Inquilab Logo

شہریوں کی جاسوسی پر غیر سنجیدہ رویہ کیوں؟

Updated: March 20, 2022, 7:51 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

پیگاسس معاملے میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اسرائیلی کمپنی کے خلاف سخت موقف اختیا رکیا۔ لیکن ہندوستان میں حکومت کی جانب سے شہریوں کی جاسوسی پر عدلیہ نے سخت اقدامات نہیں کئے۔

In the Pegasus case, the United States, Britain and France took a hard line against the Israeli company
پیگاسس معاملے میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اسرائیلی کمپنی کے خلاف سخت موقف اختیا رکیا

گزشتہ سال جولائی میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ حکومتِ ہند شہریوں کی جاسوسی کیلئے ملٹری گریڈ سرویلنس سافٹ ویئر استعمال کر رہی ہے۔ شہریوں میں صحافی، حزب اختلاف کی شخصیات اور جنسی ہراسانی سے بچ جانے والی ایک خاتون بھی شامل تھیں۔ یہ رپورٹ انسانی حقوق کے عالمی گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل (جس سے مَیں وابستہ ہوں) کی تکنیکی تحقیق اور تصدیق پر مبنی تھی۔
 ہندوستان وہ واحد ملک نہیں تھا جسے پیگاسس نامی سافٹ ویئر استعمال کرتے ہوئے بے نقاب کیا گیا تھا۔ یہ سافٹ ویئر اسرائیل کی ایک کمپنی نے بنایا ہے اور اسے صرف حکومتوں کو فروخت کیا گیا ہے۔ پیگاسس آئی فونز کو بھی متاثر کر سکتا ہے اور اسے ہدف (جس کی جاسوسی کرنا ہو) تک بآسانی پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے ہدف کے قریب رہنا ضروری نہیں ہے بلکہ ہدف کے ایک لنک یا کسی قسم کی اطلاع پر کلک کرنے سے جاسوسی شروع ہوجاتی ہے۔ پیگاسس فون میں داخل ہونے کے بعد ہیکر کو مکمل رسائی کی اجازت دیتا ہے۔ 
 پیگاسس کے تعلق سے جب امریکی حکومت کو معلوم ہوا کہ اس سافٹ ویئر کے ذریعے امریکی سفارت کاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے، امریکی حکومت نے اسرائیلی کمپنی کو فوراً بلیک لسٹ کر دیا۔ واضح رہے کہ یہ سافٹ ویئر این ایس او گروپ نے بنایا ہے۔ 
 تاہم، این ایس او کو اس بات کی فکر تھی کہ برطانیہ بھی ان کی کمپنی کے ساتھ ایسا ہی کرے گا لہٰذا اس نے گزشتہ سال اکتوبر میں اپنے سافٹ ویئر کو دوبارہ کوڈ کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ ’’پلس فورٹی فور (+44)،برطانوی بین الاقوامی کوڈ، سے شروع ہونے والے کسی بھی نمبر کو کبھی ہیک نہیں کرسکے۔ جب فرانسیسی انٹیلی جنس ایجنسی نے اس بات کی تصدیق کی کہ غیر ملکی حکومتوں نے پیگاسس کے ذریعے ان کے شہریوں کی جاسوسی کی ہے تو، اکتوبر ۲۰۲۱ء میں اسرائیلی، فرانس گئے تاکہ انہیں یقین دلاسکیں کہ اس سافٹ ویئر سے کسی بھی فرانسیسی فرد کی جاسوسی نہیں کی جائے گی۔
 پیگاسس کے متعلق اب تک ہندوستان کا کیا ردعمل رہا ہے؟ اول تو ہماری حکومت نے کہا کہ یہ ایک جھوٹی کہانی ہے۔ برسر اقتدار کے وزراء کے ذریعے یہ کہلوایا گیا کہ چونکہ یہ ایمنسٹی ہے اس لئے رپورٹ جھوٹ کا پلندہ ہے۔ پھر ان سے یہ بھی کہنے کیلئے کہا گیا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خود ہی دعویٰ واپس لے لیا ہے (جو سراسر جھوٹ تھا)۔ پارلیمنٹ میں حکومت نے کہا کہ کسی کی کوئی ’’غیرقانونی‘‘ یا ’’ناجائز‘‘ طور پر نگرانی نہیں کی گئی ہے۔ ایک جمہوری ملک میں حکومت کی جانب سے اس قسم کے جواب کی توقع نہیں تھی۔ 
 حکمراں جماعت کی طرف سے اپوزیشن کی جاسوسی کس ’’قانون‘‘ کے تحت کی گئی؟ یہ انکشاف نہیں کیا گیا۔ حیران کن طور پر ایمنسٹی نے انکشاف کیا کہ پارلیمنٹ میں مودی حکومت کا دفاع کرنے والے وزیر (اشونی ویشنو) کی بھی جاسوسی کی گئی۔ ایمنسٹی نے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے، ان سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ وہ حقائق ہیں: (۱) ہندوستانی شہریوں بشمول صحافیوں، جنسی ہراسانی کے شکار افراد، عدلیہ اور میڈیا کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔ (۲) ان پر ایک ملٹری گریڈ سافٹ ویئر کے ذریعے حملہ کیا جا رہا ہے جو صرف حکومتوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ (۳) اس سافٹ ویئر کی خریداری اور دیکھ بھال پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ 
 یہ ایک مجرمانہ فعل ہے لیکن ہمارے ملک میں اس کیلئے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔انتہائی مایوسی کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی حکومت سے اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کر واسکا کہ وہ پیگاسس استعمال کر رہی ہے۔ عدالت نے کوشش کی لیکن حکومت نے اس پر حلف نامہ داخل کرنے سے انکار کر دیا۔ مضحکہ خیز طور پر حکومت نے کہا کہ وہ ایک کمیٹی بنائے گی جو یہ معلوم کرے گی کہ حکومت نے پیگاسس کا استعمال کیا ہے یا نہیں؟
 عدالت کی جانب سے حکومت یا اس کے افسران کو توہینِ عدالت کے معاملے میں منطقی طور پر جوابدہ بنایا جانا چاہئے تھا۔ لیکن عدالت نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے بجائے اس نے سرکاری موقف کو قبول کیا اور ایک کمیٹی قائم کی۔ کمیٹی کا کام یہ معلوم کرنا ہے کہ مودی حکومت نے ہندوستانیوں پر پیگاسس کا استعمال کیا ہے یا نہیں؟
  یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب عدالت خود تلاش کرسکتی تھی لیکن اس نے یہ معاملہ ایسی کمیٹی کے سپرد کردیا جو حکومت کی جانب سے بنائی گئی ہے۔ یہ اسکول میں کھیلے جانے والے کھیل ’’کھوکھو‘‘ کی طرح ہے کہ عدالت نے کسی اور کو’’کھو‘‘ دے دیا۔ 
 یہ کمیٹی پانچ ماہ سے کام کررہی ہے۔ اس نے امسال فروری میں ایک `’’عبوری‘‘ رپورٹ پیش کی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک ایسے سوال کیلئے عبوری رپورٹ پیش کی گئی ہے جس کا جواب ’’ہاں‘‘ یا نہیں‘‘ میں ہونا چاہئے۔ کمیٹی کی جانب سے عبوری رپورٹ کا پیش کیا جانا غیر واضح اور حیران کن ہے۔ لیکن ہم ہندوستانی جانتے ہیں کہ کمیٹیاں بننے کے بعد ان کا کیا ہوتا ہے!
 آئیے اس کے ایک اور پہلو کا جائزہ لیں۔ وہ یہ ہے کہ امریکہ، فرانس یا برطانیہ جیسے دیگر ممالک کے مقابلے ہماری جمہوریت نے اسے معاملے پر کتنا غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا ہے۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر ہندوستانی رازداری کے مسائل کو پسند کرتے ہیں، خاص طور پر جب اس کا تعلق دوسروں سے ہو۔ 
 جب رازداری اور وقار کی بابت آواز بلند کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے ’’اس میں چھپانے کیلئے کیا ہے؟‘‘ یہ ایک عجیب ردعمل ہے۔ اس دوران یہ حقیقت بھلا دی جاتی ہے کہ ہندوستانی قانون رازداری کے حق کو بنیادی حق قرار دیتا ہے۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ حکمراں جماعت کی طرف سے اپنے مخالفین اور میڈیا کے خلاف مجرمانہ کارروائی کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا کہ سیاسی مسئلہ بن جائے۔ یہ صرف فرض کر لیا جاتا ہے کہ طاقت کا غلط استعمال نہ صرف عام ہے بلکہ متوقع اور جائز بھی ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کے مستقبل کیلئے ایک تشویشناک علامت ہے۔دوسرا تشویشناک عنصر عدلیہ کی عدم دلچسپی ہے کہ اسے بتانا چاہئے کہ حکمرانی کے اصول کیا ہیں۔ برسر اقتدار حکومت کے تحت ہم نے محسوس کیا ہے کہ اختیارات اور احتساب کے متعلق جو چیز کاغذ پر ہے، وہ کاغذ ہی پر رہ گئی ہے۔ یہ بھی ایک تشویشناک علامت ہے کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک مضبوط لیڈر سیاست کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ سکتا ہے (جیسا ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ہوا تھا) ۔
 ہم دیکھیں گے کہ پیگاسس کے معاملے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن اگر یہ نظام مودی حکومت کو جوابدہ ٹھہرائے گا تویہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کیلئے حیران کن ہوگا۔n

Pegasus Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK