کولکاتا کی جس خصوصیت کا دل سے معترف ہونا پڑے گا وہ ہے وہاں کے عوام کی اپنی زبان، تہذیب اور شہر سے وابستگی نیز اس کے تئیں جوش و خروش۔ کولکاتا شہر نہیں جذبہ ہے، ایسا جذبہ جو لوگوں کو ایک دوسرے سے مربوط اور متحد رکھتا ہے۔ نئی آبادیوں کے باوجود لوگ پرانے شہر کے بڑے مداح ہیں۔
کولکاتا جانا۔ تصویر: آئی این این
اتحاد اُس وقت خیالی جنت بن کر رہ جاتا ہے جب انسانیت، مشترکہ اقداراور یکجہتی و یگانگت کے متعدد شعبوں کو فراموش کرکے اس کے حصول کی غیر فطری انداز میں کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں سیاسی یک جہتی کو اتحاد سمجھا جاتا ہے جبکہ سیاسی یکجہتی ڈھکوسلہ ہے جس کی بنیادیں ماضی میں جتنی کمزور ہوتی تھیں اب اُس سے زیادہ ہونے لگی ہیں۔ اس کے مظاہر اَب آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں جب لوگ باگ ایک پارٹی سے دوسری، دوسری سے پہلی یا دوسری سے تیسری پارٹی کی طرف جست لگاتے ہیں اور پشیمان ہوتے ہیں نہ ہی اس میں کوئی بُرائی محسوس کرتے ہیں۔ اتحاد کے خواہشمندوں کو ہر جانب موجود اتحاد کی فطری بنیادوں کو مستحکم کرنے اور اُن پر قائم رہنے کی سعی کرنی چاہئے۔ ایک زبان (اور زبانوں کا باہمی اشتراک)، ایک تہذیب (اور تہذیبوں کا باہمی ارتباط)، ایک ورثہ، ایک ماضی، اتحاد کی یہ تمام فطری بنیادیں ہیں جن کے قیام سے اتحاد ہی قائم نہیں رہتا، دن بہ دن فروغ بھی پاتا ہے۔ گزشتہ دنوں مَیں کلکتہ ( اَب کولکاتا) میں تھا۔ چند ماہ قبل جب اُس ریاست میں، جس کا یہ شہر دارالحکومت ہے، ریاستی انتخابات منعقد ہوئے تو یہاں کے عوام میں اتحاد کی وہ کیفیت دیکھنے کو ملی جو اِس سے پہلے دیگر ریاستوں میں نہیں تھی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ دیگر ریاستوں کے نتائج کچھ اور تھے، مغربی بنگال کے نتائج کچھ اور۔ دوران انتخابات ماہرین کے ذریعہ اس کے اشارے مل رہے تھے کہ مغربی بنگال کا ہار جانا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ ’’الگ ریاست‘‘ ہے۔ الگ ریاست کیوں ہے؟ وہ اس لئے کہ اس ریاست کے لوگ اُنہی بنیادوں پر آج بھی قدم جمائے ہوئے کھڑے ہیں جو فطری اتحاد کو مضبوطی عطا کرتی ہیں۔ یہاں بھائی چارہ ہے، مذاہب کا احترام ہے، یہاں کے لوگوں کو اپنی زبان، کلچر، رہن سہن اور طور طریقوں سے محبت ہے۔ یہی محبت اور وابستگی اُنہیں متحد رکھتی ہے نتیجتاً یہاں کے عوام کو اتحاد کی خارجی اور مصنوعی جدوجہد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہر کوئی یہ جان کر چلتا ہے کہ بنگالی ہے تو متحد ہے۔ میرا کولکاتا جانا مغربی بنگال اُردو اکادیمی کی دعوت پر ہوا، جس نے اُردو صحافت کے ۲۰۰؍ سالہ سفر کی تکمیل پر عظیم الشان جشن منعقد کیا تھا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں جہاں اہل اُردو شریک ہوئے وہیں اہل بنگلہ بھی موجود رہے جو اپنی زبان سے تو بے انتہا محبت کرتے ہی ہیں، دیگر زبانوں کو بھی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اُن کی شرکت اس بات کا ثبوت تھی۔ وہ اس لئے بھی اس تقریب کا حصہ بن کر نازاں و فرحاں تھے کہ جس اُردو اخبار (جام جہاں نما) کو اُردو صحافت کا حرف اول قرار دیا جاتا ہے وہ کولکاتا ہی سے جاری ہوا تھا، تاریخ تھی ۲۷؍ مارچ ۱۸۲۲ ء، اخبار کے مالک تھے ہری ہر دت اور مدیر تھے منشی سدا سکھ لال۔ بنگلہ زبان سے کسی بنگالی کی محبت کو اس حقیقت سے محسوس کیجئے کہ وہ اپنے مخاطب کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتا کہ اُس سے کس زبان میں کلام کرنا چاہئے۔ اگر کسی دوسری زبان کی ضرورت پیش آئی تو وہ اس کیلئے بھی تیار ہوگا مثلاً ہندی، انگریزی، اُردو وغیرہ مگر گفتگو کی ابتداء اپنی ہی زبان سے کریگا۔ اگر اُسے یہ احساس ہوجائے کہ مخاطب بھی بنگلہ سے واقف ہے تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا۔ سمینار کے دوسرے دن ایک صاحب جن سے مَیں واقف نہیں تھا، میرے قریب آکر بیٹھے اور بنگلہ میں کچھ کہا۔ مَیں مسکرا دیا۔ اُنہیں ایسا لگا کہ مَیں بنگلہ جانتا ہوں۔ اُنہوں نے پھر کچھ کہا۔ مَیں پھر مسکرا دیا۔ اب شاید اُنہیں یقین ہوگیا تھا کہ میں بنگلہ جانتا ہوں۔ اُنہوں نے پھر کچھ کہا اور اپنا ہاتھ میری جانب بڑھا دیا جو کسی بات کی تائید کیلئے ’’دے تالی‘‘ کے انداز میں بڑھایا جاتا ہے۔ اس سے اہل کولکاتا یا اہل مغربی بنگال کی سادہ لوحی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ کوئی چھل نہیں، کپٹ نہیں، تعصب نہیں، امتیاز نہیں۔ جہاں تک اہل اُردو کا تعلق ہے، اُن میں دوہرا احساس افتخار پایا جاتا ہے کہ وہ بنگلہ تہذیب کے بھی امین ہیں اور اُردو تہذیب کے بھی۔ اُنہیں جہاں یہ احساس ہے کہ اُردو کا پہلا اخبار اُن کی سرزمین سے جاری ہوا تھا، وہیں یہ احساس بھی کہ اُن کی سرزمین کو غالبؔنے شرف بخشا، داغ ؔنے پسند کیا اور مولانا ابو الکلام آزاد تو بیشتر وقت وہیں رہے۔ اُن کے احساس افتخار کا ایک اور سبب یہ ہے کہ بنگال کو سوامی وویکانند، راجہ رام موہن رائے، ستیہ جیت رے، شیام بینیگل، مرینال سین، مست کلکتوی (’’رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد‘‘ کیلئے مشہور)، وحشت کلکتوی (’’کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف‘‘ کے لئے مشہور) اور ایسی کئی شہرہ آفاق شخصیات (جن میں سے مزید چند کے نام آگے آئینگے) کی وجہ سے عالمی مقام احترام حاصل ہوا ہے۔ ویسے، اہل کولکاتا اس تناظر میں تو یکتائے زمانہ ہیں ہی کہ یہ شہر ملک کا واحد شہر ہے جسے اب تک چار نوبیل انعامات حاصل ہوچکے ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور کو ادب کا، مدر ٹریسا کو امن کا،امرتیہ سین کو معاشیات کا اور ابھیجیت بنرجی کو بھی معاشیات کا۔ ان میں سر رونالڈ راس (پیدائش: ۱۸۵۷ء) اور سی وی رمن کو، جن کا بنیادی تعلق تو مدراس سے تھا مگر یونیورسٹی آف کولکاتا میں پروفیسر (فزکس) رہے، بھی جوڑ لیا جائے تو یہ شہر چھ نوبیل انعام یافتگان کےحوالے سے اُس مقام پر ہے کہ ملک کے کسی دوسرے شہر کو شاید برسوں اس بلندی تک پہنچنے کا انتظار کرنا پڑے۔ کولکاتا کو شہر نشاط (سٹی آف جوائے) ہی نہیں، ملک کی ثقافتی راجدھانی بھی کہا جاتا ہے۔ اس مضمون نگار کو شہر اور شہریوں سے ملنے کا بہت کم وقت میسر آیا مگر اس سفر نے آئندہ کے سفر کی تمنا اس حد تک جگا دی ہے کہ تصور میں اُس کے خدوخال بھی متشکل ہوچکے ہیں۔ اب جو اس شہر میں قدم رنجہ ہونے کا موقع ملا تو ہوڑا برج، مَدَرس ہاؤس (جہاں مدر ٹریسا مدفون ہیں)، مدرسۂ عالیہ (جو اَب عالیہ یونیورسٹی میں تبدیل ہوچکا ہے) اور بالی گنج ، سرکلر روڈ کے اُس مکان پر ضرورحاضری دوں گا جسے مولانا ابو الکلام آزاد کی یادگار یا مولانا آزاد میوزیم کے بطور محفوظ کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہاں مولانا کے کپڑے، عینک، ٹوپی، چھڑی اور وہ بھارت رتن ایوارڈ رکھا ہوا ہے جو ۱۹۹۲ء میں انہیں بعد از مرگ دیا گیا تھا۔