Inquilab Logo

اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر

Updated: July 02, 2020, 11:17 AM IST | Khalid Shaikh

حیرت اس پر ہے کہ فساد میں بڑے پیمانے پر ہوئی جانی ومالی تباہی ، جامعہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس تشدد ، جے این یو میں اے بی وی پی غنڈوں کے ہاتھوں اساتذہ اور طلبہ کی پٹائی اور توڑ پھوڑ پر پولیس کی ان دیکھی کا سپریم کورٹ نے کوئی نوٹس نہیں لیا ۔

Jamia Student - Pic : INN
جامعہ طلبہ ۔ تصویر : آئی این این

 مشہور  کہاوت  ہے کہ  ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کردیتی ہے اور اگر ساری مچھلیاں گندی ہوں تو؟ آج ہمارا ملک اسی شش وپنج میں مبتلا ہے۔ جمہوریت کے چار ستون ہیں۔ مقننہ ، منتظمہ، عدلیہ اور میڈیا۔ لوک سبھا میں غالب اکثریت اور راجیہ  سبھا میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اپوزیشن میں انتشار کی وجہ سے بلوں کی منظوری میں بی جے پی کو کوئی دقّت نہیں ہوتی ہے ۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو گنتی کے چند میڈیا ہاؤس کو چھوڑ کر بقیہ نے اپنی آزادی اور خود مختاری حکومت کے پاس رہن رکھ  دی ہے ۔ وہ  نہ صرف حکومت کو بھونپو بن گیا ہے بلکہ اس کی چاپلوسی میںمودی بھکتوں سے زیادہ مطیع  اور وفادار ثابت ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر مودی بھکتوں کی اجارہ داری ہے۔مارچ میں جس طرح کورونا وائرس کا ٹھیکراتبلیغی جماعت کے سرپھوڑا گیا اور مسلمانوں پر جھوٹ اور افترا کا جو طومار باندھا گیا، اس نے ہندو مسلمانوں کے درمیان بدگمانی کی خلیج اور وسیع کردی ہے جس کا پاٹنا مشکل ہوگا۔ پولیس محکمے اور تفتیشی ایجنسیوں کا بھی یہی حال ہے۔  فساد اور دہشت گردی  کے معاملات میں ان  سب کے نشانے پر صرف مسلمان  رہتے ہیں جنہیں بیشتر اوقات محض شبہ کی بنیادپر برسوں  جیل میں سڑنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں ان کیلئے سب سے بڑا چیلنج اپنی بے گناہی ثابت کرنا اور رہائی کے بعد سماج میں اپنا وقار بحال کرنا ہوتا ہے۔
 دہلی کا فساد بھڑکانے میں سب سے بڑا ہاتھ بی جے پی لیڈروں کا اشتعال انگیزی کا تھا جس کا  سلسلہ سی اے اے ، این پی آر  اور این آر سی کے خلاف جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کے  پرامن مظاہروں سے شروع ہوا۔ ان یونیورسٹیوں کے کیمپس میں زبردستی گھس کر پولیس نے طلبہ پر جو کریک ڈاؤن کیا اس کا ویڈیو وائرل ہوتے ہی ملک کی دوسری یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی  سڑکوں پر اترآئے جو ملک گیر تحریک میں بدل گیا۔ اس تحریک   نے آزادی کے بعد پہلی بار دہلی کے شاہین باغ میں مسلم خواتین کو قومی مسائل پر بولنے اور احتجاج درج کرنے کیلئے گھروں سے نکلنے پر مجبورکیا۔  اس کے بعد ملک کے کئی شہروں میں  شاہین باغ نے  جنم لیا جنہیں ہر مذہب اور فرقے کے لوگوں کا تعاون حاصل تھا۔ دہلی شاہین باغ کی خواتین کے حوصلے اور عزیمت کی داد دینی چاہئے کہ فساد کے دوران بھگوائی  غنڈوں نے شمال مشرقی دہلی کے کئی مقامات پر دھرنے پر بیٹھے لوگوں کو بالجبر ہٹانے میں کامیابی حاصل کی لیکن شاہین باغ کی خواتین ان پر آشوب حالات میں بھی اپنا مقصد حاصل ہونے تک کے ارادے سے ڈٹی رہیں۔ سی اے اے کے خلاف ملک گیر دھرنے اور مظاہرے بی جے پی ریاستوں کے علاوہ دیگر ریاستوں میں مکمل طورپر پُرامن تھے کرناٹک اور آسام میں پولیس فائرنگ  میںد و اور پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ یوپی میں حالات اس وقت زیادہ بگڑگئے  جب  آدتیہ ناتھ کے حکم پر بدلہ لینے کی غرض سے پولیس نے مظاہرین پر گولیاں داغیں اور دھرنے پر بیٹھی خواتین پر لاٹھیاں برسائیں۔ فائرنگ میں ۳۰؍ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔  دہلی الیکشن کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا لیکن انتخابی مہم میں لفظوں کے تیروتفنگ کی  بوچھار میں کمی نہیں آئی۔ چنانچہ کرنٹ لگانے ، گولی مارنے سے لے کر  مغل دور کی واپسی کا ہّوا کھڑا کیا گیا۔ 
 الیکشن میں ’آپ‘  کے ہاتھوں تیسری بار شرمناک شکست پر بی جے پی لیڈر تلملا اٹھے۔ انہیں اپنا غصہ کسی پر تو اتارنا تھا اس لئے ایک بار پھر فرقہ وارانہ ماحول گرما گیا جو فساد کی شکل میں ظاہر ہوا۔ دہلی تین دن تک جلتی رہی۔ ۵۰؍ افراد ہلاک ہوئے ،سیکڑوں بے گھر ہوگئے، گھروں اور دُکانوں کو لوٹا گیا، جلایا گیا لیکن مودی اور کیجریوال  میں سے کسی نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی یا دنگائیوں کے ساتھ  نظر آئی۔ گرفتاریوں کا قرعہ فال بھی مسلمانوں کے نام نکلا۔ اشتعال پھیلانے اور فساد بھڑکانے والے لیڈر اور غنڈے آج بھی آزاد ہیں۔ حیرت اس پر ہے کہ فساد میں بڑے پیمانے پر ہوئی جانی ومالی تباہی ، جامعہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس تشدد ، جے این یو میں اے بی وی پی غنڈوں کے ہاتھوں اساتذہ اور طلبہ کی پٹائی اور توڑ پھوڑ پر پولیس کی ان دیکھی کا سپریم کورٹ نے کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ جب جامعہ میںپولیس تشدد  کے خلاف مفاد عامہ  درخواست  (PIL) کے ذریعے عدالت سے مداخلت کی اپیل کی گئی تو جواب ملا پہلے دنگا بند کیاجائے۔ عدالت کا یہی رویہ لاک ڈاؤن کے بعد مہاجر مزدوروں کی گھر واپسی کے موقع پر دیکھنے کو ملا جب بے گھری اور بیروزگاری کا شکار مزدور حکومتوں کی طرف سے کوئی مدد نہ ملنے پر پیدل ہی سیکڑوں میل دور اپنے گھروں کیلئے  نکل پڑے۔مرکز اورریاستی حکومتوں کو مزدوروںکیلئےشرمک ٹرینوں اور بسوں کی سہولت پہنچانے کا خیال مہینہ بھر بعد آیااور  سپریم کورٹ کو دومہینے بعد ،جب اس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومتوں کی طرف سے مزدوروں کو مفت سہولتیں فراہم کرنے کا فیصلہ دیا۔ حالانکہ یہ وہی عدالت ہے جس نے ۱۹۷۵ء ۔ ۱۹۷۷ء میں ایمرجنسی کے دوران زیر حراست ملزمین کے خطوط اور پوسٹ کارڈ کی تحریروں کا رضاکارانہ طورپر نوٹس لے کر پی آئی ایل کی بِنا ڈالی تھی اب ایسا کم دیکھنے میں آتا  ہے اور مزید حیرت اس پر ہے کہ فوری اوراہم سماعت کے معاملات کو عدالت مؤخر کردیتی ہے اورغیر اہم معاملات کو ترجیح دیتی ہے۔ عدالت میں سب ٹھیک  نہیں اس کا انکشاف عدالت کے چار سینئرترین ججوں کی طرف سے ۱۲؍ جنوری ۲۰۱۸ء کو پہلی بار بلائی گئی پریس کانفرنس میں ہوا جس میں اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا پر بنچ  فکسنگ  اور مودی حکومت پر سرکاری مداخلت کا الزام لگایا گیا ۔ ان ججوں میں ایک جج رنجن گگوئی تھے جو جسٹس مشرا کے بعد چیف جسٹس بنے ۔ پریس کانفرنس میں ان کے باغیانہ تیور دیکھتے ہوئے ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں جو پوری نہیں ہوئیں۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے انہوںنے مودی حکومت اور ہندو توا وادیوں کو اپنے فیصلوں سے جو تحفے دیئے، حکومت نے بطور انعام انہیں راجیہ سبھا کی رکنیت عطا کی۔ اگر عدالت عالیہ کا یہ حال ہے تو ذیلی عدالتوں کا کیا ہوگا اور اقربا انصاف کے خون کا دعویٰ کس پر کریں گے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK