Inquilab Logo

پہلوانوں کا احتجاج :حکومت ہی نہیں، اس کے حامیوں کو بھی اختلاف پسند نہیں

Updated: December 31, 2023, 1:48 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

مرکزی وزارت کھیل نے جس طرح سے ریسلنگ فیڈریشن کو الیکشن کے بعد معطل کردیااس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس موضوع پر حکومت اور وزارت کھیل کی کتنی سبکی ہو رہی تھی۔

Sakshi Malik . Photo: PTI
ساکشی ملک۔ تصویر : آئی این این

مرکزی وزارت کھیل نے جس طرح سے ریسلنگ فیڈریشن کو الیکشن کے بعد معطل کردیااس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس موضوع پر حکومت اور وزارت کھیل کی کتنی سبکی ہو رہی تھی۔ اگر یہی کام پہلے کرلیا جاتا تو اتنا بڑا تنازع کھڑا نہ ہو تا اور کچھ پہلوانوں کو اپنے سرکاری اعزازات واپس کرنے کی ضرورت نہ پڑتی لیکن مودی حکومت کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ جب تک کسی معاملے میں پوری طرح سے بدنام نہ ہو جائے تب تک کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ تین زرعی قوانین کے تعلق سے بھی اس کا یہی رویہ تھا اور سی اے اے کے نفاذ کے تعلق سے بھی اس نے یہی اڑیل رویہ اپنایا ہوا تھا ۔لیکن یہ سوال اب بھی قائم ہو تا ہے کہ کیا حکومت خاتون پہلوانوں کے آگے جھک گئی ہے اور کیا اب بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف عدالتی کارروائی تیز ہو جائے گی؟ یہ سوالات وزارت کھیل کی جانب سے ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے نو منتخب صدر سنجے سنگھ اور پوری باڈی کو معطل کئے جانے کے فیصلے سے اٹھ رہے ہیں ۔ حالانکہ ابھی اس کا کوئی یقینی اور ٹھوس جواب نہیں دیا جا سکتا کہ واقعی حکومت جھک گئی ہے اور اب برج بھوشن کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ خاتون پہلوانوں نے فیڈریشن کے سابق صدر اور بی جے پی ایم پی برج بھوشن کے خلاف جنسی استحصال کا الزام عائد کیا تھا اور تقریباً ۴۰؍ دنوں تک انہوں نے دہلی کے جنترمنتر پر ان کے خلاف دھرنا دیا، احتجاج کیا اور بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔ لیکن بجائے اس کے کہ حکومت کے کانو ں پر جوں رینگتی اور وہ برج بھوشن کے خلاف کارروائی کرتی، پولیس کے ذریعے پہلوانوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر وہاں سے ہٹایا گیا اور ان کے خلاف پولیس کی کارروائی میں رخنہ اندازی کا الزام بھی لگادیا گیا۔ ان لوگوں پر سیاست کرنے اور اپوزیشن کے ہاتھوں میں کھیلنے کا بھی الزام لگایا گیا۔ حالانکہ پہلوانوں نے بارہا اعلان کیا تھا کہ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے بلکہ دھرنے کے اپنے پہلے مرحلے میں تو انہوں نے کسی بھی سیاست داں کو دھرنے کے مقام تک جانے بھی نہیں دیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: اپوزیشن کیخلاف غیرمعمولی اقدام کا مقصد صرف کارروائی نہیں، پیغام دینا بھی ہے

وزارت کھیل نے حالانکہ فیڈریشن کو معطل کرنے کے لئے جو بنیادی باتیں کہی ہیں وہ تمام تکنیکی محسوس ہو رہی ہیں لیکن پہلوانوں نے جس طرح سے فیڈریشن کے بہانے پورے سسٹم کو آئینہ دکھایا اور بنیادی سوال کھڑے کئے اس سے وزارت کی کارروائی بالکل درست محسوس ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے بارسوخ اراکین اور ممبران کو بچانے اور ان پر لگنے والے الزامات پر کان نہ دھرنے کی روش اب بھی تبدیل نہیں ہوئی ہے بلکہ سرکار کے حامی بھی اس طرز پر قائم ہیں ۔ جیسے ہی حکومت کے خلاف کوئی تنازع سر اٹھاتا ہے سرکار سے قبل اس کے حواری جو سوشل میڈیا پر موجود ہیں طوفان بدتمیزی کھڑا کردیتے ہیں ۔تنازع سامنے آتے ہی سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا میں جو طومار باندھا جاتا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کی ہر وقت یہ کوشش ہو تی ہے کہ اس کی شبیہ پر کوئی داغ نہ آئے اور جولوگ الزامات عائد کررہے ہیں ان کی شبیہ کو پوری طرح سے برباد کردیا جائے۔ یہ روش کئی سابقہ معاملوں میں سامنے آچکی ہے۔کسانوں کے آندولن کے دوران بھی یہی کوشش کی گئی کہ انہیں اتنا بدنام کردیا جائے کہ ان کے آندولن کو کوئی اعتبار حاصل نہ رہے۔ اس کے لئے کسانوں کوسکھ علاحدگی پسند تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ، کبھی ان کی کردار کشی کی گئی تو کبھی انہیں دیگر معاملات میں پھنسانے کی بھی کوشش ہوئی لیکن جب وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے اور اپنے مطالبات پر قائم رہے تو مجبوراً تینوں بل واپس لینے کا اعلان کیا گیا اور اس میں بھی یہی ظاہر کرنے کی کوشش ہو ئی کہ کسانوں کا احتجاج حق بجانب نہیں تھا بلکہ وہ ان بلوں کو ہی سمجھ نہیں سکے۔
 جو طریقہ کسانوں کے ساتھ اپنایا گیا اس سے قبل وہی طریقہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف بھی اپنایا گیا تھا۔کسانوں کے تعلق سے تو کہیں نہ کہیں تھوڑی احتیاط تھی لیکن سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے چونکہ زیادہ تر مسلمان تھے اس لئے ان کی کردارکشی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے باوقار تعلیمی ادارے میں پرامن احتجاج کرنے والے طلبہ پر لاٹھی چارج کیا گیا، شاہین باغ میں احتجاج کرنے والی خواتین کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی، انہیں بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ انہیں پاکستان تک سے جوڑنے کی کوششیں حکومت کے حواریوں نے کی ،یہاں تک کہ انہیں گولی مارنے کی باتیں بھی کہی گئیں لیکن یہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین بھی حوصلہ مند تھیں ، ٹس سے مس نہیں ہوئیں جس کے بعد حکومت کو ہی سی اے اے اور این آر سی کےقوانین سرد خانے میں ڈالنے پڑے۔حالانکہ اب بھی حکومت کے وزراء رہ رہ کرسی اے اے کا راگ الاپتے رہتے ہیں لیکن وہ صرف گیدڑ بھپکی ہی ہو تی ہے۔ 
 پہلوانوں کے ساتھ بھی یہی حکمت عملی اپنائی گئی۔ پہلے تو ان کی شبیہ برباد کرنے کی کوشش ہوئی۔ انہیں سیاسی طور پر اپوزیشن کا ہتھیار قرار دیاگیا، ان کے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور جب اس کے بعد بھی پہلوان اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹے تو انہیں نفسیاتی اور ذہنی طور پر زیر کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں ۔ جن خاتون پہلوانوں نے الزامات عائد کئے تھے ان میں سے بہت سوں کو نچلا بیٹھنے پر مجبور کردیا گیا، الزامات کی نوعیت تبدیل کروائی گئی ، کیس درج کرنے میں غیر ضروری تاخیر سے کام لیا گیا اور کئی خاتون پہلوانوں کو اپنے بیان تک بدل دینے پر مجبور کیا گیا لیکن تب بھی ونیش پھوگاٹ ، ساکشی ملک اور بجرنگ پونیا جیسے عالمی شہرت یافتہ پہلوانوں کا حوصلہ نہیں توڑ سکے۔اب ان کے مطالبات تسلیم تو کرلئے گئے ہیں لیکن باوریہی کرایا جارہا ہے کہ پہلوانوں کے مطالبات پر نہیں بلکہ فیڈریشن میں جاری ’بدعنوانیوں ‘ کو روکنے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہےلیکن برج بھوشن سنگھ کو جس طرح حاشئے پرلایا گیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ مودی حکومت کو اب جاکر اپنی رسوائی کا احساس ہوا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK