Inquilab Logo

ہوا کا رُخ جو بھی ہو، اہل ایمان شریعت کے احکام پر قائم رہیں

Updated: May 28, 2021, 5:07 PM IST | Maulana Khalid Saifulah Rahmani

وبائی حالات سے ہر شخص پریشان ہے۔ بہت سے لوگ تو مجبوروں کا استحصال کررہے ہیں ۔ بحیثیت مسلمان ہماری کئی ذمہ داریاں ہیں ، ہمیں اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ احسان کا رویہ اپنانا چاہئے

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

جب کوئی شخص یا گروہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کے ساتھ دوسرے لوگوں کا کیا رویہ ہونا چاہئے؟ اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں، اور وہ یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ تو احسان وایثار اختیار کرنے کا ہے؛ لیکن گنجائش عدل کا راستہ اختیار کرنے کی بھی ہے۔ احسان سے مراد خود ظاہری نقصان اٹھا کر اور ایثار سے کام لے کر دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہے، جیسے ایک چیز کی اصل قیمت سور روپے ہے؛ مگر کوئی ضرورت مند سو روپے ادا کرنے سے قاصر ہے، وہ اسی ّروپے ہی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے تو بیس روپے کے نقصان کے ساتھ ضرورت مند کو فروخت کر دے، یہ بہت بہتر عمل ہے اور احسان کا رویہ اختیار کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں: اِن  اللہ یحب المحسنین (بقرہ: ۱۹۵) عدل کے معنی یہ ہیں کہ نہ خود نقصان اٹھایا جائے اور نہ دوسرے کو نقصان پہنچایا جائے، اگر ایک شے کی واجبی قیمت سوروپے ہے تو ضرورت مند سے سوروپے ہی لئے جائیں، نہ زیادہ لیا جائے اور نہ کم، اگر آدمی احسان پر عمل نہ کر سکے تو عدل کی راہ پر قائم رہنا تو شرعاً واجب ہے۔
 احسان اور عدل کے مقابلہ تیسرا طریقہ ظلم و استحصال کا ہے۔ استحصال سے مراد ہے کسی کی مجبوری اور ضرورت مندی سے فائدہ اٹھانا، ایک شے کی مروجہ قیمت سو روپے ہے؛ لیکن جو شخص اس کو خرید کرنا چاہتا ہے، وہ اس کا ضرورت مند ہے، وہ بہر قیمت اس کو خریدنے پر مجبور ہے تو اس کی ضرورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوروپے کی چیز ایک ہزار روپے میں فروخت کی جائے، جس جگہ جانے کا کرایہ سور وپے ہو،  ضرورتمند شخص سے اس کے دو سو روپے اینٹھ لئے جائیں، یہ طریقہ ’’استحصال‘‘ کا ہے جو ظلم اور گناہ ہے۔
  حدیث میں اس کی مثال’’ بیع مضطر‘‘ کی ممانعت ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مضطر کے پیسے سے منع کیا ہے (سنن صغیر للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۹۹۶)یہاں تک کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوق کا بدترین شخص وہ ہے جو ایسے مجبور شخص سے خرید وفروخت کرے، اور دو بار فرمایا : آگاہ ہو جاؤ! بیع مضطر حرام ہے: ألا ان بیع المضطر حرام (جامع المسانید والسنن، حدیث نمبر: ۲۳۸۳) مضطر سے یہی مراد ہے کہ جو شخص کسی چیز کے خریدنے پر مجبور ہو، اس سے بہت زیادہ قیمت میں وہ چیز فروخت کی جائے، فقہاء نے خرید وفروخت کے اس معاملہ کو فاسد قرار دیا ہے: بیع المضطر و شراء ہ فاسد (در مختار مع الرد: ۵؍۵۹) جس شخص نے اپنی مجبوری کی وجہ سے اسے خرید کر لیا وہ تو اس کا مالک ہو جائے گا اور اس کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہوگا؛ لیکن بیچنے والے کے حق میں مروجہ قیمت سے زیادہ قیمت جائز نہیں ہوگی۔
 کووِڈ کی موجودہ وبائی صورت حال سے ہر شخص پریشان ہے، لوگوں کی جان کے لالے پڑے ہیں، آکسیجن سیلنڈراور ہاسپٹل میں آئی سی یو بیڈ کی قلت ہو رہی ہے، جو دوائیں اس بیماری میں کام آتی ہیں ان کی بھی کمی ہے۔  ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں مصنوعی طور پر اس کی قلت پیدا کی گئی ہے، اور تڑپتے ہوئے مریض کو جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں سے ہر چیز میں مجبوروں کا استحصال کیا جا رہا ہے، مریض کو ہاسپٹل جانے کی ضرورت ہے، جہاں کا کرایہ سوڈیڑھ سو ہوا کرتا تھا، اس کی جگہ ہزار ڈیڑھ ہزار روپے وصول کئے جارہے ہیں، ہاسپٹل میں بیڈ موجود ہونے کے باوجود مریض سے زیادہ پیسے وصول کرنے کے مقصد سے کہہ دیا جاتا ہے کہ بیڈ خالی نہیںہے اور حقیقی چارج کے مقابلہ دس بیس گنا زیادہ ررقم وصول کی جاتی ہے، آکسیجن اور آکسیجن سیلنڈر کی قیمت ناقابل بیان حد تک بڑھا دی گئی ہے، حد تو یہ ہے کہ انفیکشن، تنفس اور الرجی وغیرہ کی وہ دوائیں جن کی ایک گولی دس بیس روپے میں ملتی ہے، بہت سے مقامات پرسیکڑوں روپے میں بیچی جا رہی ہے، غرض کہ گاڑی کے ڈرائیور اور ہاسپیٹل کے عملہ سے لے کر میڈیکل اسٹور تک ہر شخص، مجبورو پریشان حال اور قریب بہ مرگ مریضوں کا استحصال کر رہا ہے، یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی معاف نہیں کیا جارہا ہے، لاش پہنچانے اور آخری مرحلہ کو انجام دینے میں بھی غمزدہ اور سوگوار خاندان کو تکلیف پہنچائی جا رہی ہے۔ یہ نہایت غیر انسانی صورتِ حال ہے۔ غور کریں تو یہ اخلاقی بحران اس وبائی بحران سے بڑھ کر ہے، جس سے اس وقت ہم لوگ گزر رہے ہیں۔
 استحصال کی جو بھی صورت ہو، شریعت نے اس کو منع فرمایا ہے۔ استحصال ہی کی ایک صورت ذخیرہ اندوزی ہے، یعنی اشیائے ضرورت کو روک لینا اور اس کی مصنوعی قلت پیدا کرنا؛ تاکہ گرانی بڑھے اور لوگ مہنگے داموں میں سامان خریدنے پر مجبور ہوں۔ عربی زبان میں اس کو ’’ احتکار‘‘ کہتے ہیں۔ آپ ؐ نے اس کو بہت ہی ناپسند فرمایا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے: المحتکر ملعون (کنز العمال، حدیث نمبر: ۹۷۱۶)۔
 اسی طرح استحصال کی ایک صورت وہ ہے، جسے حدیث میں ’’ بیع الحاضر للبادی‘‘ کہا گیا ہے، یعنی دیہات کا کاشت کار اپنی پیداوار لے کر شہر آتا تو شہر کے تجار یہ سوچ کر کہ اس کے مال لانے کی وجہ سے شہر میں سامان کی قیمت گر جائے گی، اس کو خود خرید کر لیتے اور اپنے لحاظ سے بیچتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت کو منع فرمایا (بخاری عن ابی ہریرۃؓ، حدیث نمبر: ۲۱۴۰)۔  یہ بھی عوام کے استحصال کی ایک صورت ہے کہ بازار کو سستا نہ ہونے دیا جائے اور کوشش کرکے اسے مہنگا  رکھا جائے یا مہنگا کیا جائے۔
 ہرّاج میں بعض دفعہ کچھ لوگوں کا ارادہ خرید کرنے کا نہیں ہوتا؛ مگر وہ اس لئے بڑھ کر بولی لگاتے ہیں کہ سامان کی قیمت بڑھ جائے، اس کو عربی زبان میں ’’ نجش‘‘ کہتے ہیں، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی منع فرمایا ہے، (بخاری، حدیث نمبر: ۲۱۴۰) یہ بھی استحصال ہی کی ایک صورت ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ جو چیز سستی مل سکتی تھی، اسے مہنگا کر دیا جائے۔
 یہ تو چند مثالیں ہیں؛ لیکن شریعت میں جو ظلم سے منع کیا گیا ہے، یہ ممانعت تمام صورتوں کو شامل ہے، خواہ کسی کی جان پر ظلم ہو ، کسی سے بے جا طریقہ پر مال حاصل کیا جائے، مدد کے موقع پر مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جائے، سستی چیز کو مہنگا کر دیا جائے، مناسب اُجرت سے کہیں بڑھ کر مطالبہ کیا جائے، کام پورا لیا جائے اُجرت کم دی جائے، کام لے لیا جائے اور اُجرت ادا کرنے میں تاخیر کی جائے، یہ سب ظلم و استحصال کی مختلف صورتیں ہیں جن سے ہر ممکن طریقے سے بچنا لازمی ہے۔ 
 موجودہ حالات میں مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کریں، اور فی سبیل اللہ ان کو راحت پہنچائیں؛ لیکن یہ تو بہر حال ضروری ہے کہ جس طرح اس وقت لوٹ مچائی جارہی ہے، اس سے اپنے آپ کو بچائیں، جن مسلمانوں کے میڈیکل اسٹور ہیں، وہ اس بیماری میں کام آنے والی دوائیاں واجبی قیمت میں مہیا کرائیں، جو مسلمانوں کے ہاسپٹل ہیں، وہ وہاں مناسب قیمت پر بیڈ اور وینٹی لیٹر کی سہولت فراہم کریں، جن مسلم زیر انتظام اداروں کے پاس ایمبولینس ہیں، وہ معمول کے کرایہ پر ہی مریضوں کو پہنچائیں، مسلمانوں کے لئے یہ سوچنا کہ ’’ چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ درست نہیں ہے، ہوا کا رُخ جو بھی ہو، اہل ایمان کافرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو شریعت کے حکم پر قائم رکھیں، لوگوں کے ساتھ ہمدردی ، خیر خواہی، محبت اور حُسن سلوک سے پیش آئیں۔
  اِس وقت مسلمانوں کی طرف سے مریضوں اور ان کے متعلقین کی خدمت کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہے، بحمدللہ اس کے بہتر اثرات مرتب ہو رہے ہیں، بہت سی جگہ برادرانِ وطن خود فرقہ پرستوں کو کوس رہے ہیں اورمسلمانوں کے جذبۂ خدمت کا اعتراف کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ سلوک اُن کے لئے دنیا میں بھی نیک نامی کا باعث ہوگا اور ان شاء اللہ آخرت میں بھی نیک انجامی کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ اس جذبۂ خدمت کو قبول فرمائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK