی پر سوال اٹھنے لگا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK