Inquilab Logo

گزشتہ سال (۲۰۱۹ء) انقلاب کے ادارتی عملہ نے کس خاص کتاب کا مطالعہ کیا؟

Updated: January 13, 2020, 9:39 PM IST | Mumbai

قریب کے شماروں میں آپ ’انقلاب‘ کے قارئین کی سال کی پسندیدہ کتابوں کے بارے میں پڑھ چکے ہیں ۔ امسال انقلاب نے ایک منفرد تجربہ کیا اور اپنے ادارتی عملہ سے جاننا چا ہا کہ آخر اس نے ۲۰۱۹ء میں کیا خاص پڑھا؟ اس سے انہیں کیا پیغام ملا ؟ ذیل میں انقلاب عملہ کے ۶؍ اراکین کا حاصل مطالعہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ کتابیں آپ کیلئے بھی دلچسپی کا سامان ہوسکتی ہیں ، یہی نہیں بلکہ کتب خانوں میںبہت سی لازوال کتابیں موجود ہیں۔

علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

نام کتاب: کلیسا اور آگ ، مصنف: نسیم حجازی، تبصرہ: رئیسہ منور

 سال ۲۰۱۹ء میں مَیں نے جو کتاب پڑھی اور جس کا خاص طور پر ذکر مقصود ہے وہ نسیم حجازی کی ’’کلیسا اور آگ‘‘ ہے جس میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کی تباہی کے آغاز کا ذکر ہے۔ اس میں مصنف نے بالخصوص انکویزیشن کا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے کہ بظاہر بے ضرر نظر آنے والے اس ایک لفظ، جس کا اردو ترجمہ ’’احتساب‘‘ ہے، کا اصل مقصد کیا تھا۔ یہ اندلس کے بدنصیب اور اپنے ایمان پر مضبوطی سے جمے رہنے والے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے بنایا گیا ایک ہتھیار تھا۔ اس کے ساتھ ہی یہودیوں پر مظالم کے سلسلے کو بھی بیان کیا ہے لیکن اس سے پہلے یہ تفصیل ہے کہ مسلمانوں کی عظیم سلطنت کس طرح اپنوں ہی کے ذریعے تباہ ہوئی۔ میرجعفر اور میر قاسم سے بہت پہلے ابوالقاسم اور حارث جیسے ایمان فروش تھے جو گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ ان کے عبرت ناک انجام سے قبل اس وقت کے عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ کا یہ جملہ پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب ہماری صفوں میں ایمان فروش پیدا ہو گئے تو کس طرح زوال کا آغاز ہوا۔ غرناطہ میں مسلمانوں کی سرکوبی کے لئے جس ابوالقاسم کو فرڈینینڈ نے استعمال کیا، خود اسی کے لئے یہ بھی کہا کہ : ’’ میرے نزدیک اس آدمی (ابوالقاسم) سے نجات حاصل کرنا زیادہ اہم مسئلہ ہے جو بھیڑیے سے زیادہ خونخوار اور لومڑی سے زیادہ مکار ہے۔ میں اس کتے کی وفاداری پر کیسے یقین کرسکتا ہوں جس نے اپنے ہی مالک کو کاٹ کھایا ہو ۔ اپنی قوم کے دشمن غیروں کے دوست کیسے ہوسکتے ہیں۔‘‘
 اور پھر فرڈینینڈ نے ابوالقاسم کو کس طرح ٹھکانے لگایا اور غرناطہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلتا گیا، اس کی طویل داستان ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس کتاب کے قارئین کی تعداد لاکھوں میں تھی مگر بدلتے اور گزرتے وقت کے ساتھ اور ذوق مطالعہ کے کم ہونے کے باعث یہ تعداد کم ہوگئی ہے مگر آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں لیکن انہیں پہچاننے کے لئے مطالعہ کی بھی ضرورت ہے۔ اس لئے بھی کہ ہم اپنے شاندار ماضی کا رونا تو روتے ہیں لیکن اس تباہی میں کس طرح اپنوں نے ہی اہم کردار ادا کئے، اس جانب توجہ نہیں دیتے۔

نام کتاب: روشندان، مصنف: جاوید صدیقی، تبصرہ:قطب الدین شاہد

 سال گزشتہ زیر مطالعہ رہنے والی کتابوں میں جس کتاب کا مَیں خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا وہ ’’روشندان‘‘ ہے۔ اسے پڑھ کر کئی اہم شخصیات کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ بہت اچھی بات یہ لگی کہ مصنف نے جن شخصیات سے ملاقات کروائی، ان کا اکہرا تعارف نہیں کروایا بلکہ ان کی زندگی کا مکمل عکس پیش کیا ہے۔ ایسے میں ان کے بعض کمزور پہلوؤں کی بھی نشاندہی ہوگئی ہے، لیکن اس کا مقصد تنقید نہیںہے۔ یہ مصنف کی دیانت داری ہے کہ جو جیسا تھا، اسے ویسا ہی پیش کیا۔ جاوید صاحب کی ایمانداری کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے دوسروں کی طرح خود کو پارسا بنا کر پیش نہیں کیا بلکہ جا بجا اپنی کوتاہیوں کا بھی اعتراف کیا ہے۔
 ’روشندان‘ اسم با مسمّیٰ ہے۔ ایک کھڑکی سے باہر کی دنیا کا جتنا کچھ نظارہ کیا جاسکتا ہے، اس کتاب کی مدد سے ہم کرسکتے ہیں..... اور جب ہم کھڑکی سے دور ہوتے ہیں تو بھی اس سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔ ایک روزن کی طرح یہ کتاب بھی باہر کی دنیا کی روشنی سے ہمارے وجود کو منور کرتی رہتی ہے۔ اس میں ادب بھی ہے اور تاریخ بھی ، ترقی پسند تحریک کا اُتار چڑھاؤ بھی ہے اور فلم انڈسٹری کے وہ پہلو بھی ہیں جو عموماً ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اس میں صحافت بھی ہے اور ممبئی کی اُن گلیوں، ہوٹلوں اور ٹھکانوں کا تعارف بھی جہاں کبھی محفلیں جمتی تھیں اور ادب پروان چڑھتا تھا لیکن اب ان میں سے بیشتر ٹھکانےموجود نہیں ہیں۔ اس کتاب میں شخصیات کا تعارف بھی ہے اور ان کے حوالے سے ہمارے لئے درس عبرت بھی۔ ایک مضمون میں فلم انڈسٹری کے اپنے استاذ اور مشہور فلم نویس اور مکالمہ نویس ’ابرار علوی‘کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے آخر میں ان کا کرب انگیز انجام بھی بیان کیا ہے جو ہم میں سے ان تمام کیلئے عبرت کا سامان ہے جو اقتدار، شہرت اور عہدہ کے زعم میں اپنی حقیقت کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ لکھا ہے: ’’جنازے میں صرف ۹؍ آدمی تھے اور اگر ان کے تین بیٹوں کو شامل کرلیا جائے تو بارہ۔ یہ اس آدمی کا آخری سفر تھا جس کے ایک ایک لفظ پر لاکھوں ہاتھ تالیاں بجانے کیلئے اُٹھ جایا کرتے تھے۔ اس دن فاتحہ کیلئے کوئی ہاتھ اٹھانے والا نہیں تھا۔ افسوس۔‘‘

نام کتاب: کلیات شورش کاشمیری ،مصنف: شورش کاشمیری، تبصرہ: حمزہ فضل اصلاحی

 سال ۲۰۱۹ء کے دوران مَیں نے متعدد دوسری کتابوں کے ساتھ ساتھ ’’کلیات شورش کاشمیری‘‘ کا بھی مطالعہ کیا۔ اپنے عہد کے جید صحافی، چٹان کے ایڈیٹر اور قابل قدر شاعر شورش کاشمیری کے صحافتی مضامین کے مقابلے میں ان کی نظموں کی اہمیت کم نہیں ہے۔ اسی کلیات کا انتخاب ۲۰۱۱ء میں فریڈ بک ڈپو نے شائع کیا جس کے مرتب فاروق ارگلی ہیں۔
 زیر مطالعہ انتخاب کی نظمیں غورو فکر کی دعوت دیتی ہیں ،چونکاتی ہیں ، ماضی کا کوئی قصہ سناتی ہیں، سیاستدانوں کی بےحسی پر ماتم کرتی ہیں، جی حضوری کرنے والے صحافیوں کو آئینہ دکھاتی ہیں، بھولے بسرے واقعات یادد لاتی ہیں اور اس دور کی کسی شخصیت کی اہمیت کو واضح کر تی ہیں۔ شورش کاشمیری نے اپنی نظموں کے ذریعہ خاص طور پر حکمراں اور صحافیوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے۔ نظموں کا لہجہ نرم ہے اور کہیں کہیں سخت بھی۔ وہ طنز بھی کرتے ہیں، ان میں در مندی بھی جھلکتی ہے۔ اُن کی ایک نظم’ برے دن ‘ کےچند اشعار دیکھئے :’’ دیکھئے عقدۂ پُر پیچ کہاں جاکے کھلے=چند بدنام مدیروں کے برے دن آئے... جن کی تقدیر میں لکھی ہے خرابات کی خاک =ان بدانجام وزیروں کے برے دن آئے۔ ‘‘ ’بر ے دن‘ کی زبان صاف اور پیغام واضح ہے۔ اس کے مقابلے کچھ نظموں میں فارسی الفاظ کی کثر ت ہے لیکن وہ یو ں ہی نہیں ہیں بلکہ ان کو طنزکے دھار دار نشتر کے بطوراستعمال کیا گیا۔
  ایک نظم ’بازار‘ کا یہ شعر دیکھئے :’’ قلم بک رہے ہیں، نوا بک رہی ہے= چمن بک رہےہیں، صبا بک رہی ہے۔ ‘‘ ایک نظم’ صحافی‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے: ’’قلم بدست رفیقو! تمہیں اجازت ہے= متاع علم و ہنر بیچ بیچ کھاتے رہو... ہر ایک پیر کوسمجھو خدائے کون ومکاں = ہر اک وزیر کی چوکھٹ پہ سر جھکاتے رہو ۔ ‘‘اس کے علاوہ قلم،عید آئی، تلمیحات، مشورہ، آزادیٔ صحافت، انتخاب، سیاہ ہاتھ اور اقبال پوچھتا ہے جیسی نظمیں اس عہد کیلئے بھی ہیں۔ ان کی عصری معنویت ہے۔ اشعار کو نعر ہ بنانے کے عہد میں یہ نظمیں دھوم مچاسکتی ہیں۔ شورش کاشمیری کے ہزاروں اشعار نعرہ بن سکتےہیں۔ فیض اور دوسرے شعراء کی طرح اُن کی نظموں میں بھی احتجاج کی لے تیز ہے۔

نام کتاب: عظیم حماقت ، مصنف: ابن صفی، تبصرہ: عبدالکریم قاسم علی 

 گزشتہ سال مجھے ابن صفی کے کئی ناولوں کا مطالعہ کرنے کا موقع ہاتھ آیا۔ ان میں سب سے زیادہ دلچسپ اور پُرلطف ناول ’عظیم حماقت ‘ تھا جس میں قاسم کے کردار کی حماقتوں سے ناول کے مشمولات و مندرجات کا لطف دوبالا بلکہ سہ بالا ہوگیا۔ ابن صفی جس سطح کے ادیب ہیں ان سے ایسے ہی ناول کی توقع رہتی ہے جس میں مزاح، سراغ رسانی، ادبی چاشنی اور اس کے ساتھ ساتھ کرداروں کے درمیان بھرپور اور دلچسپ مکالمے ہوں۔ ’عظیم حماقت‘ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں قاسم کا کردار بھرپور مزاح لئے ہوئے ہے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے جبکہ حمید اور فریدی کے کردار اپنے لازوال انداز میں یہاں موجود ہیں۔
 ابن صفی کے جتنے بھی ناول ۲۰۱۹ء میں مطالعے میں آئے ان میں مجھے سب سے اچھا یہی ناول ’عظیم حماقت ‘ محسوس ہوا جس میں ایک طرف فریدی اور حمید سراغرسانی کے فرائض انجام دیتے ہیں تو دوسری طرف قاسم قارئین کو اپنی غلطیوں کے ذریعہ ہنسنے پر آمادہ کرتا رہتا ہے۔ ابن صفی نے اس کردار کے ڈیل ڈول کے ساتھ اس کی لفظیات بھی مزاح سے بھرپور رکھی ہیں۔ ناول کی منظر کشی اتنی پُرکشش اور خوبصورت ہے کہ مصنف کے ذریعہ پیش کردہ مناظر آنکھوں کےسامنے گھوم جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے قاری ان مناظر کو بچشم خود دیکھ رہا ہو۔ ناول کے کلائمیکس میں پہاڑیوں کی جومنظر کشی کی گئی ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہی ابن صفی کے قلم کا جادو تھا۔ جس موضوع کو چھو‘تے اُس قاری کے دل میں اُتار دیتے تھے۔ مَیں خبروں بالخصوص اسپورٹس کی خبروں کیلئے ٹی وی دیکھتا ہوں مگر ۲۰۱۹ء میں ان ناولوں کے مطالعہ سے ٹی وی دیکھنے کا وقت اور دورانیہ کم ہوگیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابن صفی کے کئی ناولوں کی کہانیاں موجودہ دور کی فلموں اور ٹی وی شوز میں دکھائی جارہی ہیں۔
 ابن صفی کی مقبولیت ٹی وی،فلموں، ویب سیریز، موبائل اور انٹرنیٹ کے اس دور میں کم نہیں ہوئی بلکہ لوگ آج بھی اُن کے ناول ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتے اور سر دُھنتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ نئی نسل میں وہ ذوق نہیں ہے جو اَب سے پہلے کے ادوار میں دیکھا گیا تھا۔ بلاشبہ، ابن صفی وہ مصنف ہے کہ جس کی مقبولیت پر زوال آنا مشکل ہے۔

نام کتاب: پر یشان ہونا چھوڑیئے.. ،مصنف: ڈیل کارنگی، تبصرہ: اظہر مرزا

 اس سال کئی کتابیں پڑھیں، جن میں کچھ مکمل ہوئیں، کچھ ادھوری ہی رہیں جن میں قابل ذکر کتا ب ’ اسٹاپ وریئنگ اسٹارٹ  لیونگ‘ کا اردو نسخہ ’’پریشان ہونا چھوڑئیے، جینا سیکھئے‘‘ ہے ۔ یہ کتاب امریکی قلمکارولکچرار ڈیل کارنیگی نے لکھی ہے ۔ اس میں درجنوں حقیقی واقعات کی مدد سے مصنف نے یہ بات سمجھائی ہے کہ پریشانیاں، مصیبتیں اور مشکلیں زندگی کا حصہ ہیں، ان سے گھبرانا اور ہمت ہارجانا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ حوصلہ مندی کے ساتھ ان کا سامنا کرنا چاہئے۔ انہوں نے مختلف شخصیات کی زندگی کے واقعات اس میں درج کئے ہیں اوربتایا کہ کس طرح ان کی زندگی میں بھی چیلنجز،مسائل، پریشانیاں، بیماریاں اور نامساعد حالات آئے اور انہوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ’سیلف ہیلپ‘ کے موضوع پر لکھی گئی اس کتاب میں ڈیل کارنیگی نے وہ عملی اُصول پیش کئے ہیں جواب بھی قابل عمل ہیں اور عمر کے ہر حصے میں فائدہ مند ثابت ہونیوالے ہیں۔ یہ کتاب فکر و پریشانی سے آزاد ہونے کیلئے ۱۶؍ طریقوں سے قاری کی مدد کرتی ہے۔ کارنیگی نے پریشانی کے بنیادی حقائق، ان کے تجزیہ کی تکنیک، پریشانی کی عادت چھوڑنے کے طریقے، پریشانیاں اور ذہنی رویہ،مالی مشکلات میں پریشانیوں پر غالب کیسے آئیں؟ جیسے عناوین اور ان کے ذیلی عناوین کے تحت بھرپور رہنمائی کی ہے۔ مصنف نے متعدد لوگوں کے تجربات زندگی کی روشنی میں بڑی مفید و کارآمد باتیں لکھی ہیں۔ اس کتاب کے آغاز میں ڈیل کارنیگی نے اس کتاب کو لکھنے کی یہ وجہ بتائی کہ وہ ٹیچراور مصنف بننے سے قبل ایک عام سا کام کرنے والے شخص تھے جنہیں اپنے کام سے نفرت تھی ۔ وہ اپنی بیزارکن زندگی سے اکتاچکے تھے اور اس طرح انہوں نے ٹیچنگ کا کورس کیا اور نائٹ اسکول میں پڑھانا شروع کیا ۔ پھر فن تقریر سے متعلق لیکچر دیتے ہوئے انہیں محسوس ہوا کہ سماج میں بیشتر افراد مسترد کئے جانے سے احساس کمتری ، ذہنی تناؤ اور پریشانی سے دوچار ہیں لہٰذا جب انہوں نے پریشانی اور فکر سے چھٹکارے سے متعلق مطالعہ کیلئے۲؍ بڑے کتب خانوں کا رخ کیا تو انہیںاس موضوع پر محض  ۲۲؍ ہی کتابیں ہاتھ لگیں جبکہ کیڑے مکوڑوں پر ۱۸۹؍ کتابیں موجود تھیں لہٰذا انہوں نے ’’پریشان ہونا چھوڑئیے ، جینا سیکھئے ‘‘ مرتب کی ۔

نام کتاب: اے سانگ آف آئس اینڈ فائر، مصنف: جارج آر آر مارٹن، تبصرہ: شہباز خان

 گزشتہ سال، مَیں نے انگریزی کے کئی ناول پڑھے جن میں سب سے بہترین ’’اے سانگ آف آئس اینڈ فائر‘‘ تھا۔ یہ ۷؍ کتابوں (اے گیم آف تھرونز، اے کلیش آف کنگز، اے اسٹورم آف سوورڈس: اسٹیل اینڈ اسنو، اے اسٹارم آف سوورڈس: بلڈ اینڈ گولڈ، اے فیسٹ فار کروز، اے ڈانس وتھ ڈریگنس: ڈریمس اینڈ ڈسٹ اور اے ڈانس وتھ ڈریگنس: آفٹر دی فیسٹ) کا مجموعہ ہے۔ خبروں کے مطابق اس سیریز کی مزید ۲؍ کتابیں اس سال یا آئندہ سال شائع ہوں گی۔ یہ سیریز برطانیہ کے مایہ ناز مصنف جارج آر آر مارٹن نے لکھی ہے۔ اس سیریز میں تقریباً ۳۳؍ مرکزی کردار ہیں۔ 
 یہ کہانی ۲؍ خیالی براعظم ’ویسٹروس‘ اور ’ایسوس‘ کی ہے۔ ایک جانب ایک ۱۱؍ سالہ لڑکی ڈینیریئس ہے جو شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہے مگر اپنے باپ (جو ساتوں براعظم کا بادشاہ ہوتا ہے) کے قتل کے بعد سلطنت سے فرار ہوجاتی ہے۔ دوسری جانب، بریتھین خاندان ہے جو فی الحال تخت نشین ہے۔ ڈینیریئس اپنے باپ کا تخت پانے کیلئے ایک فوج بنارہی ہے اور آہستہ آہستہ’کنگز لینڈنگ‘ (راجدھانی) کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس دوران اسے کئی لوگ دھوکہ دیتے ہیں مگر وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ثابت قدمی سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس کے پاس ۳؍ ڈریگن ہیں جو اسے مزید طاقتور بناتے ہیں۔ یہ ڈریگن اپنی ایک پھونک سے پوری فوج کو جلا کر راکھ کرسکتے ہیں۔ ایک خاندان ’اسٹارک‘ ہے جو شمال میں آباد ہے اور سلطنت میں کافی مشہور ہے۔ مارٹن نے اسٹارک خاندان کے عروج کی داستان اس انداز میں تحریر کی ہے کہ پڑھنے والا اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔
 اس کہانی میں ویسٹروس کے بڑے خاندانوں کے درمیان تخت پر قبضہ کرنے کیلئے سیاست اور جنگ کو انتہائی دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ خاندان آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں، مگر دیوار کی دوسری جانب ان تمام کا ایک مشترک دشمن ’دی نائٹ کنگ ‘ ہے۔ ایک ہزار تلواروں سے بنے اس تخت پر کون براجمان ہوگا؟ یہ آئندہ جاری ہونے والے ۲؍ ناولوں میں معلوم ہوگا۔ اسی کتاب پر ٹی وی کا مشہور ڈراما ’گیم آف تھرونز‘ بنایا گیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK