Inquilab Logo

مودی سرکار کو بحث و مباحثےسے اتنی نفرت کیوں ہے؟

Updated: January 07, 2024, 4:52 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

ٹرک مالکان کے احتجاج نے سرکار کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ وہ ہٹ اینڈ رن قوانین کوفی الحال نافذ نہیں کررہی ہے جبکہ اگر اس پرپارلیمنٹ میں ہی غور ہو جاتا تو منہ کی نہیں کھانی پڑتی۔

This is the first incident in the country`s history when 146 MPs were suspended in a week and many laws were passed in their absence. Photo: INN
یہ ملک کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے جب ایک ہفتے میں ۱۴۶؍ اراکین پارلیمان معطل کردیئے گئے اور ان کی غیر موجودگی میں کئی قوانین منظور کرالئے گئے۔ تصویر: آئی این این

متنازع ہٹ اینڈ رَن قانون کے خلاف ٹرک مالکان کی ہڑتال نے جس طرح پورے ملک میں افراتفری مچادی تھی اور پھر حکومت کو نہایت عجلت میں ٹرک مالکان کا مطالبہ تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا ،اس سے ظاہر ہو گیا کہ مودی حکومت کو ایک اور معاملے میں منہ کی کھانی پڑی ہےلیکن اس بات کی گیارنٹی نہیں ہے کہ وہ اس کے بعد بھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی جس سے پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہو جائے۔ ٹرک مالکان نے تقریباً ۴۸؍ گھنٹے چکا جام کر کے پورے ملک کو پیغام دیا کہ جس قانون پر اعتراض ہے اسے تبدیل کروانے کے لئے اتحاد سب سے بڑی طاقت ہے ورنہ کیا وجہ تھی کہ وہ مودی حکومت جس نے زرعی قوانین پر کسانوں کی بات ماننے کے لئے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ لگادیا، شہریت ترمیمی قانون کو سرد خانے میں ڈالنے کے لئے کئی ماہ کا وقت لگادیا ، پہلوانوں کے مطالبات تسلیم کرنے کیلئے بھی ایک سال کا طویل عرصہ اور کئی رسوائیاں برداشت کیں ، ٹرک مالکان کے محض ۴۸؍ گھنٹے کے چکا جام سے دہل گئی ۔ ٹرک مالکان نے اصل میں مکمل اتحاد کا مظاہرہ کیا اور ملک کی لائف لائن کہلانے والے ہائی ویز کو جام کرنے کے ساتھ ساتھ ہر اس چیز کی سپلائی روک دی جو ملک کی نبض کو چلانے کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اپنے مطالبات کس طرح منوائے جاتے ہیں ۔ ہر چند کہ یہ احتجاج منصوبہ بند نہیں تھا لیکن اس نے حکومت کے تمام منصوبوں پر پانی ضرور پھیر دیا۔ اس احتجاج سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ سرکار سے جائز مطالبات اس طرح سے بھی منوائے جاسکتے ہیں ۔ حالانکہ یہ طریقہ عام شہریوں کے لئے پریشان کن ضرور ہے لیکن تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق جب دو دو ہاتھ کی تیاری ہو جاتی ہے تو پھر ڈکٹیٹر شپ کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔ 
 ٹرک مالکان نے ہڑتال کرکے اپنی بات پورے ملک تک پہنچاتودی لیکن ہمارا سوال یہاں مرکزی حکومت سے ہے کہ آخر وہ بغیر بحث کے اتنے سخت قوانین لے کر ہی کیوں آئی ؟ ایسا نہیں ہے کہ صرف یہی قانون بغیر بحث کے پیش کیا گیا ہو بلکہ اس سے قبل زرعی قوانین ، شہریت ترمیمی قوانین ،جموں کشمیرسے دفعہ ۳۷۰؍ ختم کرنے کے قوانین، الیکشن کمشنروں کی تقرری کے قوانین اور سوشل میڈیا پر کنٹرول کے قوانین کو بھی اسی طرح سے بالکل معمولی بحث یا اس کے مضمرات پر غور کئے بغیر نہ صرف منظور کیا گیا بلکہ انہیں نافذ بھی کردیا گیا ۔ ہماری سمجھ سے یہ بات بالا تر ہے کہ سرکار کو آخر اتنی جلد بازی کس بات کی ہے؟ حالانکہ یہ بات ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سرکار کے مکھیا کو تاریخ میں اپنا نام لکھوانا ہے اور اس کے لئے وہ ہر ممکن قدم اٹھارہے ہیں لیکن ملک کے قوانین تاریخ پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ انہیں بغیر کسی بحث یا معقول طریقے سے ان پر غور کئے بغیر نافذ کردینے سے وہی حالات پیدا ہوں گے جو ٹرک مالکان کی ہڑتال اور اس کے بعد پیدا ہوئے۔ داخلہ سیکریٹری نے ٹرک مالکان کی سب سے بڑی تنظیم ٹرانسپورٹ کانگریس کے نمائندوں سےطویل گفتگو میں یہ یقین دہانی کروائی کہ ہٹ اینڈ رن قوانین فی الحال نافذ  نہیں کئے جا رہے ہیں اور جب بھی انہیں نافذ کیا جائے گا اس سے قبل ٹرک مالکان سے گفتگو ضرور ہوگی اور ان کے موقف و مفاد کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ اس یقین دہانی پر کسی کو بھی ہنسی ہی آئے گی کیوں کہ یہی کام قانون بنانے اور اسے منظور کروانے سے قبل کرلیا جاتا تو ملک میں کچھ وقت کے لئے اتنی افراتفری نہیں مچتی۔

یہ بھی پڑھئے: پہلوانوں کا احتجاج :حکومت ہی نہیں، اس کے حامیوں کو بھی اختلاف پسند نہیں

 محسوس یہی ہوتا ہے کہ حکومت کو بحث نہیں کروانی ہےبلکہ وہ یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس کے دور میں انتہائی تیزی رفتاری کے ساتھ فیصلے کئے گئے اور انہیں نافذ بھی کیا گیا لیکن اس تیز رفتاری کی وجہ سے وقتاً فوقتاً جو جھٹکے محسوس ہو رہے ہیں ہمیں نہیں لگتا کہ حکومت ان کی متحمل ہے۔ حالانکہ وہ ظاہر یہی کرتی ہے کہ اتنے چھوٹے چھوٹے مظاہروں یا احتجاج سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتال لیکن جب کسان آندولن یا شاہین باغ جیسے احتجاج ہوتے ہیں تو اس کی رسوائی پوری دنیا میں ہوتی ہے۔یہ بات مودی حکومت اگر سمجھ لے تو ملک کے شہری کئی بڑی پریشانیوں سے بچ جائیں گے۔
  نئے تعزیری قوانین کو پارلیمنٹ سے منظور کرواتے وقت اپوزیشن میں شامل بیشتر پارٹیوں کے اراکین کو بلاوجہ معطل کردیا گیا تھا جبکہ اگر وہ ایوان میں موجود رہتے تو بہت ممکن تھا کہ ان قوانین کے بہت سے اَسقام (خامیاں ) ملک کے سامنے آتے۔ حالانکہ اپوزیشن اراکین نے معطلی کے باوجو تعزیری قوانین کی کئی خامیوں کو طشت از بام کیا اور بتایا کہ یہ ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہیں لیکن سرکار ان قوانین پر کوئی بحث کروانے کیلئے تیار نہیں ہوئی۔ معروف صحافی رویش کمار نے سرکار کے اقدامات کا بالکل درست تجزیہ کیا ہے کہ’’حکومت پہلے تو بغیربحث کے قانون منظور کرواتی ہے اور پھر جب اس کے خلاف احتجاج ہوتا ہے تو ان قوانین کو سرد خانے میں ڈال دیتی ہے۔ کیا حکومت اتنی معمولی سی بات نہیں سمجھ پارہی ہے کہ کسی بھی قانون کوملک میں نافذ کرنے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر گفتگو ضروری ہے ، اس کی خامیوں اور خوبیوں کو سامنے لایا جائے اور اس کے مضمرات اور اثرات کو بھی اچھی طرح سے دیکھ بھال لیا جائے۔‘‘ 
 معمار آئین ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے یوں ہی کسی قانون کو آئین میں شامل نہیں کیا۔ اس کے لئے  آئین ساز اسمبلی میں کئی کئی دنوں تک گرما گرم بحث و مباحثے ہوئے ، کئی باتوں پر غور کیا گیا، ان کے اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا تب کہیں جاکر مختلف قوانین کو دستور میں شامل کیا گیا لیکن یہاں اس درجہ جلد بازی سے کام لیا جارہا ہےکہ حکومت کے اقدامات پر شبہ نہ کرنے والے بھی شبہ کرنے لگ جائیں۔
 ملک کے سابق وزیر اعظم اور مشہور ماہر معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ نے مودی حکومت کی جانب سے کی گئی نوٹ بندی پر تبصرہ کرتے ہوئے جو بات کہی تھی وہ سرکار کے تمام اقدامات پر صادق آتی ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ’’ بی جے پی کو اتنی بڑی اکثریت ملی ہے کہ وہ ملک میں معاشی اصلاحات کرکے معیشت کا حجم کئی گنا بڑھاسکتی ہے اور ملک کے شہریوں کے لائف اسٹائل کو مزید بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کروڑوں شہریوں کو غریبی کے دلدل سے باہر نکال سکتی ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ نوٹ بندی جیسے بے سر پیر کے اقدامات کرکے نہ صرف معیشت کا بیڑہ غرق کررہی ہے بلکہ ایسے قدم اٹھارہی ہے جس سے سماج میں افراتفری پھیل رہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر منموہن نے یہ تجزیہ ۲۰۱۷ء میں کیا تھا لیکن ہمیں یہ اب بھی حرف بہ حرف درست محسوس ہو رہا ہے۔

نیا ’ہٹ اینڈ رَن‘ قانون کیا ہے اور ٹرک مالکان کو کیا اعتراض ہے؟
مودی حکومت نے جلد بازی میں بنائے گئے تعزیری قوانین میں ہٹ اینڈ رَن کا جو قانون شامل کیا ہے وہ ڈرائیوروں کے اعتراض کے مطابق بہت زیادہ سخت ہےکیوں کہ سابقہ آئی پی سی میں ہٹ اینڈ رن کے لئے زیادہ سے زیادہ ۲؍ سال کی سزا تھی لیکن اس نئے قانون میں ۱۰؍ سال کردی گئی ہے جبکہ موقعہ واردات سے فرار ہوجانے والے ڈرائیور کو ۱۰؍ سال کی سزا کے ساتھ ساتھ ۷؍ لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑسکتا ہے۔
ڈرائیوروں کا اعتراض ہے کہ یہ قانون نہایت سخت ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس کو غیر ضروری اختیارات اور طاقت فراہم کردیتا ہے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی حادثے کے بعد اگر ڈرائیور موقعہ واردات سے فرار نہ ہو تو اسے عوام پیٹ پیٹ کر مارڈالیں گے یا اسے ہمیشہ کے لئے معذو ر کریں گے۔
ملک بھر کے ڈرائیوروں کا یہ اعتراض بھی ہے کہ اس قانون کا اصل میں نفاذ نہیں ہو گا بلکہ نفاذ کرنے والے اداروں میں رشوت ستانی عام ہو جائے گی کیوں کہ جب کبھی بھی جرمانہ کی رقم یا سزا بہت زیادہ بڑھادی جاتی ہے توپھر لوگ اس سے بچنے کے لئے رشوت دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی یہی ہونے کا اندیشہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK