سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں عرب کے مختلف علاقوں کے وفود کی آمد کے تذکرہ میں آج بنوعامر کے وفد اور ان کے سرداروں کی بدنیتی کا تذکرہ ملاحظہ کیجئے۔ اس کے ساتھ ہی بنوسعد بن بکر کے وفد کی حاضری بھی پڑھئے۔
EPAPER
Updated: February 02, 2024, 1:33 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں عرب کے مختلف علاقوں کے وفود کی آمد کے تذکرہ میں آج بنوعامر کے وفد اور ان کے سرداروں کی بدنیتی کا تذکرہ ملاحظہ کیجئے۔ اس کے ساتھ ہی بنوسعد بن بکر کے وفد کی حاضری بھی پڑھئے۔
بنو عامر کا وفد
قبیلۂ بنو عامر بھی حجاز کے بڑے قبائل میں شمار ہوتا تھا، تبوک سے واپسی کے بعد اس قبیلے کا ایک وفد مدینے آیا، اس میں تین آدمی تھے جو اس قبیلے کے سرکردہ افراد اور بڑے شیطان تھے (۱) عامر بن طفیل (۲) اربد بن قیس (۳) جُبار بن سلمی۔ عامر بن طفیل کا ارادہ رسول اللہ ﷺ کو نقصان پہنچانے کا تھا، اس کی قوم نے اس سے کہا تھا کہ لوگ اسلام لا چکے ہیں، تم بھی اسلام قبول کرلو، اس نے تکبر ونخوت سے جواب دیا تھا کہ کیا میں اس نوجوان کے پیچھے چلوں، خدا کی قسم میں اس وقت تک اپنی کوشش جاری رکھوں گا جب تک وہ شخص میری پیروی کرنے پر تیار نہ ہوجائے۔
عامر بن طفیل نے اپنے ساتھی اربد بن قیس کو ہدایت کی تھی کہ جب میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بات چیت کروں اور وہ میری طرف متوجہ ہوجائیں تو تم ان پر حملہ کردینا۔ پروگرام کے مطابق عامر بن طفیل اور اس کے ساتھی رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عامر نے گفتگو شروع کی، اور کہا کہ آپؐ ہمارے سردار ہیں، آپؐ نے فرمایا: اے شیطان! مسخرہ پن نہ کر، جو بات کرنے آیا ہے وہ بات کر۔ اس نے کہا: آپ مجھے تنہائی میں بات کرنے کا موقع دیجئے۔ آپؐ نے فرمایا: بہ خدا ایسا نہیں ہوگا جب تک تو خدا کی وحدانیت پر ایمان نہ لے آئے۔ اس نے پھر تنہائی کی درخواست کی۔ آپؐ نے پھر انکار فرمادیا۔ یہ گفتگو ہو رہی تھی اور عامر، اربد کے حملے کا انتظار کررہا تھا، مگر اربد بے حس و حرکت بیٹھا ہوا تھا۔ عامر نے کہا: آپ مجھے اپنا مخلص دوست بنالیجئے، آپؐ نے فرمایا: ہرگز نہیں ! جب تک تو خدا پر ایمان نہ لے آئے۔ اس نے کہا: اگر میں مسلمان ہوجاؤں تب آپ مجھے کیا دیں گے؟ آپؐ نے فرمایا: اسلام لانے کے بعد تیری حیثیت وہی ہوگی جو دیگر مسلمانوں کی ہے۔ اس نے کہا کہ آپ اپنے بعد حکومت اور خلافت مجھے دے دیں ؟ آپؐ نے فرمایا: یہ نہیں ہوسکتا۔ اس نے کہا: اچھا دیہی علاقوں پر آپ حکومت کریں، شہری آبادی کی حکومت میرے حوالے کردیں۔ آپؐ نے یہ بھی ماننے سے انکار کردیا، اس نے کہا! میں غطفان کو لے کر آؤں گا اور مدینے کو پیادوں اور سواروں سے بھردونگا۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تجھے اس کی قدرت نہیں دیگا۔
اس گفتگو کے بعد یہ لوگ واپس چلے گئے۔ رسول اللہ ؐ نے دُعا فرمائی: اے اللہ! مجھے عامر بن طفیل کے شر سے محفوظ فرما۔ باہر نکلنے کے بعد عامر نے اربد سے کہا: میں تو تجھے بڑا بہادر سمجھتا تھا، تو نے بزدلی دکھائی، اس نے کہا: تو میرے بارے میں فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کر، خدا کی قسم! میں جب بھی انہیں مارنے کا ارادہ کرتا میرے اور ان کے درمیان تو‘ حائل ہوجاتا، مجھے تیرے سوا کوئی دکھائی نہ دیتا، کیا میں تجھ پر حملہ کردیتا؟
یہ لوگ واپس اپنے گھروں کی طرف جارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عامر بن طفیل کی گردن میں ایک مہلک بیماری پیدا کردی، جس سے وہ بنی سلول کی ایک عورت کے گھر میں جاکر ہلاک ہوگیا۔ عرب کے لوگ بستر پر پڑ کر مرنے کو عار سمجھتے تھے مرنے سے پہلے اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے اونٹ پر بٹھاؤ اور میرے ہاتھ میں تلوار دو۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا، اسی حالت میں وہ اونٹ سے گر کر مر گیا، اسی جگہ اس کو دفن کردیا گیا۔ عامر بن طفیل کا انجام تو یہ ہوا، اربد بن قیس اپنے گھر پہنچا، لوگوں نے اس سے رسولؐ اللہ کے بارے میں پوچھا اور اسلام کے متعلق سوالات کئے، اس نے کہا: خدا کی قسم! وہ کچھ نہیں ہیں، انہوں نے مجھے ایک چیز کو ماننے کو کہا، میں نے ان کی بات نہیں مانی، اگر وہ اس وقت میرے سامنے ہوں تو میں ان کو تیروں سے چھلنی کردوں، ابھی چند ہی دن گزرے تھا کہ اربد بھی ہلاک ہوگیا، وہ اونٹ پر سوار ہوکر کہیں جارہا تھا کہ آسمان سے بجلی گری، وہ اور اس کا اونٹ دونوں جل کر مر گئے۔ ان دونوں کے علاوہ وفد کے دیگر افراد مشرف بہ اسلام ہوکر لوَٹے۔ ان کی کوشش سے بہتوں نے اسلام قبول کیا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۶/۱۲۵، رقم الحدیث: ۵۷۲۴، دلائل البیہقی: ۵/۳۱۹، ۳۲۱)
بنو سعد بن بکر کا وفد
اس قبیلے کی بیشتر شاخیں طائف اور اس کے آس پاس آباد تھیں، آج بھی اس قبیلے کی نسل کے لوگ یہیں رہتے ہیں۔ یہ وہ مشہور قبیلہ ہے جس میں رسولؐ اکرم نے عہد طفولیت میں پرورش پائی، حضرت حلیمہ سعدیہ آپؐ کو لے کر گئی تھیں، واپس لائیں تو حضرت عبدالمطلب اپنے بلند اقبال پوتے کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور فرمایا: ’’اس بچے میں قریش کی خوب صورتی اور سعد کی فصاحت پائی جاتی ہے۔ ‘‘ یہ قبیلہ عہد جاہلیت میں اپنی فصاحت بیانی کی بنا پر پورے حجاز میں شہرت رکھتا تھا۔ اشاعت اسلام کا سلسلہ شروع ہوا تو قبیلہ بنو سعد بن بکر نے بھی اپنے قبیلے کے ایک سرکردہ فرد ضمام بن ثعلبہ کو رسولؐ اکرم کی خدمت مبارکہ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ضمام حاضر خدمت ہوئے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنا اونٹ مسجد نبویؐ کے باہر باندھا اور خود مسجد میں چلے گئے۔ رسولؐ اکرم صحابہؓ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ ضمام بن ثعلبہ مضبوط کاٹھی کے انسان تھے، سر پر بال بہت تھے، جن کو انہوں نے دو چوٹیوں سے باندھ رکھا تھا، مسجد میں پہنچ کر انہوں نے بآواز بلند پوچھا: تم میں ابن عبد المطلب کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: میں ہی ابن عبد المطلب ہوں۔ انہوں نے کہا: اے ابن عبد المطلب! میں تم سے کچھ پوچھوں گا، میرے لہجے کی سختی سے کچھ اثر نہ لینا۔ آپؐ نے فرمایا: ٹھیک ہے، میں کچھ برا نہ مانوں گا، تم پوچھو! کیا پوچھنا چاہتے ہو۔ انہوں نے کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر یہ سوال کرتا ہوں جو تمہارا بھی معبود ہے، تمہارے سے پہلے والوں کا بھی ہے اور تمہارے بعد والوں کا بھی ہے، کیا اس معبود نے تمہیں یہ حکم دیا ہے کہ تم ہمیں یہ بتلاؤ کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ان بتوں کو چھوڑ دیں جن کو ہمارے آباء واجداد اس کے ساتھ پوجا کرتے تھے؟
آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ بات درست ہے، اس نے عرض کیا: اچھا میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جو آپ کا بھی خدا ہے، اور آپ سے پہلے والوں کا بھی اور آپ کے بعد والوں کا بھی کہ کیا اس اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم پانچ وقت کی نمازیں پڑھیں ؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں ! ایسا ہی ہے۔ ضمام بن ثعلبہ دوسرے فرائض اسلام کے متعلق بھی سوال کرتے رہے، یہاں تک کہ سوال جواب کا یہ سلسلہ ختم ہوگیا، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور یہ کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، میں یہ تمام فرائض ادا کروں گا اور جن چیزوں کی آپؐ نے ممانعت فرمائی ہے ان سے اجتناب کروں گا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اگر مینڈھیوں والے نے سچ کہا تو یہ شخص جنت میں داخل ہوگا۔
اس واقعے کے راوی فرماتے ہیں کہ آنے والوں میں ہم نے ضمام بن ثعلبہ سے افضل کوئی نہیں دیکھا، انہوں نے تھوڑی دیر بات چیت کی، مطمئن ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔ مسلمان ہونے کے بعد وہ اپنے اونٹ کے پاس آئے، اس کی رسّی کھولی، اور روانہ ہوکر اپنی قوم کے پاس پہنچ گئے۔
وہاں پہنچنے کے بعد لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے، انہوں نے کہا کہ لات وعزیٰ بہت برے ہیں، لوگوں نے کہا کوڑھ، برص اور جنون سے ڈرو، اور ایسی بات زبان پر نہ لاؤ۔ ضمام بن ثعلبہؓ نے کہا: اللہ کے بندو، یہ بت نہ تمہیں نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بھیج دیا ہے، ان پر کتاب نازل کی ہے، انہوں نے تمہیں کفر وشرک سے نجات کا راستہ دکھا دیا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمدؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، میں تمہارے پاس ان کے احکام لے کر آیا ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ شام سے پہلے پہلے پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ (مسند احمد بن حنبل: ۴/۲۱۱، رقم الحدیث: ۲۳۸۱، سنن الدارمی: ۱/۶۵۲)۔ یہ وہی ضمام بن ثعلبہ ہیں جن کے متعلق حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ کی یہ روایت کتب احادیث میں ملتی ہے کہ ہمارے پاس اہل نجد سے ایک دہقان آیا، سر کے بال بکھرے ہوئے تھے، اس کی آواز کی بھنبھناہٹ تھی، لیکن یہ معلوم نہیں ہورہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، قریب آنے پر پتہ چلا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ (الروض الانف: ۲/۳۳۹)۔