Inquilab Logo

بہارکے وزیرتعلیم پروفیسر چندر شیکھرکےبیان پر تنازع کیوں؟

Updated: January 16, 2023, 4:01 PM IST | Professor Mushtaq Ahmed | Mumbai

پروفیسر چندر شیکھر کے اس بیان پر کہ عہدِ قدیم میں منو اسمرتی ، پھر رام چرت مانس اور اس کے بعد آر ایس ایس کے نظریہ ساز ایم ایس گولوالکرکی کتاب ’بنچ آف تھاٹس‘نے سماجی لحاظ سے پسماندہ طبقے کو فکری اعتبار سے کافی نقصان پہنچایا ہے، ایک ہنگامہ برپا ہے، حالانکہ انہوں نے تاریخی حوالے سے بات کی ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

بہار میں جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل اتحاد کی حکومت ہے اور نتیش کمار کی قیادت میں دونوں سیاسی جماعتوں کے ممبرانِ اسمبلی اورکونسل کابینہ میں شامل ہیں۔ اگرچہ یہ مطالبہ جاری ہے کہ کابینہ کی توسیع ہو اور وزیروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے مگر نتیش کمار، اپنی کابینہ کی توسیع کے تعلق سے پوچھے گئے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے پرہیز کر رہے ہیں ۔اسی درمیان  آر جے ڈی کے کوٹے سے بنے وزیر پروفیسر چندر شیکھرجنہیں تعلیم جیسا اہم محکمہ دیا گیا ہے وہ ان دنوں بی جے پی اور ان کے حامیوں کے نشانے پر ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں پروفیسر چند ر شیکھر نے اپنی تقریر میں یہ وضاحت کی ہے کہ ہندوستان میں تغیر زمانہ کے ساتھ کچھ ایسی کتابیں شائع ہوتی رہی ہیں جن سے سماجی نفرت کی فضا ہموار ہوئی اور جس کے اثرات اب تک دکھائی دے رہے ہیں۔ پروفیسر چندر شیکھر نے کہا کہ عہدِ قدیم میں منو اسمرتی ، پھر رام چرت مانس اور اس کے بعد آر ایس ایس کے نظریہ ساز ایم ایس گولوالکرکی کتاب ’بنچ آف تھاٹس‘نے سماجی اعتبار سے پسماندہ طبقے کیلئے فکری اعتبار سے مضر ثابت ہوئی ہے۔
  واضح ہو کہ پروفیسر چندر شیکھر پیشہ درس وتدریس سے وابستہ رہے ہیں اور سماجوادی نظریہ کے حامل فعال ومتحرک لیڈر ہیں ۔ وہ نتیش کمار کی اس کابینہ سے پہلے بھی بہار کے وزیر رہ چکے ہیں ۔ وہ اپنی صاف گوئی کیلئے مشہور ہیں اور سیاست میں اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ راشٹریہ جنتا دل میں بھی ان کی ایک الگ پہچان ہے اور شاید اسی لئے جب نتیش کمار کی قیادت میں عظیم اتحاد کی حکومت تشکیل پائی تو راشٹریہ جنتا دل کی طرف سے محکمہ تعلیم کی ذمہ داری پروفیسر چندر شیکھر کو سونپی گئی۔ دراصل وہ ان دنوں اپنے جس بیان کو لے کر متنازع قرار دیئے جارہے ہیں وہ کوئی انکشاف نہیں ہے بلکہ سماجوادی نظریہ اور بایاں محاذ کے علمبرداروں کے ذریعہاکثر کہا جاتا رہا ہے کہ اپنے وطن عزیز میں طبقاتی نظام کو استحکام بخشنے میں مذہبی لیڈروں کا بہت بڑا کردار رہا ہے اور بیشتر مذہبی  لیڈر اعلیٰ طبقے کی نمائندگی کرتے رہے ہیں، اسلئے پسماندہ، دلت اور عورتوں کے تئیں ان کے افکار ونظریات سے اختلافات کی گنجائش ہے لیکن اس وقت ملک میں جس طرح کی فضا قائم ہوئی ہے اس میں پروفیسرچندر شیکھر کے بیان پر تنازع کھڑا ہونا فطری عمل ہے کیوں کہ اس وقت مذہبی جنون کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اور تاریخی حقائق کو مسخ کرکے نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔
  اسلئے جب کبھی تاریخی حقائق پر گفتگو کی جاتی ہے تو ایک مخصوص نظریئے کے لوگوں کے ذریعہ ہنگامہ آرائی کی صورت پیدا کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دنوں ذرائع ابلاغ پر ایک خاص نظریئے کے افراد قابض ہیں اور سوشل میڈیا بھی انہی کی دسترس میں ہے ۔ ایسے وقت میں پروفیسر چندر شیکھر جیسے صاف گو لیڈر کے بیان پر تنازع کھڑا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس وقت ان کی حیثیت چوں کہ ایک وزیر کی ہے، اسلئے ان کے بیان کو کچھ زیادہ ہی نمک مرچ لگا کر پیش کیا جا رہاہے ۔ اگرچہ ذرائع ابلاغ میں ان کے بیان پر شور شرابہ ہونے کے بعد جنتا دل متحدہ نے ان کے بیان سے خود کو الگ کر لیا ہے اور اپنا موقف ظاہر کردیا ہے کہ پروفیسر چندر شیکھر کا بیان ان کا انفرادی بیان ہے ، حکومت ان کے بیان کی حمایت نہیں کرتی اور قابلِ تحسین بات تو یہ ہے کہ خود پروفیسرچندر شیکھر نے بھی یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ تاریخی حقائق ہیں اور انہوں نے رام چرت مانس سے کئی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔
  اس میں کوئی شک نہیں کہ سناتن دھرم کے کئی بڑے دانشوروں نے بھی منو اسمرتی کو دلت طبقے کیلئے مضر قرار دیا ہے اور رام چرت مانس پر بھی سوال اٹھاتے رہے ہیں۔جہاں تک ایم ایس گولوالکر کی مذکورہ کتاب کی بات ہے تو اس حقیقت سے ہم سب آگاہ ہیں کہ اس کتاب میں اقلیت مسلم طبقے کیلئے کس طرح کا نظریہ پیش کیا گیا ہے جو اس ملک کی جمہوریت اور سا  لمیت کیلئے مفید نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا ایک بڑا تعلیم یافتہ طبقہ اس کتاب کی رد میں اپنی تحریر وتقریر کے ذریعہ ماحول سازی کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں جس طرح ملک کی سیاسی فضا مکدر ہوئی ہے ایسے وقت میں پروفیسر چندر شیکھر جیسے بیباک سیاسی لیڈر کا بیان آنا اور پھر تمام تر تنازعوں کے بعد ان کا اپنے بیان پر قائم رہنا ان کی بے خوف اور صاف وشفاف شخصیت کی غماز ہے۔
  یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اب تک راشٹریہ جنتا دل نے پروفیسرچندرشیکھر کے بیان پر کسی طرح کی ناراضگی ظاہر نہیں کی ہے اس سے عوام الناس میں ایک مثبت پیغام گیاہے اور اگر ایک طرف پروفیسر چندر شیکھر کے بیان کو متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری طرف وزیر موصوف کی حمایت میں بھی بیان دینے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ 
 بہر حال! اس حقیقت کا اعتراف تو کرنا ہی ہوگا کہ تاریخی حقائق کوخواہ کتنا ہی مسخ کرنے کی کوشش کی جائے عوام الناس کے ذہن ودل سے زائل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا اور ملک میں ایک بڑا طبقہ ایسا موجود ہے جو تاریخی حقائق کو مسخ کرنے والوں کی مخالفت میں جی جان سے لگا ہوا  ہے اور گاہے بگاہے وہ اپنے موقف کا اظہار بھی کرتا رہتا  ہے۔ پروفیسر چندر شیکھر کا حالیہ بیان بھی اسی طرح کے فکری اظہار کا ایک حصہ ہے۔شاید اسلئے پروفیسر چندر شیکھر کے مخالفین کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے اور پروفیسر چندر شیکھر ترکی بہ ترکی جواب دینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔
 ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان کے  بیان کو متنازع بنانے اور سیاسی رنگ دینے کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیںکہ یہ  ایک حساس موضوع ہے اور ان دنوں بد قسمتی سے مذہبی حساس موضوعات کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے مگر ریاست بہار میں اس کی دھار قدرے کم ہے۔ بالخصوص جب سے ریاست بہار میں عظیم اتحاد کی حکومت تشکیل پائی ہے تو ریاست کی سیاسی فضا بھی تبدیل ہوئی ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کیلئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی طرف سے بھی ایک خصوصی مہم چلائی جا رہی ہے۔ ان دنوں وزیر اعلیٰ ریاست گیر دورہ کر رہے ہیں اور اپنے عوامی اجلاس میں اس کی تاکید بھی کر رہے ہیں کہ جب تک ریاست میں امن وامان کا ماحول قائم نہیں رہے گا اس وقت تک ترقی کی رفتار بھی تیز نہیں ہو سکتی۔ اسلئے وہ عوام سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کی اپیل کر رہے ہیں اور انتظامیہ کو بھی کسی بھی طرح کے حساس حالات سے نمٹنے کیلئے تیار رہنے کی ہدایت کر رہے ہیں جس کا مثبت نتیجہ بھی سامنے آرہا ہے۔ایسے وقت میں پروفیسر چندر شیکھر کے بیان کو متنازع بنانے والوں کو شایدوہ سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہو سکے جس کے وہ متمنی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK