Inquilab Logo

انڈین ڈائسپورا کیوں اہم ہے؟

Updated: June 08, 2023, 10:35 AM IST | Mumbai

ڈائسپورا یعنی کیا؟ آسان لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں بود و باش اختیار کرنے والوں کی آبادی ڈائسپورا کہلاتی ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

 ڈائسپورا یعنی کیا؟ آسان لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں بود و باش اختیار کرنے والوں کی آبادی ڈائسپورا کہلاتی ہے۔ ہندوستانی تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ بیرونی ملکوں میں آباد ہندوستانیوں کو انڈین ڈائسپورا کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح حالیہ دہائیوں میں ہی رواج میں آئی ہے۔ اس سے پہلے ڈائسپورا نہیں کہا جاتا تھا۔ ان دِنوں چونکہ راہل گاندھی کا دورۂ امریکہ موضوع بحث بنا ہوا ہے اس لئے ڈائسپورا کی اصطلاح تقریباً روزانہ استعمال ہورہی ہے۔ اس سے قبل جب جب بھی وزیر اعظم دیگر ملکوں کے دورے پر رہے اور وہاں آباد ہندوستانیوں سے ملاقات کی تب تب ڈائسپورا کی اصطلاح تحریر و تقریر کا حصہ بنی۔
 چونکہ ہندوستان اُن ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کے شہریوں کی بڑی تعداد نے بغرض روزگار دیگر ملکوں کو ہجرت کی ہے اس لئے اِنڈین ڈائسپورا کو بڑی اہمیت اور قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔ ڈائسپورا میں تین طرح کے لوگ یا آبادی کی تین قسمیں شمار کی جاتی ہیں۔ ایک وہ لوگ جو غیر مقیم ہندوستانی کہلاتے ہیں۔ دوسرے وہ جو ’’پیوپل (پرسنس) آف انڈین اوریجن‘‘ قرار دیئے جاتے ہیں۔ تیسری قسم اُن لوگوں کی ہے جو ’’اوورسیز سٹیزنس آف انڈیا‘‘ کہلاتے ہیں۔ تینوں کی تعریف الگ الگ ہے جس کی وضاحت تنگی ٔ داماں کے سبب اس کالم میں ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ کتنے ہندوستانی شہری یا ہندوستانی نژاد لوگ بیرونی ملکوں میں رہتے ہیں تو اس کا جواب حیران کن ہے۔ بیرونی ملکوں میں آباد ہندوستانیوں کی مجموعی تعداد (مکمل ڈائسپورا) ۳۲؍ ملین پرافراد پر مشتمل ہے۔ تین کروڑ بیس لاکھ لوگ۔ ان میں پیوپل یا پرسن آف انڈین اوریجن اور اوورسیز سٹیزنس آف انڈیا کی مشترکہ تعداد ۱۸ء۶۸؍ ملین ہے جبکہ غیر مقیم ہندوستانی یعنی این آر آئی کی تعداد ۱۳ء۴۵؍ ملین (ایک کروڑ پینتیس لاکھ) ہے ۔ 
 کسی بھی ملک کے اتنے سارے لوگ بیرونی ملکوں میں آباد نہیں ہیں۔ چونکہ بیشتر لوگ بغرض روزگار اپنا مستقر تبدیل کرتے ہیں اس لئے اُن کے ذریعہ وطن بھیجی جانے والی رقم بھی اس قدر ہوتی ہے کہ معیشت کو اس کا فائدہ یقینی طور پر پہنچتا ہے۔ بتاتے چلیں کہ آر بی آئی کے اعدادشمار کے مطابق این آر آئیز کے ذریعہ ہندوستان بھیجی جانے والی رقم ۲۰۲۲ء میں ۱۰۷؍ بلین ڈالر تھی۔ ہماری ریاضی اتنی پختہ نہیں ہے کہ آپ کو یہ بتا سکیں کہ یہ رقم ہندوستانی روپے میں منتقل ہو تو کتنی ہوجاتی ہے البتہ ہم اتنا ضرور بتا سکتے ہیں کہ یہ خطیر رقم ہے اور اسے غیر مقیم ہندوستانیوں کی ایسی اعانت ہے جو بالواسطہ طور پر ہندوستانی معیشت کو غیر معمولی فائدہ پہنچاتی ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ برآمدات سے جو فائدہ ہندوستان کو ہوتا ہے ویسا ہی فائدہ این آر آئیز کی بھیجی ہوئی رقومات سے بھی ہوتا ہے۔بہت سے دیگر فوائد کے علاوہ یہ بہت بڑا فائدہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب ہندوستانی وزیر اعظم بیرونی ملکوں میں تشریف لے جاتے ہیں تو ہندوستانی ڈائسپورا سے ضرور خطاب کرتے ہیں۔ 
 یاد رہے کہ ہندوستان افرادی قوت سے مالامال ہے اس لئے بیرونی ملکوں میں اس کے افراد کی کافی مانگ ہے۔ انہی کی وجہ سے ہمارا سروس سیکٹر توانا ہوا ہے۔ دو سال پہلے جب کووڈ کی وجہ سے برآمدات کا نظام ٹھپ ہوکر رہ گیا تھا، وہ این آر آئیز ہی تھے جن کی  رقومات سے معیشت بدستور مستفید ہوتی رہی۔ ہر سال  ۲۵؍ لاکھ افراد ہندوستان سے بیرونی دُنیا  کا رُخ کرتے ہیں۔ ان کی تعریف اسلئے لازمی ہے کہ یہ یہاں کما کر باہر بسنے والے بھگوڑے ارب پتی نہیں ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK