Inquilab Logo

’’ تم ایسی جگہ کیوں جا رہے ہو جہاں کے رہنے والوں پر اللہ کا عذاب آیا تھا؟‘‘

Updated: November 17, 2023, 2:39 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں غزوۂ تبوک کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ آج مقام حجر کا تفصیلی ذکر ملاحظہ کیجئے ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں قوم ثمود پر عذاب آیا تھا۔ نبی کریم ؐ نے اس جگہ سے گزرتے ہوئے چہرۂ مبارک پر کپڑا ڈال لیا اور سواری کو تیز کردیاتھا۔ آپؐ نے اس علاقے میں تنہا جانے کی ممانعت فرما دی تھی۔ اسی سفر میں پانی کی قلت اور آپؐ کی دُعا سے بارانِ رحمت کا نزول ہوا۔ اسی سفر میں آپؐ کی اونٹنی کے گم ہونے کا واقعہ بھی پڑھئے۔

The people of Thamud carved the mountains and built houses, the remains of which still teach lessons. Photo: INN
قومِ ثمود نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات بنائے تھے جن کے باقیات آج بھی درس عبرت دے رہے ہیں۔ تصویر : آئی این این

قوم ثمود کو اللہ تعالیٰ نے بڑی نعمتوں سے نوازا تھا، ان کی مہارت اور طاقت و قوت کا یہ حال تھا کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش کر رہائشی مکانات بنا لئے تھے، آج بھی یہ مکانات موجود ہیں ، اور لوگ انہیں دیکھنے جاتے ہیں ، اس زمانے میں جبکہ وسائل تعمیر محدود تر تھے کس طرح پورے پورے پہاڑ تراش کر انہوں نے مکانات بنائے تھے، یہ ایک حیرت انگیز کارنامہ تھا۔ قرآن کریم نے سنگ تراشی میں قوم ثمود کی مہارت کا ذکر اس آیت میں کیا ہے: ’’اور یاد کرو جب تم کو عاد کا جانشیں بنا دیا اور تم کو زمین میں آباد کردیا جہاں تم زمین میں محل بناتے ہو اور پہاڑوں میں گھر تراشتے ہو۔‘‘ (الاعراف: ۷۴) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کے لوگ زمین پر بھی بڑے بڑے محلات تعمیر کیا کرتے تھے، مگر اب ان محلات کا نام ونشان بھی باقی نہیں ہے، البتہ پہاڑوں میں انہوں نے جو مکانات بنائے تھے وہ ابھی تک موجو د ہیں۔
قوم عاد کی طرح یہ قوم بھی سر سے پاؤں تک بت پرستی میں ڈوبی ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدیم سنت کے مطابق اس قوم کی اصلاح کیلئے بھی ان ہی میں سے ایک مردِ صالح حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بناکر بھیجا، مگر اس بد بخت قوم نے ان کو جھٹلایا، ان سے معجزات طلب کئے، پھر ان کی تکذیب کی، حضرت صالح علیہ السلام کا سب سے بڑا معجزہ پہاڑ سے اونٹنی کا نمودار ہونا تھا، ثمود نے اس اونٹنی کو بھی جھٹلایا۔ یہ الگ قسم کی اونٹنی تھی، قوم ثمود جس کنویں سے پانی پیتی تھی اسی کنویں سے یہ اونٹنی بھی پانی پینے لگی، مگر یہ عجیب الخلقت اونٹنی جس وقت کنویں پر آکر پانی پیتی چشم زدن میں کنویں کا سارا پانی پی کر ختم کردیتی، اس سے عاجز آکر قوم ثمود نے اونٹنی کو ہلاک کردیا، اس کی پاداش میں یہ قوم عذاب ِالٰہی میں مبتلا ہوئی، ان بستیوں میں ایک چیخ گونجی اور ایک ہیبت ناک آواز پیدا ہوئی، یہ آواز سن کر قوم کا ہر شخص اوندھے منہ زمین پر گر پڑا اور ہلاک ہوگیا۔ 
تبوک جاتے ہوئے مسلمانوں کا لشکر حجر سے گزرا، بہت سے لوگ بستی میں داخلہ ہوگئے، حضرت ابو کبشہ الانصاریؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ تبوک کیلئے جاتے ہوئے جب ہم مقام حجر سے گزرے تو لوگ جلدی سے ان بستیوں میں داخل ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی، آپؐ نے سب کو جمع کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں بھی آیا، آپؐ اپنی اونٹنی کی لگام تھامے ہوئے تھے اور شدید غصے کے عالم میں فرمارہے تھے کہ تم ایسی جگہ کیوں جا رہے ہو جہاں کے رہنے والوں پر اللہ کا عذاب آیا تھا۔ ایک شخص نے عرض کیا یارسولؐ اللہ! ہمیں یہ مکانات دیکھ کر حیرت ہورہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ نہیں ہے کہ تم میں سے ایک شخص تمہیں گزرے ہوئے زمانے کی باتیں بتلارہا ہے اور آنے والے وقت کی خبریں سنا رہا ہے، سیدھے رہو اور راہ راست پر ڈٹے رہو، اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوگی کہ تمہیں بھی عذاب میں مبتلا کردے، ایسی قوم بھی پیدا ہوگی جو اپنے دفاع میں کچھ بھی نہ کرسکے گی۔ (الفتح الربانی: ۲۱/۱۹۵) حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تبوک جاتے ہوئے قوم ثمود کی بستی الحجر میں اترے، انہوں نے وہاں کے کنوؤں سے پانی لیا اور اس سے آٹا گوندھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو پانی تم نے ان کنوؤں سے لیا ہے اسے پھینک دو، اور جو آٹا اس پانی سے گوندھا ہے اسے اپنے اونٹوں کو کھلادو، اور اس کنویں سے پانی لو جس سے حضرت صالح علیہ لسلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ (صحیح البخاری: ۴/۱۴۹، رقم الحدیث: ۳۳۷۹) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ان لوگوں کے گھروں میں داخل مت ہونا جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا، ہاں اگر داخل ہونا ہی ہے تو پھر روتے ہوئے اور خوف وخشیت سے لرزتے ہوئے داخل ہو، مبادا یہ عذاب تم پر نہ آجائے، اس کے بعد آپؐ نے اپنی اونٹنی کو ہنکایا اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ قوم ثمود کی بستیاں پیچھے رہ گئیں ۔ (صحیح البخاری: ۴/۱۴۹، رقم الحدیث: ۳۳۸۰) 
ابن ہشام کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام حجر سے گزرے تو آپؐ نے اپنے چہرۂ مبارک پر کپڑا ڈال لیا اور سواری کو تیز کردیا اور فرمایا کہ ظالموں کے گھروں میں داخل نہ ہو، مگر روتے ہوئے۔ (سیرت ابن ہشام:۴/۴۰۳) روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص تنہا باہر نہ نکلے، سب لوگوں نے اس حکم کی تعمیل کی، مگر بنی ساعدہ کے دو شخص باہر نکل گئے، ایک کسی ضرورت سے گئے تھے، اور ایک اپنے اونٹ کی تلاش میں نکلے تھے، جو صاحب کسی ضرورت سے نکلے تھے وہ راستے میں بے ہوش ہوگئے، ان کے لئے حضورؐ نے دُعا کی وہ اچھے ہوگئے، دوسرے شخص کو ہوا نے اٹھا کر جبل طی پر پھینک دیا۔ آپ ؐنے سنا تو فرمایا کہ میں نے منع کیا تھا کہ کوئی شخص تنہا باہر نہ نکلے۔ جس شخص کو جبل طی پر ہوا نے پھینکا تھا اس کو قبیلے کے لوگوں نے مدینہ منورہ میں آپ ؐ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ (صحیح مسلم: ۴/۱۲۳) 
حضرت عبد اللہ ذوالبجادینؓ کی وفات
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں بیچ رات میں اٹھا تو میں نے فوجی کیمپ میں ایک روشنی دیکھی، میں اس روشنی کی طرف بڑھا تاکہ یہ دیکھوں کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے اور اس وقت لشکر میں روشنی کیوں ہورہی ہے، وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں ۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی موجود ہیں ، معلوم ہوا کہ ایک صحابی جن کا نام عبد اللہ ذوالبجادینؓ تھا وفات پا گئے ہیں ، ان کے لئے قبر کھودی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس قبر میں اترے، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ان کی میت قبر میں اتار رہے تھے، آپؐ نے ان دونوں سے فرمایا: اپنے بھائی کو میرے قریب لاؤ، ان دونوں نے عبد اللہؓ کے جسد مبارک کو آپؐ کے قریب کردیا۔ آپؐ نے ان کو قبر کے گڑھے میں رکھا اور یہ دُعا فرمائی کہ اے اللہ! میں اس سے راضی رہا تو بھی اس سے راضی ہوجا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جو اس قصے کے راوی ہیں کہتے ہیں میں اس وقت یہ تمنا کررہا تھا کہ کاش قبر میں عبد اللہ کی جگہ میں ہوتا۔ (صحیح السیرۃ النبویۃ ص:۵۹۸)
ذوالبجادین کا لقب کیوں ؟ 
حضرت عبد اللہؓ کو ذوالبجادین کا لقب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا تھا، ان کا تعلق قبیلۂ مزنیہ سے تھا، والد انتقال کر گئے تھے، چچا کی کفالت میں تھے، سن شعور کو پہنچے، اسلام کا چرچا سنا، ان کے دل میں بھی اسلام قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوا، انہوں نے اپنے چچا سے کہا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں ، لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہورہے ہیں ، آپ بھی اسلام قبول کرلیں ، چچا اسلام کے سخت ترین مخالفوں میں سے تھے، خود تو کیا اسلام قبول کرتے انہوں نے بھتیجے پر بھی پابندی لگادی، اس خوف سے کہ کہیں وہ مدینے نہ بھاگ جائیں چچا نے ان کے بدن سے کپڑے اترواکر انہیں برہنہ کردیا۔ عبد اللہؓ نے اپنی والدہ سے ایک کپڑا مانگا، والدہ نے انہیں ایک کمبل دے دیا، عبد اللہ نے اس کے دو ٹکڑے کئے، ایک کو لنگی کے طور پر پہنا اور دوسرے کو بدن کے بالائی حصے پر ڈال لیا، اسی حال میں گھر سے فرار ہوکر چھپتے چھپاتے مدینہ پہنچ گئے، رات بھر مسجد میں ٹھہرے رہے، جب بوقت نماز فجر آپ ؐ مسجد میں تشریف لائے، عبد اللہ نے آپؐ کا دیدار کیا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے، آپؐ نے نام دریافت فرمایا تو انہوں نے عبد العزیٰ بتایا، آپ نے فرمایا آج سے تمہارا نام عبد اللہ اور لقب ذوالبجادین (دوکمبلوں والا) ہے۔ (سیر اعلام النبلاء: ۲/۱۷۵) 
پانی کی قلت اور باران رحمت کا نزول
اصحابِ ثمود کی بستیوں سے آگے بڑھے تو پانی کی قلت پیدا ہوگئی، صحابہؓ نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ! ہمارے پاس پانی نہیں ہے، اور بہ ظاہر کوئی ایسی جگہ بھی نہیں ہے جہاں سے پانی حاصل کرسکیں ، راستے میں نہ کوئی کنواں ہے اور نہ کوئی چشمہ۔ آپؐ نے دُعا فرمائی اور مجاہدین کیلئے اپنے اللہ سے پانی مانگا، اللہ تعالیٰ نے دُعا قبول فرمائی، اسی وقت آسمان پر بادل چھا گئے، اور اس قدر پانی برسا کہ تمام لوگوں نے سیر ہوکر خود بھی پانی پیا، اپنے جانوروں کو بھی پلایا، نہائے دھوئے بھی اور آگے کیلئے ذخیرہ بھی کرلیا۔ (تاریخ الطبری: ۲/۱۸۴، البدایہ والنہایہ: ۵/۹)۔ ہ کُھلا معجزہ تھا، منافقین کی آنکھیں یہ معجزہ دیکھ کر کُھل جانی چاہئے تھیں ، اور انہیں یہ اعتراف کرلینا چاہئے تھا کہ آپ نبی ٔبرحق ہیں ، مگر لشکر میں جو منافقین تھے وہ یہ معجزہ دیکھ کر بھی حق کی طرف مائل نہ ہوئے۔
 ایک راوی ہیں محمود بن لبید۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے قبیلے کے ایک شخص نے جو تبوک میں شریک تھا بتلایا کہ لشکر اسلام میں بعض منافقین بھی تھے، ایک منافق ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، پانی کی قلت اور حضورؐ کی دُعا سے باران رحمت کا واقعہ پیش آیا تو ہم نے اس سے کہا: کمبخت! کیا اس کے بعد بھی تو قبول حق کیلئے کوئی بہانہ کرسکتا ہے، اس نے کہا یہ تو آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا تھا، اتفاقاً یہاں برس کر چلا گیا۔ (السیرۃ النبویہ: ۴/۴۰۳) 
حضور ﷺکی اونٹنی گم ہوگئی
ابھی تبوک کے راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہوگئی، صحابۂ کرامؓ اسے اِدھر اُدھر تلاش کرنے لگے، عمارہ بن حزمؓ بدری صحابیوں میں سے ہیں ، ان کے گروپ میں ایک منافق بھی تھا جس کا نام زید بن اللصیت القینقاعی تھا، وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ نبی ہیں ، آسمان کی خبریں تم تک پہنچاتے ہیں ، حالاں کہ ان کا حال یہ ہے کہ انہیں اپنی اونٹنی کی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ عمارہؓ کچھ دیر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپؐ صحابہؓ سے فرمارہے تھے کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ محمد نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے، حالاں کہ انہیں اپنی اونٹنی کا بھی پتہ نہیں ، خدا کی قسم! میں صرف وہ باتیں جانتا ہوں جو اللہ مجھے بتلاتا ہے، اللہ نے مجھے میری اونٹنی کے بارے میں بتلایا ہے کہ وہ فلاں وادی کی فلاں گھاٹی میں ہے، ایک درخت سے اس کی لگام پھنسی ہوئی ہے، تم لوگ جاؤ اور اسے پکڑ کر میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ لوگ گئے اور اونٹنی کو پکڑ کر لے آئے۔ عمارہؓ یہاں سے اٹھ کر اپنے ٹھکانے پر پہنچے، وہاں زید منافق موجود تھا، عمارہ نے بتلایا کہ جو کچھ تم نے کہا تھا وہ رسولؐ اللہ کو معلوم ہوگیا ہے اور آپؐ نے تمہاری بات بھی نقل فرمائی ہے، زید کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی، عمارہ نے اس کے گلے پر تلوار رکھی اور لوگوں سے کہا کہ یہاں آؤ، دیکھو ہمارے لشکر میں یہ بدبخت گھس آیا ہے، میں اس دشمن خدا کو یہاں سے نکالنا چاہتا ہوں ، ابن اسحاقؓ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد زید نے توبہ کرلی تھی اور وہ پکا سچا مسلمان ہوگیا تھا، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنی روش پر قائم رہا، ذرا نہ بدلا اور اسی حالت میں واصل جہنم ہوا۔ (السیرۃ النبویہ: ۴/۴۰۴، الدلائل للبیہقی: ۵/۲۲۳) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK