راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اگر بی جے پی کو واضح اکثریت مل جاتی ہے تو ان لیڈروں کو ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے لیکن اگر پارٹی ہار جاتی ہے یا جیت ہار کا فاصلہ بہت کم رہتا ہے تو انہیں ہی موقع دیا جاسکتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 04, 2023, 3:41 PM IST | DK Singh | Mumbai
راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اگر بی جے پی کو واضح اکثریت مل جاتی ہے تو ان لیڈروں کو ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے لیکن اگر پارٹی ہار جاتی ہے یا جیت ہار کا فاصلہ بہت کم رہتا ہے تو انہیں ہی موقع دیا جاسکتا ہے۔
ڈی کے سنگھ
اب جبکہ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ووٹنگ کا عمل اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے، بڑا سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ ان ریاستوں میں بی جے پی کے سینئر لیڈروں وسندھرا راجے سندھیا، شیوراج سنگھ چوہان اور رمن سنگھ کا کیا ہو گا؟ کیونکہ بی جے پی ہائی کمان کا پیغام بالکل واضح ہے کہ `انہیں ان ریاستوں میں نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان بڑے لیڈروں کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ پارٹی نے انتخابات کے دوران ’اجتماعی قیادت‘ پر جو زور دیا تھا اس کا بھی یہی مطلب تھا۔
لیکن کیا یہ طاقتور لیڈران ایسا ہونے دینے کیلئے تیار ہیں ؟ کیا وہ یہ ماننے کیلئے تیار ہوں گے کہ ان کے سیاسی غلبے کا وقت ختم ہو گیا ہے اور وہ اب سبکدوشی کی تیاری کر لیں ؟ شاید نہیں ۔۶۴؍سالہ شیوراج سنگھ چوہان اس کیلئے ابھی بہت کم عمر ہیں ۔ ۷۰؍ سالہ وسندھرا راجے سندھیا کا تعلق چونکہ شاہی خاندان سے ہے،اسلئے انہیں وہ کسی اورکی رہنمائی قبول نہیں کریں گی۔۷۱؍ سالہ رمن سنگھ ان امکانات کے بارے میں فی الحال پرسکون دکھائی دیتے ہیں ، لیکن ان کی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر بی جے پی اپنی ریاستوں میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتی ہے تو ان کے پاس اعلیٰ کمان کی خواہشات کو خاموشی سے قبول کرنے اور اپنے لئے کسی نئی ذمہ داری اور عہدے کی امیدکرنے کے علاوہ اورکوئی چارہ نہیں ہوگا۔
لیکن نتائج کے بعد دو اور منظرنامے بھی ابھر سکتے ہیں ۔ سب سے پہلے، اگر بی جے پی بہت معمولی فرق سے جیتتی ہے یا معلق اسمبلی کی صورت ابھرتی ہے، تو اس صورت میں ان قدآور لیڈروں کی اپنے اپنے ریاستوں میں اچھے امکانات ابھرسکتے ہیں ۔ یہ ان کیلئے بہترین منظر نامہ ہوگا۔ بی جے پی کو ریاست میں اپنی حکومت بنانے اور اسے ٹھیک سے چلانے کیلئے ان کی حمایت ناگزیر ہوگی۔ ایسے میں پارٹی کے پاس کسی بھی ریاست میں مستحکم حکومت چلانے کرنے کیلئے کوئی دوسرا لیڈر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وسندھرا راجے سندھیا نے۲۰۰؍ میں سے صرف ۶۰؍ سیٹوں پر انتخابی مہم چلانے کی ضرورت محسوس کی۔ یہ وہ تمام انتخابی حلقے تھے جہاں سے اس کے وفادار میدان میں تھے۔ حالانکہ مرکزی قیادت نے انھیں مہم میں شامل کرنے میں کچھ خاص دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے حامیوں کیلئے انتخابی مہم سنجیدگی سے چلائی۔
اس تناظر میں یہ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کیلئے بھی بہترین صورتحال ہے۔۲۰۰۸ءمیں ، انہوں نے۲۰۰؍ رکنی اسمبلی میں ۹۶؍ ایم ایل ایز کے ساتھ ایک مستحکم حکومت چلائی۔ یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ کانگریس ہائی کمان کو۲۰۱۸ء میں سچن پائلٹ کے دعوؤں کو نظر انداز کرنا پڑا اور گہلوت کے سامنے واپس آناپڑا۔۲۰۱۸ء میں ، پارٹی اکثریت کے نشان سے ایک سیٹ پیچھے رہ گئی تھی۔
بی جے پی کے مضبوط لیڈروں کیلئے، دوسرا منظر نامہ کچھ اس طرح ہوگا۔ یعنی ان انتخابات میں پارٹی کی شکست ہوجائے۔ اس طرح کے نتائج ثابت کریں گے کہ اعلیٰ کمان نے اجتماعی قیادت کے نعرے سے ان قدآورلیڈروں کو کمزور کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس کے بعد بی جے پی کی مرکزی قیادت انہیں تسلی دینے اور انعام دینے کیلئے آگے آئے گی۔ ایک طرح سے یہ ان کیلئے اچھا ہوگا۔
یادر ہے کہ کرناٹک میں بھی کچھ ایساہی ہوا تھا؟ ہائی کمان نے پہلے بی ایس یدی یورپا کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا اور پھر انہیں اُس وقت تک کمزور کرتے رہی جب تک کہ بی جے پی کو اسمبلی انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار نہیں ہوگئی۔ اسمبلی انتخابات کے نتائج سے پریشان، بی جے پی ہائی کمان نے بی ایس یدی یورپا کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے بیٹے وجیندر کو پارٹی کی ریاستی اکائی کا سربراہ بنا دیا گیا اور ان کے وفادار آر اشوک کو اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مقرر کردیا گیا۔ راجے، چوہان اور سنگھ نے کرناٹک میں ہونے والی پیش رفت کو بڑےتحمل اور تجسس سے دیکھا ہوگا اورکچھ اسی طرح کی امید کررہے ہوں گے۔
اب بی جےپی ہائی کمان کےمتبادلات کو دیکھیں ۔ یقیناً، ان ریاستوں میں زبردست فتح اسے اپنی قیادت میں بڑی تبدیلی لانے کے قابل بنائے گی لیکن اگر پارٹی ہار جائے یا معلق اسمبلی کی صورت ابھرے تو اس صورت میں کیا ہوگا؟ کرناٹک میں صورتحال مختلف تھی۔ جنوبی ریاست میں بی جے پی کا بنیادی مرکز بی ایس یدی یورپا اور ان کے سہارے لنگایت ووٹ بینک رہا ہے، جس پر اُن کا کنٹرول ہے۔ اگر ہم ماضی کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو بی جے پی کے بہت سارے لیڈران جو سمجھتے تھے کہ وہ پارٹی سے بڑے ہوگئے ہیں جیسے کلیان سنگھ اور اوما بھارتی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یدی یورپا واحد لیڈر تھے جنہوں نے بغاوت کے بعد اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کو یقینی بنایا۔ یہی وجہ تھی کہ پارٹی کے پی ایم امیدوار بننے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے فوراً ان سے رابطہ کیا اور انہیں پارٹی میں واپس لے آئے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ان اسمبلی انتخابات کے نتائج ان کی توقعات کے مطابق نہیں آئے تو کیا مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ بھی چوہان، راجے اور سنگھ کو اسی طرح راضی کرنے کی کوشش کریں گے؟ میرے ایک ساتھی نے راجستھان سے گراؤنڈ رپورٹ میں بتایا کہ اگرچہ راجے ایک مقبول عوامی لیڈر ہیں ، لیکن ان کے حامی بی جے پی اور پی ایم مودی کے بھی اتنے ہی وفادار ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ریاست کے وزیراعلیٰ کا چہرہ نہ ہوں ، لیکن اس سے ان کی ووٹنگ کی ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
۲۰۱۸ءکے اسمبلی انتخابات میں ہارنے کے بعد ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں جس طرح سے بی جے پی نے ان ریاستوں میں اپنا تسلط برقرار رکھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی ریاستوں کے برعکس، مودی فیکٹر شمالی ریاستوں میں کافی کام کرتا ہے۔ مزید یہ کہ شمالی ریاستوں میں بڑے بڑے لیڈر ابھرنے کے باوجود پارٹی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکے۔ حالانکہ اومابھارتی نے۲۰۰۳ء کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو فتح دلائی تھی لیکن ایک بار انہیں سی ایم کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔اس کے بعد بابولال گوڑ اور پھر شیوراج سنگھ چوہان کو ان کی جگہ لایا گیا اور لوگوں نے پارٹی کے ان فیصلوں کو قبول کیا۔ مطلب یہ کہ اوما بھارتی کے حق میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ ان کی وجہ سے لوگ پارٹی کو چھوڑ دیتے یا اس کے فیصلے سے ناراض ہوجاتے۔
بھیروں سنگھ شیخاوت راجستھان میں کئی دہائیوں تک جن سنگھ اور بی جے پی کا چہرہ تھے۔ اس وقت راجستھان میں بی جے پی کا مطلب شیخاوت تھا۔۲۰۰۲ء میں ، قیادت میں نئی تبدیلی پیدا کرنے کی حکمت عملی کے تحت، شیخاوت کو ہندوستان کے نائب صدر کے طور پر دہلی منتقل کر دیا گیا اور ان کی جگہ وسندھرا راجے سندھیا کو ریاستی بی جے پی کے سربراہ کے طور پر لایا گیا۔۲۰۰۳ء میں ، انہوں نے بی جے پی کو پہلی منزل تک پہنچایا اور اسمبلی میں پارٹی جیت گئی۔
یہ اور بات ہے کہ اُن دنوں اس طرح کی تبدیلیاں ان لیڈروں کی مشاورت سے کی گئی تھیں ۔ راجے کو شیخاوت کی رضامندی سے لایا گیا تھا۔ بعد میں جب انہوں نے ان کے سائے سے باہر آنے کی کوشش کی تو ان کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ ان کے داماد نرپت سنگھ راجوی ان کی حکومت میں وزیر بنے لیکن وہ کبھی بھی ان کے پسندیدہ نہیں رہے۔ اتفاق سے، دو دہائیوں کے بعد۲۰۲۳ء کے اسمبلی انتخابات میں ، راجوی کو ان کے ودیادھر نگر حلقہ سے ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اس کیلئے کہا جارہا ہے کہ ایسا اسلئے ہوا کہ وہ اب راجے کے وفادار کہلاتے ہیں ۔ پہلے تو ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں ٹکٹ ہی نہیں دیا جائے گا لیکن بعد میں بغاوت کو محسوس کرتے ہوئے ہائی کمان نے انہیں دوسری اسمبلی نشست سے امیدوار بنایا۔
خیر اب اصل بات پر واپس آتے ہیں ۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ مودی لہر کی وجہ سے بی جے پی نے راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں لوک سبھا انتخابات میں کلین سویپ کیا تھا، کیا ۳؍ دسمبر کے انتخابی نتائج کی پروا کئے بغیر بی جے پی ہائی کمان وسندھرا راجے سندھیا، شیوراج سنگھ چوہان اور رمن سنگھ کو حاشئے پر پہنچانے کے اپنے منصوبے پر آگے بڑھے گا؟ اس کا جواب ہاں میں ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ بی جے پی واضح اکثریت حاصل کرے۔ اگر نتائج ملے جلے رہے یا منفی رہے تو اس کا جواب نفی میں بدل جائے گا کیونکہ مودی اور شاہ۲۰۲۴ء سے پہلے کوئی خطرہ مول لینے سے گریز ہی کریں گے۔