Inquilab Logo Happiest Places to Work

اللہ کی راہ میں جوکچھ تم خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا ملے گا،تمہارے ساتھ نا انصافی نہیں کی جائے گی

Updated: April 11, 2022, 10:33 AM IST | Maulana Nadeem Alwajidi | Mumbai

سورۂ انفال کے شروع میں کہا گیا تھا کہ اموال غنیمت سب اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ ان کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے۔

In the scorching heat of the day, the crops were ready in the palm groves and the hands of the Muslims were empty..Picture:INN
سخت گرمی کا موسم تھا، کھجور کے باغات میں فصلیں تیار کھڑی تھیں اور مسلمانوں کے ہاتھ خالی تھے۔ تصویر: آئی این این

سورۂ انفال کے شروع میں کہا گیا تھا کہ اموال غنیمت سب اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ ان کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے۔ یہاں مال غنیمت کے مصارف بیان کئے جارہے ہیں کہ یہ بات جان لو کہ جو کچھ بھی تمہیں غنیمت میں حاصل ہو ،اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)کیلئے آپ کے رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے، اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اس پرایمان رکھتے ہو جو ہم نے فیصلے کے دن یعنی اس دن نازل کی تھی جس دن دونوں فوجوں میں مڈبھیڑ ہوئی تھی، یہ غزوۂ بدر کا بیان ہے ، یہ پہلا معرکہ تھا جس میں مسلمانوں کو کُھلی مادی فتوحات بھی حاصل ہوئیں اور دشمنوں پر فتح کے ساتھ بہت سا مال غنیمت بھی ہاتھ لگا۔ اس سے پہلی امتوں میں اموال غنیمت کے سلسلے میں دستور الٰہی یہ تھا کہ سارا سازو سامان ایک میدان میں جمع کیا جاتا اور اگر جہاد عند اللہ مقبول ہوتا تو آسمانی بجلی آکر اسے جلا کر خاک کردیتی، اس مال سے کسی کو استفادے کا حق حاصل نہ تھا، اسلام نے اس مال کو نہ صرف یہ کہ حلال وطیب قرار دیا بلکہ اس کے اصول واحکام بھی متعین کردئیے۔ اس کے بعد قرآن کریم نے غزوۂ بدر میں میدان جنگ کی صورت حال پر روشنی ڈالی کہ تم محل وقوع کے لحاظ سے جس جگہ تھے وہ موزوں نہیں تھی اور دشمنوں کے مقابلے میں تمہاری تعداد بھی کم تھی، اس کے باوجود جب مقابلہ ہوا تو اللہ تعالیٰ کی نصرت نے کام کیا اور تم تعداد کی قلت، اسلحہ کی کمی اور محل وقوع کی ناموزونیت کے باوجود کامیاب ہوئے، یہ واقعات ان آیات میں بیان کئے گئے ہیں اور مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو! جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو، شاید کامیاب ہوجاؤ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو اور آپس میں جھگڑا مت کرو، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو بلاشبہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو اپنی شان دکھلاتے ہوئے نکلے۔ اس آیت میں جہاد وغزوات کے سلسلے میں مجاہدین اسلام کو چھ قیمتی ہدایات دی گئی ہیں یا انہیں چھ زریں اصول بتلائے گئے ہیں  (۱) ثبات قدمی (۲) ذکر اللہ کی کثرت (۳) اللہ ورسول کی اطاعت (۴) اختلاف ونزاع سے اجتناب (۵) صبر وتحمل (۶) تکبر وریا کاری سے گریز۔
 اس کے بعد ان منافقین کا ذکر ہے جو جنگ بدر میں شرکت کے لئے جانے والے مسلمانوں کے متعلق از راہ ہمدردی یا از راہ تمسخر یہ کہہ رہے تھے کہ ان مسلمانوں کو ان کے دین نے خبط میں مبتلا کردیا ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کاش تم (اے منافقین) اس منظر کو دیکھتے جب فرشتے کافروں کی روح قبض کررہے تھے اور ان کے چہروں پر اور ان کی پُشت پر مار رہے تھے کہ لو اب جہنم کے عذاب کا (مزہ) چکھو۔اس کے بعد فرعون کا ذکر ہے کہ اس کا اور اس کی قوم کا بھی یہی انجام ہوا تھا، پھر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جواس نے کسی قوم کو عطا کررکھی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنے طور طریقے نہیں بدلتی۔  اگلی کچھ آیات میں قوانین جنگ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور جنگ کی تیاری کے سلسلے میں فرمایا گیا ہے کہ تم لوگ جہاں تک ہوسکے (دشمنوں) سے مقابلے کے لئے زیادہ سے زیادہ طاقت اور پلے ہوئے گھوڑے تیار رکھو تاکہ ان کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو اور انہیں جنہیں تم نہیں جانتے اللہ جانتے ہیں خوف زدہ کردو اور اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا ملے گا تمہارے ساتھ نا انصافی نہیں کی جائے گی۔ اس کے بعد کچھ اصول صلح وجنگ بتلائے گئے ہیں اور مسلمانوں کے اتحاد کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیئے ہیں۔ آپ روئے زمین کی تمام دولت بھی خرچ کرڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہی ہے جس نے ان کے درمیان یگانگت پیدا کردی ہے۔ آگے غزوۂ بدر کے سلسلے میں ترغیب پر مشتمل آیت ہے کہ اے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دیجئے اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم ہوں تو وہ دو سو پر غالب آسکتے ہیں اور اگر سو ہیں تو ایک ہزار کفار پر غالب آسکتے ہیں ، آنے والی آیات میں ان قیدیوں کا ذکر ہے جو غزوۂ بدر میں گرفتار کئے گئے اور ان میں سے ہر ایک کی رہائی کے بدلے چار سو درہم متعین کئے گئے، اس کے بعد کچھ ہجرت کے احکام ہیں کہ ہجرت کی صورت میں مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہئے؟ ان آیات میں اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے۔
 یہاں سے سورۂ توبہ کا آغاز ہوتا ہے، سورۂ انفال اورسورۂ توبہ کے مضامین میں یکسانیت ہے، اسی لئے سورۂ توبہ اگر مسلسل تلاوت کی جارہی ہو، تواس کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی جاتی۔ بعض صحابہؓ نے دونوں سورتوں کو ایک بھی کہا ہے۔ اس سورت میں کفار ومنافقین کی بد عہدیوں کا اور ان پر عذاب کا ذکر ہے۔ اس سورت میں بھی چند غزوات اور ان سے متعلق کچھ واقعات کا ذکر ہے۔ مشرکین مکہ سے صلح حدیبیہ کے نام سے جو معاہدۂ صلح ہوا تھا وہ قریش نے اپنی ناعاقبت اندیشی سے خود ہی توڑ ڈالا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین کیلئے جن سے تم نے عہد کیا ہے ۔دست برداری کا اعلان ہے لہٰذا تم چار مہینے اور چل پھر لو اور یہ جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیںکرسکتے اور یہ کہ بلاشبہ اللہ کافروں کو رسوا کریں گے ۔ آگے اسی اعلان کی توضیح وتشریح ہے، اس اعلان پر عمل ہوا اور مسلمان لاؤ لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف بڑھے۔ قریش مکہ اور مشرکین حد درجہ خوفزدہ ہوگئے۔ اس موقع پرسرور کائنات رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے کریمانہ اخلاق کا مظاہرہ فرمایا اور چند خطرناک مجرموں کو چھوڑ کر سب کیلئے عام معافی کا اعلان فرمادیا ، فتح مکہ کے ان تفصیلی واقعات کے بعد غزوۂ حنین کا بیان شروع ہوا۔ فرمایا اللہ تعالیٰ بہت سے مواقع پر تمہیں غلبہ دے چکے ہیں اور غزوۂ حنین کے دن بھی، اس روزتمہیں اپنی کثرت تعداد کا غرّہ ہوگیا تھالیکن یہ تعداد تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے، پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور اہل ایمان پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور کفر کرنے والوں کو سزادی ۔ اس ایک آیت میں غزوۂ حنین کا پورا قصہ آگیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ چودہ ہزار نفوس پر مشتمل مسلمانوں کا لشکر مقابلے کیلئے نکلا، لڑائی کے ہتھیار بھی پہلے سے کہیں زیادہ تھے مسلمانوں کو اپنی تعداد اور طاقت پر ناز ہونے لگا۔ بعض صحابۂ کرام کی زبانوں پر یہ جملے بھی آگئے کہ آج ہم مغلوب نہیں ہوسکتے، مقابلہ شروع ہوتے ہی دشمن بھاگنے پر مجبور ہوگا۔ جنگ کے ابتدائی حصے میں مسلمانوں میں جو گھبراہٹ پیدا ہوئی اور جو بھگڈر مچی وہ ایک طرح کی تنبیہ تھی اور یہ بتلانا تھا کہ تم تعداد میںکتنے بھی بڑھ جاؤ اللہ کی مدد کے بغیر کسی بھی حالت میں کامیاب نہیں ہوسکتے؟ اس کے بعد حالات میں تبدیلی ہوئی،  مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے قدم جمے اور فرشتے بھی مدد کیلئے نازل ہوئے۔ اس طرح اس غزوے میں بھی مسلمان فتح سے ہم کنار ہوئے۔ اگلی کچھ آیات میں یہود ونصاری کے عقائد کا ذکر ہے، پھر موضوع کی طرف واپسی اور غزوۂ تبوک کا ذکرہے۔    ۹؍ہجری میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ روم کا عیسائی بادشاہ مدینہ منورہ پر فوج کشی کا ارادہ رکھتا ہے اور مقام تبوک میں اس کا لشکر جمع ہوچکا ہے۔ ان دنوں کئی مسلسل جنگوں کے بعد مسلمانوں کو قدرے سکون نصیب ہوا تھا۔ سخت گرمی کا موسم تھا، کھجور کے باغات میں فصلیں تیار کھڑی تھیں اور مسلمانوں کے ہاتھ خالی تھے۔ سفر طویل تھا ان حالات میں جہاد کا اعلان ہوا، بعض حضرات تو فوراً تیار ہوگئے اور بعض نے کچھ تردد کے ساتھ ہامی بھری۔ کچھ لوگوں کو واقعی عذر تھا اور کچھ سستی کی وجہ سے نہیں جاسکے۔ ان آیات میں ایسے ہی لوگوں کو جھنجوڑا گیا ہے کہ اے اہل ایمان تمہیں کیا ہوگیا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ کر رہ جاتے ہو۔ کیا تم نے آخرت کی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پسند کرلی ہے۔ دنیا کی زندگی تو آخرت کے سامنے بڑی مختصر ہے۔ تم نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں درد ناک عذاب دیں گے اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو کھڑا کردیں گے۔یہاں ان منافقین کا بھی ذکر ہے جو مختلف حیلوں بہانوں کے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہونا چاہتے تھے۔ آگے زکوٰۃ کے مصارف کا بیان ہے۔ مدینہ طیبہ میں جب زکوٰۃ فرض ہوئی تو اس کی وصولیابی اور تقسیم کا پورا نظام مرتب ہوا۔ آنے والی آیت کریمہ میں اسی کا بیان ہے کہ صدقات تو در حقیقت فقیروں اور مسکینوں کیلئے ہیں اور ان لوگوں کیلئے ہیں جو صدقات کے کام پر مقرر ہوں اور ان کیلئے ہیں جن کی دلجوئی مطلوب ہو اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور اللہ کے راستے میں اورمسافروں کی دیکھ بھال میںبھی صدقات خرچ کئے جاسکتے ہیں۔ یہ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے۔ آئندہ آیات میں گروہ منافقین کی منافقانہ روش پر روشنی ڈالی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی ہیں۔ بری بات کی تعلیم دیتے ہیں اور اچھی بات سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو بندھا رکھتے ہیں (اللہ کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرتے) یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں فراموش کردیا۔ بلاشبہ یہ منافق بڑے ہی سرکش ہیں ،اس کے برعکس مومنین کا حال یہ ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا۔ آنے والی کچھ آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو بہانے بنا کر جنگ میں شریک نہیں ہوئے اور گھر بیٹھے خوش ہوتے رہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمادیا گیا کہ آپ ایسے لوگوں سے کوئی ربط مت رکھیں ان میں سے کوئی مرے تو ان کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK