Inquilab Logo

کسان پھر آمادۂ احتجاج کیوں؟

Updated: February 14, 2024, 1:33 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ملک کے وہ تمام شہری جو دیہی علاقوں سے گزرتے ہوئے لہلاتے کھیتوں کو دیکھ کر خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں کسانوں کا اُن پر حق ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ملک کے وہ تمام شہری جو دیہی علاقوں سے گزرتے ہوئے لہلاتے کھیتوں کو دیکھ کر خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں کسانوں کا اُن پر حق ہے۔ جو لوگ غذائی اُمور میں ملک کے خود کفیل ہونے اور دیگر ملکوں کو غذائی اجناس برآمد کرنے کی حقیقت کو قابل فخر سمجھتے ہیں کسانوں کا اُن پر حق ہے۔ملک کا ہر وہ خاندان جو تینوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے کسانوں کا اُن پر حق ہے۔ حق اس لئے ہے کہ غذائی اجناس کی فراوانی کسانوں کے عزم اور اُن کی محنت کی مرہون منت ہے۔ شہروں کے کارپوریٹ دفاتر میں نہایت قیمتی خدمات انجام دینے والے لوگ بلاشبہ ملک کی جی ڈی پی کے اہم حصہ دار ہوتے ہیں مگر یہ سارے لوگ اتنی محنت اس لئے کرتے ہیں کہ دیگر لوازماتِ زندگی کے ساتھ ساتھ اُنہیں اچھی اور متوازن غذا میسر آئے۔ کسانو ں کے بغیر اس غذا کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ زراعت ملک کا واحد شعبہ ہے جس پر ملک کے ایک ایک خاندان کا انحصار ہے خواہ وہ خاندان دیہی علاقے میں رہتا بستا ہو یا شہری علاقوں میں، مخدوش بستیوں میں سکونت پزیر ہو یا پاش سوسائٹیوں میں رہتا ہو، متوسط طبقے سے وابستہ ہو یا نچلے متوسط طبقے سے، انسانی زندگی کیلئے جن تین چیزوں کو بنیادی شرط تسلیم کیا جاتا ہے وہ ہوا، پانی اور غذا ہے۔ ان میں سے ہوا اور پانی قدرت کی فراہم کردہ نعمتیں ہیں۔ غذا بھی ایسی ہی نعمت ہے مگر یہ ہوا اور پانی کی طرح ازخود میسر نہیں آجاتی، اس کیلئے محنت کرنی پڑتی ہے اور محنت کسان کرتا ہے اس لئے ہمارے ملک میں ادنیٰ اعلیٰ ہر کسان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسانوں کی اتنی ناقدری ہورہی ہے۔۲۱۔۲۰۲۰ء میں وہ ایک سال سے زائد عرصہ تک دہلی کی سرحدوں پر دھرنا دیتے رہے مگر حکومت نے اُن کی ایک نہ سنی۔ مذاکرات کے دروازے ضرور کھولے گئے مگر اس طرح کہ ماننا ہے منوانا نہیں ہے۔ اُس وقت کسانوں کا دھرنا تین زرعی قوانین کے خلا ف جاری تھا جنہیں ایک سال بعد حکومت نے واپس تو لے لیا مگر کسانوں کے مطالبات نہیں سنے۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کو ایک بار پھر احتجاج کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔ ایک بار پھر وہ کھیتوں اور گھر خاندان کو چھوڑ کر احتجاج گاہوں پر حکومت کی خاموشی کے خلاف مزاحمت کرینگے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اِس مرتبہ یہ احتجاج کتنا عرصہ جاری رہے اور کسانوں کو کتنا خسارہ برداشت کرنا پڑے!
 آپ جانتے ہیں کہ کسانوں کے مطالبات کیا ہیں۔ اعادہ کے طور پر عرض ہے کہ کسانوں کے پانچ بڑے مطالبات ہیں: (۱) تمام فصلوں کیلئے اقل ترین قیمت (ایم ایس پی)۔ (۲) فصلوں کی قیمت سوامی ناتھن کمیشن کے وضع کردہ فارمولے کے مطابق طے کی جائے۔ (۳) مرکزی وزیر اجے مشرا ٹینی کو ہٹایا جائے (جن کے بیٹے پر لکھیم پوری کھیری قتل عام کا الزام ہے)۔ (۴) منریگا میں کام کے دن بڑھائے جائیں۔ (۵) سابقہ احتجاج کے دوران جن کسانوں کیخلاف مقدمے دائر کئے گئے تھے، اُن مقدمات کو واپس لیا جائے۔ 
 یہ مطالبات اتنے پیچیدہ اور مشکل نہیں ہیں کہ انہیں تسلیم نہ کرلیا جائے۔ سابقہ دھرنا سے لے کر اب تک کا وقت اگر ان مطالبات کو معاشی نقطۂ نظر سے سمجھنے کیلئے صرف کیا جاتا تو ممکن تھا کہ اب تک انہیں منظور بھی کرلیا جاتا اور ان کا نفاذ بھی عمل میں آجاتا مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت کسانوں کے احتجاج کو اَنا کی جنگ تصور کرتی ہے اسی لئے اُنہیں تسلیم نہیں کرنا چاہتی۔ یہ نہایت افسوسناک طرز عمل ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK