Inquilab Logo

کریئر کے متبادل آپشن کیوں؟

Updated: January 01, 2023, 1:40 AM IST | Mumbai

کانگریس کے سابق صدر اور جواں سال لیڈر راہل گاندھی نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے اب تک کی یاترا میں ہزاروں طلبہ سے بات چیت کی اور ہر بار مختلف باتوں کے علاوہ اُن سے یہ سوال کیا کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں۔

Rahul Gandhi
راہل گاندھی

کانگریس کے سابق صدر اور جواں سال لیڈر راہل گاندھی نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے اب تک کی یاترا میں ہزاروں طلبہ سے بات چیت کی اور ہر بار مختلف باتوں کے علاوہ اُن سے  یہ سوال کیا کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں۔ بقول راہل ’’وہ کریئر کے چار پانچ آپشن ہی بتاتے ہیں مثلا ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے، وغیرہ، ان میں شاذونادر بھی کوئی ایسا نہیں ملتا جو یہ کہتا ہو کہ مجھے میکانک بننا ہے۔‘‘ راہل کا کہنا ہے کہ ہمارے طلبہ میکانک نہیں بننا چاہتے اس لئے کئی ہزار کروڑ کی کمپنی بنانے کا خواب نہیں دیکھ پاتے جبکہ اُن کے سامنے ہونڈا اور اسکوڈا کی مثالیں ہیں۔ اس کی وجہ راہل نے یہ بتائی کہ ہمارے تعلیمی ماحول میں کریئر کے محض چند متبادل رچے بسے ہوئے ہیں اور طلبہ کو اُن کے علاوہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ طلبہ ڈاکٹر،  انجینئر،  آئی اے ایس افسر وغیرہ بننے کا خواب دیکھتے ہیں جبکہ ہر ایک میں نہ تو ڈاکٹر انجینئر بننے کا ذہن اور رجحان ہوتا ہے نہ ہی اُن کے والدین کی اتنی مالی استعداد ہوتی ہے کہ اُنہیں ڈاکٹر انجینئر بنائیں۔ اس کے باوجود وہ  یہی کہتے ہیں۔ اگر اُنہیں کریئر کے متبادلات سے آگاہ کیا جائے اور ترغیبی تقاریر کے ذریعہ اُن میں چار پانچ متبادلات کو چھوڑ کر نئے متبادلات کو اپنانے کا رجحان پیدا کیا جائے تو بقول راہل گاندھی ’’کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک پروڈکشن نیشن (پیداواری ملک نہ بن پائیں۔‘‘ 
 چند روز قبل عالمی سطح پر مشہور اور نہایت باصلاحیت فٹ بال کھلاڑی پیلے کا ۸۲؍ سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ اُنہیں فٹ بال کی دیومالائی شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔ اُن کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اُنہوں نے نہایت غربت کے ماحول میں پرورش پائی۔ وہ گلی میں فٹ بال کھیلتے تھے مگر اپنے جذبے، جنون ، لگن اور محنت کے ذریعہ اُنہوں نے وہ کردکھایا جو اچھے سے اچھے فٹ بال کلب کی رُکنیت حاصل کرنے والے لوگ نہیں کرپائے۔ پیلے کی داستان ہمارے طلبہ اور نوجوانوں کو بالتفصیل سنانے کی ضرورت ہے جس سے وہ خود یہ نتیجہ اخذ کرلیں گے کہ غربت اور وسائل کی کمی جذبے اور جنون کی راہ میں حائل نہیں ہوتے۔ پیلے نے جو کردکھایا ویسا ہی مختلف میدانوں میں ہر کوئی کرسکتا ہے، شرط صرف جذبے، جنون اور محنت کی ہے۔ آج کوئی طالب علم یہ کیوں نہیں کہتا کہ اُسے فٹ بالر بننا ہے؟ اس لئے کہ ہمارے طلبہ بڑے کھلاڑیوں کو دیکھتے تو ہیں، پسند بھی کرتے ہیں اس کے باوجود ویسا بننے کا خواب نہیں دیکھتے، اُنہیں اس کا خیال بھی نہیں آتا کیونکہ کریئر کے آپشن کے طور پر ہمارے سامنے وہی بندھے ٹکے چند فارمولے ہوتے ہیں۔ 
 طلبہ سے ملئے تو معلوم ہوگا کہ اُن میں کوئی ایسا نہیں ہے جوآرٹس کے کسی مضمون میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کوئی ایسا نہیں ہے جو معلم بننا چاہتا ہے۔ کوئی ایسا نہیں ہے جو میکانک بننا چاہتا ہے جیسا کہ راہل نے کہا۔ اگر کوئی طالب علم میکانک بننے کی اپنی خواہش ظاہر کر بیٹھے تو ساتھی طلبہ بے ساختہ ہنس پڑینگے، اساتذہ اُسے خاموش بٹھادینگے کیونکہ میکانک بن کر ہونڈا اور اسکوڈا جیسی کمپنیوں کا مالک بننے کا تصور نہ تو ساتھی طلبہ اور اساتذہ کے پاس ہے نہ ہی والدین اور معاشرہ کے پاس۔ 
 اس رجحان کو بدلنا چاہئے۔ ہمارے خیال میں اساتذہ اور بحیثیت کریئر گائیڈ گرانقدر خدمات پیش کرنے والے ماہرین کو چاہئے کہ طلبہ کے سامنے نہ صرف یہ کہ تمام آپشن رکھیں بلکہ اُنہیں دیگر آپشنز کو اپنانے کی خصوصی ترغیب دیں۔ اس سے اُنہیں  بندھے ٹکے فارمولوں کے حصار سے باہر نکالا جاسکے گا۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK