نئے قوانین اور ان میں اصلاح کے نام پر حکومت نے کاپی پیسٹ کرکے تین نئے بل متعارف کروائے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے بلوں میں رائج قوانین کو نئی ترتیب کے ساتھ متعارف کرایا گیا ہے۔ اگر یہ بل پاس ہو جائیں تو طے ہے کہ جج، وکلاء، پولیس افسران اور طلبہ ہی نہیں، عوام کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سپریم کورٹ آف انڈیا۔تصویر: آئی این این
ہندوستان میں جرائم سے نپٹنے کیلئے تعزیرات ہند قانون (انڈین پینل کوڈ)۱۸۶۰ء، ہندوستانی شہادت قانون (انڈین ایو ِڈینس ایکٹ) ۱۸۷۲ء اور ضابطہ برائے مجرمین قانون (کریمنل پروسیجر کوڈ) ۱۹۷۳ء کی صورت میں فوجداری قوانین کے تین مجموعے موجود ہیں ۔ انگریزوں کے دورحکومت میں پہلے قانونی کمیشن کے صدر تھامس بابنگٹن میکالے نے انڈین پینل کوڈ تحریر کیا تھا۔ سر جیمس فٹز جیمس اسٹیفن نے شہادت قانون ۱۸۷۲ء ترتیب دیا۔ اولین ضابطہ برائے مجرمین ۱۸۹۸ء بھی انگریزوں کے زمانے میں ہی لکھا گیا تھا جسے بعد ازیں ۱۹۷۳ءمیں بدل دیا گیا۔
یہ قوانین، ملک کی ہزاروں عدالتوں میں روزانہ استعمال ہوتے ہیں ۔ روزانہ ہزاروں جج اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد وکلاء ان قوانین پر نظر دوڑاتے ہیں ۔ ہر جج اور وکیل یہ جانتا ہے کہ تعزیراتِ ہند کی دفعہ ۳۰۲؍ میں قتل کی سزا درج ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ شہادت قانون کی دفعہ ۲۵؍ کے مطابق پولیس کو دیا گیا اعتراف نامہ ملزم کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ضابطہ برائے مجرمین ۱۹۷۳ ء کی دفعہ ۴۳۷؍۴۳۸؍ اور ۴۳۹؍ میں ضمانت اور پیشگی ضمانت کے قوانین درج ہیں ۔ ایسی کئی درجن دفعات ہیں جو جج صاحبان اور وکلاء کو زبانی یاد ہیں ۔
بدلتے زمانہ کے مطابق قوانین میں اصلاح کرنا خوش آئند اقدام ہے لیکن اس کا یہ نہیں ہے کہ موجودہ قوانین کی ترتیب یا نمبر شمار میں تبدیلیاں کرکے انہیں از سر نو پیش کیا جائے۔ نئے قوانین بنانے سے قبل اِس بات کی سمجھ ضروری ہے کہ موجودہ دور اور حالات میں مجرمانہ قوانین کیسے ہوں ، اُن میں ہم آہنگی کس طرح پائی جائے۔ تغیر پزیر زمانہ میں نئے قوانین کو بدلتی اقدار اور اخلاقیات کے ساتھ شانہ بشانہ چلنا چاہئے۔ نئے قوانین بناتے ہوئے جرائم کی دنیا سے جڑے جدید تقاضوں پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔
لیکن حکومت نے قوانین میں مثبت اصلاح کا یہ موقع گنوا دیا ہے۔ کئی قانونی ماہرین نے ان تین نئے بلوں کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ آئی پی سی ۱۸۶۰ء کے ۹۰۔۹۵؍ فیصد قوانین اور ۲۶؍ میں سے ۱۸؍ ابواب نئے مسودہ میں جوں کے توں شامل کئے گئے ہیں ۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ نے یہ قبول کیا ہے کہ نئے بل میں آئی پی سی کی ۵۱۱؍ دفعات میں سے ۲۴؍ کو حذف کرکے ۲۲؍ دفعات شامل کی گئی ہیں ۔ دیگر دفعات نئے سرے سے ترتیب دی گئی ہیں ۔ اگر حکومت کو یہی مقصود تھا تو آئی پی سی میں معمولی ترامیم کرکے یہ تبدیلیاں کی جاسکتی تھیں ۔ حکومت نے آئی ای اے اور سی آر پی سی کے ساتھ بھی یکساں سلوک کیا ہے۔ آئی ای اے کی تمام ۱۷۰؍ دفعات کوجوں کا توں نقل کیا گیا ہے۔ اسی طرح سی آر پی سی کا ۹۵؍ فیصد متن نئے بل میں دیکھنے ملتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ نئے قوانین بنانے کی یہ کوشش پوری طرح ناکام ہوئی ہے۔ اگر یہ بل پاس ہو جائیں تو ان کے اطلاق میں کئی دشواریاں پیش آئیں گی۔ یہی کیا کم ہے کہ لاکھوں افراد مثلاً جج، وکلاء، پولیس افسران، قانون کے اساتذہ اور طلبہ، حتیٰ کہ عوام بھی اس سے متاثر ہوں گے اور انہیں قوانین کی `نئی ترتیب یاد کرنے میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ان بلوں کے ذریعے جہاں کچھ لائق ستائش قوانین متعارف کروائے گئے ہیں (حکومت کی جانب سے جن کی خوب پزیرائی کی جائے گی) وہیں کچھ مشکوک قوانین بھی ہیں جو حکومت کے نقطۂ نظر پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر:
(۱) سزائے موت پر عالمی ہنگامہ کے باوجود اسے برقرار رکھا گیا ہے۔ پچھلے چھ سالوں میں عدالت عظمیٰ نے صرف ۷؍ مقدمات میں سزائے موت پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ اس کے مقابلے مجرم کیلئے بنا کسی پیرول کے عمر قید کی سخت سزا تجویز کرنا ایک بہتر متبادل ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں مجرم کیلئے اصلاح کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔(۲) عمر قید یا سزائے موت کی سزا دینے کا اختیار حکومت کے حوالے کرنا، دستور کی دفعہ ۱۴؍ کی خلاف ورزی ہے۔ (۳) تنہائی کی قید، سخت اور غیر انسانی سزا کی ایک شکل ہے۔ (۴) نئے قوانین میں میڈیا پر مخصوص عدالتی سماعت کی رپورٹنگ پر مقننہ کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندی غیر قانونی ہے۔(۵) یو اے پی اے قانون دہشت گردانہ سرگرمیوں سے جڑے معاملات کیلئے کافی ہے اور اس ضمن میں نئے قوانین کو بل میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔(۶)بدکاری کو دوبارہ جرم کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ یہ شوہر بیوی کا آپسی معاملہ ہے۔ اگر ان کا شادی کا معاہدہ ٹوٹ جائے تو وہ طلاق کیلئے درخواست دے سکتے ہیں ۔ ایسے اُمور میں حکومت کا دخل اندازی کرنا مناسب نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے ذریعے ختم کردی گئی انڈین پینل کوڈ کی دفعہ ۴۹۷؍ کو واپس لانے سے معاملہ مزید بگڑ جائے گا۔ (۷) اسسٹنٹ سیشن جج کے عہدے کو سرے سے ختم کر دینا ایک غلط اقدام ہے۔ اس اقدام سے سیشن جج کے بوجھ میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس کی وجہ سے پہلی اپیل، ہائی کورٹ کے پاس جائے گی اور اس پر بوجھ میں اضافہ ہوگا۔ (۸) پولیس افسران نے گرفتار شخص کو ہتھکڑی تبھی لگانی چاہئے جب وہ خطرناک ہو اور اس کے تحویل سے بھاگنے کا خدشہ ہو۔ (۹) مجسٹریٹ کے پاس ریمانڈ کی درخواست کرنے والے گرفتار شخص کو اپنی گرفتاری کی ضرورت سے آگاہ اور مطمئن ہونا چاہئے۔ نئے کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ ۱۸۷؍ (۲) پولیس افسران اور ججوں کی اِس غلط فہمی کی تصدیق کرتی ہے کہ گرفتار کئےگئے شخص کو پولیس یا عدالتی تحویل میں رکھنا ضروری ہے۔ اس موقع پر مجھے جسٹس کرشنا ایّر کی تنبیہ یاد آتی ہے کہ مجسٹریٹ اس معاملے میں تیسرے متبادل یعنی کسی بھی تحویل میں نہ دینے پر غور نہیں کرتے۔ (۱۰) دفعہ۲۵۴؍ میں صوتی یا سمعی ذرائع سے جانچ کرنے والے افسر کی تقرری، عدالت میں سماعت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
حکومت کے نزدیک نئے بل متعارف کرانے کا مقصد، ہندوستانی قوانین پر میکالے اور جیمس کا دبدبہ ختم کرنا تھا لیکن نئے بلوں میں پرانے قوانین’ `کاپی، کٹ اور پیسٹ‘ کرکے حکومت نے جو کچھ کیا اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے اُن دونوں شخصیات کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔