Inquilab Logo Happiest Places to Work

جب وہ (اصحاب کہف) سوئے ہوئے تھے، ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دیتے رہتے تھے

Updated: April 15, 2022, 3:39 PM IST | Maulana Nadeem Alwajidi | Mumbai

پندرہویں پارے کی ابتدا سورہ ٔبنی اسرائیل سے ہوتی ہے، اس سورہ کے اکثر مضامین توحید ورسالت اور معاد وغیرہ سے متعلق ہیں، واقعۂ اسراء ومعراج سے یہ سورت شروع ہوتی ہے

According to some historical references, Oman is located on the outskirts of the city. This picture is from there.Picture:INN
اصحاب الکہف کا غار کہاں واقع ہے، اس بارے میں کچھ اختلاف بھی ہے۔ کچھ تاریخی حوالوں کے مطابق عمان شہر کے مضافات میں واقع ہے ۔ یہ تصویر وہیں کی ہے۔ تصویر: آئی این این

پندرہویں پارے کی ابتدا سورہ ٔبنی اسرائیل سے ہوتی ہے، اس سورہ کے اکثر مضامین توحید ورسالت اور معاد وغیرہ سے متعلق ہیں، واقعۂ اسراء ومعراج سے یہ سورت شروع ہوتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی جلالت شان کا اظہار بھی مقصود ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اثبات بھی، ضمناً حضرت موسیٰ اور حضرت نوح علیہما السلام کا ذکر بھی ہے، ان دونوں انبیائے کرام کے ذکر سے بھی منصب رسالت کی تقویت اور تائید مقصود ہے، فرمایا: پاک ہے وہ ذات جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس (مسجد اقصیٰ) کے آس پاس ہم نے برکتیں عطا کررکھی ہیں تاکہ ہم ان کو اپنی نشانیاں (عجائبات قدرت) دکھلائیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی اور ہم نے اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنایا تھا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا کار ساز مت بنانا اور تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا اور نوح ؑ ایک شکر گزار بندے تھے۔  اس کے بعد بنی اسرائیل پر انعامات کا اور ان کی احسان فراموشی کا ذکر ہے۔ یہود سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے ممکن ہے تمہارا رب تم پر رحم فرمائے، لیکن اگر تم نے پہلی جیسی روش اختیار کی تو ہم بھی سزا کے پرانے طریقے کی طرف لوٹ جائیں گے اور ہم نے کافروں کے لئے جہنم کا قید خانہ بنا رکھا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن سیدھی راہ دکھلاتا ہے اور جو اہل ایمان عمل صالح کرتے ہیں انہیں بڑے اجر کی خوش خبری دیتا ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لئے درد ناک عذاب مہیا کررکھا ہے۔ آنے والی آیات میں اللہ تعالیٰ کے کچھ انعامات کا ذکر ہے کہ ہم نے رات اور دن کی دو نشانیاں بنائی ہیں، ہم رات کی نشانی مٹا کر دن کی نشانی کو روشن کرتے ہیں تاکہ تم اپنے رب کی روزی تلاش کرسکو اور ماہ وسال کا حساب جان سکو۔  چند آیات کے بعد کچھ خاص احکام کے ساتھ بندوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ آپ کے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ تم لوگ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی اُف بھی مت کرنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان کے ساتھ دائرۂ ادب میں رہ کر گفتگو کرنا اور ان کے لئے انکساری اور نرم دلی کے ساتھ جُھکے رہنا اور یہ دعا کرنا کہ اے اللہ ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے۔ رشتہ داروں کو ان کا حق دیتے رہو، اور مسکین ومسافر کو بھی ان کا حق دو، اور فضول خرچی مت کرو، فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ اگر آپ کو ان لوگوں سے پہلو تہی کرنی پڑے جو اپنے پروردگار کی رحمت کے بھروسے پر رزق کی آس لگائے بیٹھے تھے تو ان سے نرم بات کرنا (یعنی اگر اُمید رکھنے والوں کو کچھ دے نہ سکو تو ان سے نرم بات ضرور کرو) نہ تو اپنا ہاتھ گردن ہی سے باندھ لو (کچھ خرچ ہی نہ کرو) اور نہ بالکل ہی کھلا چھوڑ دو (جو کچھ ہے سب خرچ کر ڈالو) اور رنج وحسرت میں تہی دست ہوکر بیٹھ رہو ، بلاشبہ آپ کا رب جس کیلئے چاہتا ہے رزق کشادہ کردیتا ہے اور جس کیلئے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، بلاشبہ وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر بھی ہے اور نگراں بھی ہے۔ پھر فرمایا گیا کہ اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی، بلا شبہ ان کا قتل بڑا گناہ ہے ۔ زنا کے قریب بھی مت جاؤ، وہ برا فعل ہے اور بڑا ہی برُا راستہ ہے اور کسی نفس کو جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو قتل مت کرو ہاں مگر حق پر۔ جو شخص ظلماً قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق دیا ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر اچھے (جائز) طریقے پر تاوقتیکہ وہ بالغ نہ ہوجائیں (پھر ان کا مال ان کے سپرد کردو) عہد کی پابندی کرو، بلاشبہ عہد کے سلسلے میں تمہیں جواب دہی کرنی ہوگی، ناپو تو پورا ناپو اور ٹھیک ترازو سے وزن کرو، یہ عمدہ طریقہ ہے اوراس کا انجام بہتر ہے، کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو (تجسس میں نہ پڑو) تم سے کان، آنکھ دل سب ہی کے متعلق پوچھا جائے گا، زمین میں اکڑ کر مت چلو، نہ تم زمین کو (قدموں سے) پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔  ان لازوال اخلاقی تعلیمات کے بعد فرمایا کہ ہم نے قرآن میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا کہ وہ نصیحت پکڑ لیں (مگر اب ان کا حال یہ ہے کہ) جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم ان کے اور آپ کے مابین ایک پردہ ڈال دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے۔ یہاں قرآن کریم کے متعلق مشرکین مکہ کے روّیے کا ذکر ہے کہ چھپ چھپ کر قرآن سنتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ ایک سحر زدہ شخص ہے۔ چند آیات کے بعد فرمایا گیا کہ  ہم تمام انسانوں کو ان کے نامۂ اعمال سمیت بلائیں گے، جس کا نامۂ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنا نامۂ اعمال پڑھے گا اور اس پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا، جو شخص اس دنیا میں اندھا بن کر رہا (یعنی اس نے چشم بصیرت سے ہماری نشانیوں کو نہیں دیکھا اور ہم پر ایمان نہیں لایا) وہ آخرت میں بھی اندھا  رہے گا بلکہ اندھے سے بھی زیادہ گم کردۂ راہ ہوگا۔ 
 آگے کفار کی اسلام دشمنی کا ذکر ہے۔ ایسے حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کرنا چاہئے، فرمایا کہ آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کے اندھیرے تک نماز ادا کیا کیجئے، اور صبح کی نماز کا اہتمام بھی کیجئے، بلاشبہ صبح کی نماز حاضر ہونے کا وقت ہے اور رات کے کسی بھی حصے میں نماز تہجد پڑھا کیجئے ۔ یہ آپ کے لئے اضافہ ہے، عجب نہیں کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے، اور آپ یہ دعا فرماتے رہیں کہ اے اللہ مجھے جہاں بھی لے جائیں خوبی کے ساتھ لے جائیں اور جہاں سے نکالیں خوبی کے ساتھ نکالیں ۔ اس سورہ کے آخری سے پہلے والے رکوع میں  فرمایا: یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اگر تمام جن وانس مل کر بھی اس جیسا قرآن لانا چاہیں تو لا نہ سکیں گے  چاہے وہ ایک دوسرے کے معین ومدد گار ہی کیوں نہ ہوں۔اب سورۂ کہف کا آغاز ہوا۔  اس سورہ میں کفار کے ذریعے پوچھے گئے تین سوالوں میں سے دو کا جواب مذکور ہے، ایک کا جواب پچھلی سورہ میں آچکا ہے، تینوں سوالوں کے جواب میں کفر واسلام کے مابین کش مکش پوری طرح نمایاں ہے۔  اس سورہ میں تین اہم قصے بھی بیان کئے گئے ہیں، پہلا قصہ اصحاب کہف کا ہے، ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار اور پہاڑ والے ہماری کوئی بہت بڑی نشانیوں میں سے تھے، جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزیں ہوئے اور کہنے لگے کہ اے ہمارے رب ہم کو اپنی خاص رحمت عطا فرما اور ہمارے احوال درست فرمادے، تب ہم نے انہیں (اسی) غار میں گہری نیند سلا دیا پھر ہم نے ان کو (نیند سے) اٹھایا تاکہ دیکھیں کہ ان کے دو گروہوں میں سے مدت قیام سے کون زیادہ واقف ہے۔ یہاں پورا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح  وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے  اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی عطا کردی تھی اور ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کردیئے تھے، اگر آپ انہیں غار میں دیکھتے تو یوں نظر آتا کہ جب سورج نکلتاہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب چھپتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب نکل جاتا ہے اور وہ غار کے ایک کشادہ حصے میں پڑے ہوئے ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ آگے فرمایا: تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے ہو کہ وہ جاگ رہے ہیں ، حالاں کہ وہ سوئے ہوئے تھے، ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دیتے رہتے تھے اور ان کا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا ہوا تھا، اگر آپ انہیں جھانک کر دیکھ لیتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور ان کا خوف طاری ہوجاتا، اور اسی طرح (جس طرح سلایا تھا) انہیں جگایا تاکہ وہ آپس میں سوال جواب کریں، ان میں سے ایک نے پوچھا تم کتنی دیر (اس غار میں) ٹھہرے تو (باقی نوجوانوں نے) کہا کہ ایک دن یا اس سے کچھ کم وقت، کہنے لگے کہ تمہارا رب ہی جانتا ہے تم کتنے وقت (غار) میں رہے،  اب اپنے میں سے کسی کو یہ پیسے لے کر شہر کی طرف بھیجو تاکہ وہ اچھا کھانا دیکھ کر تمہارے لئے کھانے کا سامان لے کر آئے اور نرمی سے کام لے اور کسی کو کانوں کان تمہاری خبر نہ ہو، اس لئے کہ اگر وہ ہم پرغالب آگئے تو ہمیں سنگسار کردیں گے یا اپنے مذہب میں لوٹنے پر مجبور کردیں گے، اگر ایسا ہوا تو تم کبھی فلاح نہ پاسکو گے اس طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال پر مطلع کردیا تاکہ وہ یہ بات جان لیں کہ اللہ کا وعدہ حق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اب لوگوں میں ان کے معاملے میں اختلاف شروع ہوا، کچھ نے کہا کہ ان کے پاس کوئی عمارت بنادو، کچھ لوگوں نے جو معاملات میں غالب تھے یہ کہا کہ ہم ان کے قریب ایک مسجد تعمیر کریں گے، کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین(نوجوان) تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا، کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے چھٹا ان کا کتا تھا، یہ سب اندازے کے تیر ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا، آپ فرمادیجئے کہ آپ کا رب ان کی تعداد زیادہ بہتر جانتا ہے، کم ہی لوگ صحیح تعداد سے واقف ہیں، آپ اس معاملے میں ان سے زیادہ حجت نہ کیجئے اور نہ اس کے متعلق کسی سے کچھ پوچھئے(بیچ میں جملہ معترضہ کے طور پر فرمایا) آپ کبھی کسی کام کے بارے میں یہ نہ کہا کیجئے کہ میں اسے کل کروںگا مگر یہ کہ اللہ چاہے (یعنی اِن شاء اللہ کہا کیجئے) اوراگر اِن شاء اللہ کہنا بھول جائیں تو اپنے رب کو یاد کیا کیجئے اور کہئے کہ شاید میرا رب اس سے بھی قریب تر بات کی طرف میری رہ نمائی کرے گا۔
 اور (اصحاب کہف) اپنے غار میں تین سو نو سال رہے، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ان کے قیام کی مدت زیادہ جانتے ہیں۔ آگے دنیا کی بے ثباتی کو دو مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ وہ دن آنے والا ہے جب ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور آپ زمین کو دیکھیں گے کہ ایک چٹیل میدان پڑا ہوا ہے۔ پارے کے آخر میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کاایک واقعہ ہے، راستے میں ان کی ملاقات ایک بزرگ (حضرت خضر علیہ السلام) سے ہوتی ہے، حضرت موسیٰ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اس میں سے کچھ سکھلادیں جو مفید علم آپ کوسکھلایا گیا ہے، انہوں نے جواب دیا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکتے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے صبر کا اور اطاعت کا وعدہ کیا، حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس شرط پر ساتھ رہنے کی اجازت دے دی کہ جب تک میں کسی معاملے میں خود کچھ نہ کہوں آپ مجھ سے کوئی سوال نہ کریں گے، دونوں چلے، ایک کشتی میں سوار ہوئے، حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کشتی میں سوراخ کردیا، حضرت موسی (علیہ السلام) نے پوچھا کیا آپ نے اس لئے کشتی میں سوراخ کیا ہے کہ کشتی والوں کو غرق کردیں؟ یہ تو بڑا غلط کام کیا ہے آپ نے، فرمایا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا میری فروگزاشت پر مواخذہ نہ فرمائیں اور میرے معاملے میں سختی سے کام نہ لیں، پھر دونوں چلے، یہاں تک کہ انہیں ایک لڑکا ملا، حضرت خضر ؑ نے اسے قتل کردیا  حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بولے کیا آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی ہے، یہ تو بہت ہی غلط حرکت کی ہے آپ نے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK