Inquilab Logo

سینئر لیڈروں کو نظر انداز کرنا بی جے پی کو فائدہ پہنچائے گا یا نقصان ؟

Updated: October 01, 2023, 10:38 AM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

شیو راج سنگھ ،وسندھرا راجے اور رمن سنگھ پارٹی کی انتخابی حکمت عملی میں کہیں بھی فٹ نہیں ہو رہے ہیں،لیکن کیا ان کے تجربے کو نظر انداز کرکے پارٹی اعلیٰ کمان کوئی خطرہ تو نہیں مول لے رہی ہے ؟

The situation is that at present BJP has no trust in any leader other than Narendra Modi in the entire party
صورتحال یہ ہے کہ اس وقت بی جے پی کو پوری پارٹی میںنریندر مودی کے علاوہ کسی اور لیڈر پر بھروسہ ہی نہیں ہے

مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں انتخابی ہلچل کی پورے شباب پر ہے۔ راجستھان میںاشوک گہلوت کے مقابلےعام طور پر وسندھرا راجے کو میدان میں اتارا جاتا تھا لیکن اس مرتبہ بی جے پی کا منصوبہ کچھ اور ہے۔ایم پی میں بھی شیو راج سنگھ چوہان کے کندھوں پر بیٹھ کر ہی بی جے پی گزشتہ ۱۸؍ سال سے اس ریاست میں اقتدار میں ہے لیکن اس مرتبہ پارٹی شیو راج سنگھ کو بھی دغا  دینے کے موڈ میں نظر آرہی ہے۔ جہاں تک چھتیس گڑھ کی بات ہے تو اس تعلق سے ہم آخر میں گفتگو کریں گے ، پہلے ایم پی اور راجستھان کی بات کرلیں۔ ایم پی میں بی جے پی نےاب تک اپنی جو ۲؍ فہرستیں جاری کی ہیں ان میں وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کا نام نہیں ہے۔ پارٹی نے یہاں  مرکزی وزراء اور اراکین پارلیمان کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری فہرست میں کچھ چونکادینے والے نام بھی شامل کئے گئے ہیں جیسے مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر جو شیو راج کے سب سے بڑے مخالف مانے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ شیو راج کے اور ایک مخالف کیلاش وجے ورگیہ کو بھی ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ وہ الیکشن لڑنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہو تا ہےکہ بی جے پی اعلیٰ کمان جس میں دو ہی لیڈران ہیں، کون سا تجربہ کرنا چاہ رہی ہے ؟
  بی جے پی کی صفوں سے یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اس مرتبہ کے الیکشن میں پارٹی وزارت اعلیٰ کا چہرہ پیش نہیں کرے گی بلکہ اجتماعی طور پر الیکشن لڑے گی۔ ساتھ ہی نئے چہروں کو زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ بی جے پی اعلیٰ کمان نے نئے چہروں کو موقع دینے کا تجربہ گجرات میں کیا تھا جہاں پر  وزیر اعظم مودی پرانتخابی مہم کا فوکس رکھ کرپوری کابینہ اور یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ کو بھی تبدیل کردیا گیا تھا ۔ اس کا بی جے پی کو فائدہ بھی ہوا لیکن اس فائدہ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ کانگریس نے وہاں پوری قوت سے الیکشن نہیں لڑا تھا مگر مدھیہ پردیش کا معاملہ دوسرا ہے کیوں کہ یہاں حکومت مخالف لہر اتنی زبردست ہے کہ خود بی جے پی کو یہ یقین کم ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آسکے گی۔ اس کے علاوہ گجرات کے مقابلے میں ایم پی میں کانگریس کا کیڈر زمینی سطح پر بہت مضبوط ہے۔ یہاںکانگریس کے پاس ریاستی سطح کے لیڈروں  کی پوری ایک فوج موجود ہے جو کمل ناتھ کی قیادت میں  پوری طرح منظم  ہے۔ اس کے برعکس بی جے پی میں اس وقت  داخلی انتشار کھل کر سامنے آرہا ہے ۔ شیو راج سنگھ چوہان کو منظر نامہ سے ہٹانے کی بھی یہ ایک بڑی وجہ ہے کیوں کہ ان کے اور کانگریس سے بی جے پی میں آئے جیوترادتیہ سندھیا کے درمیان واضح اختلافات ہیں جو پارٹی کو اندر ہی اندر کمزور کررہے ہیں۔ ان تمام باتوں کی بھنک بی جے پی اعلیٰ کمان کو لگ چکی ہے اسی لئے وہ ’ڈیمیج کنٹرول ‘کی کوششوں میں مصروف  ہے۔ شیو راج سنگھ چوہان کو نظر انداز کرکے بی جے پی نے اٹل اور اڈوانی کے دورکے  ایک اورلیڈر کو حاشیے پر ڈال دیا ہے۔ یاد رہے کہ اٹل بہاری واجپئی اور ایل کے اڈوانی نے اپنے عروج کے دور میں  لیڈر شپ کی دوسری صف تیار کرنے کا کام بھی کیا تھا جس کا فائدہ بھگوا پارٹی کو کئی ریاستوں میں اور پھر مرکز میں  بلاشرکت غیرے اقتدار کی صورت میں ملا ۔ اٹل۔ اڈوانی کے دور میں پرمود مہاجن ، نتن گڈکری ، شیو راج سنگھ چوہان ، رمن سنگھ ، وسندھرا راجے سندھیا ، بی ایس یدی یورپا ،ارون جیٹلی ، سشما سوراج  اور خود نریند مودی کو بڑے رول کیلئے تیار کیا گیالیکن اب جو بی جے پی ہے وہ لیڈر شپ کی دوسری صف تیار کرنے میں یقین نہیں رکھتی ہے بلکہ اس لیڈر شپ کی کوشش یہی ہے کہ تمام اقتدار سمٹ کر ۲؍ ہاتھوں میں منتقل ہو جائے۔ بہر حال شیو راج سنگھ چوہان کو حاشیے پر ڈالنے کی ایک وجہ تویہی نظر آتی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پارٹی اب انہیں ریاست سے نکال کر مرکز میں لانا چاہتی ہے لیکن اس کے لئے مشکل یہ ہے کہ ریاستی سطح پر پارٹی کے پاس شیو راج کے علاوہ فی الحال کوئی متبادل نہیں ہے۔یہاں کانگریس کی حکمت عملی کی بھی داد دی جانی چاہئے کہ اس نے حکومت گرادئیے جانے کے باوجود نچلا بیٹھنا منظور نہیں کیا بلکہ گزشتہ ۴؍ سال سے کانگریس طاقتور اپوزیشن کا کردار نبھارہی ہے اور ہر اس موضوع پر پارٹی نے آواز بلند کی ہے جو عوام سے جڑا ہوا ہے۔اس کے علاوہ پارٹی نے ریاست کے ہر خطے کے مطابق اپنی حکمت عملی تیار کی ہے اور وہ قومی موضوعات کے بجائے مقامی موضوعات پر الیکشن لڑ رہی ہے جس سے بی جے  پی کے دانتوں تلے پسینے آرہے ہیں۔
 راجستھان کے معاملے میں بھی پارٹی مدھیہ پردیش والا تجربہ دہرارہی ہے۔ یہاں پر بھی وسندھرا راجے کو نظر انداز کرکے کچھ مرکزی وزراء اور اراکین پارلیمان کو میدان میں اتارا جارہا ہے لیکن یہاں پارٹی کیلئے مشکل خود وسندھرا راجے ہیں۔ وہ مسلسل بغاوتی تیور دکھارہی ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کی انتخابی مہم وہ زور نہیں پکڑ پارہی ہے جس کی پارٹی کو امید تھی ۔ وسندھرا راجے ویسے بھی پارٹی لائن کے مطابق ہر کام کرنے کے لئے نہیں جانی جاتی ہیں۔ وہ چوہان کی طرح نرم مزاج لیڈر بھی نہیں ہیں کہ اس طرح سے حاشئے پر ڈالنے کی کوشش اتنی آسانی سے برداشت کرلیں۔ اگر راجستھان کے انتخابی منظر نامے پر اس پورے پس منظر کے ساتھ نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ راجستھان میں بھی بی جے پی کے پاس وسندھرا کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ اگر پارٹی انہیں نظر انداز کرکے آگے بڑھتی ہے تو اس کیلئے اشوک گہلوت کا مقابلہ کرنا تقریباً نا ممکن ہو جائے گا۔

اگر وسندھرا کو شامل کیا جاتا ہے تو بی جے پی کسی حد تک مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے گی لیکن وسندھرا وزارت اعلیٰ کے امیدوار سے کم پر راضی نہیں ہو ں گی۔ راجستھان میں بی جے پی  کے لئے  اس صورتحال پر’سانپ اور چھچھوندر ‘ والی مثال صادق آتی ہے کہ نہ اگلتے بن رہا ہے اور نہ نگلنے میں چین مل رہا ہے۔ 
 اوپر ہم نے چھتیس گڑھ کا بھی ذکر کیا تھا۔ یہاں پر بھی پارٹی کے پاس رمن سنگھ جیسا تجربہ کار سیاستداںہے جنہوں نے لگاتار ۱۵؍ سال تک چھتیس گڑھ میں حکومت چلائی اور اس دوران ان کی سرکار کو کبھی کوئی بڑی پریشانی نہیں ہوئی لیکن اب کانگریس کے بھوپیش بگھیل کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد یہ محسوس ہو رہا ہے کہ رمن سنگھ کا اثر بھی ووٹروں  کے درمیان ختم ہو گیا ہے۔ یہاں پر بی جے پی کی حکمت عملی یہی بتارہی ہے کہ وہ راجستھان اور مدھیہ پردیش کی طرح چھتیس گڑھ میں بھی بغیر چہرہ کے اترنا چاہتی ہے لیکن تمام تجزیہ نگار یہ مان رہے ہیں کہ بی جے پی نے اس ریاست میں پہلے ہی شکست تسلیم کرلی ہےکیوں کہ فی الحال اس کے پاس بھوپیش بھگیل کی حکمت عملی اور ترقی کی سیاست کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ پارٹی کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ رمن سنگھ بھی یہاں اس کی نیّا پار نہیں لگاسکیں گے ۔ اسی لئے یہاں پر بی جے پی  اس حکمت عملی پر کام کررہی ہے کہ نتائج میں اس کے پاس خاطر خواہ سیٹیں آجائیں ،  بس اس کاصفایا نہ ہو ۔ ان دو ریاستوں کے علاوہ تلنگانہ اور میزورم میں بھی انتخابات ہیںلیکن ان دونوں ہی ریاستوں میں بی جے پی کی کوئی خاص سیاسی حیثیت نہیں ہے۔ تلنگانہ میں براہ راست مقابلہ بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان ہے۔ یہاں بی جے پی کی کوشش اپنا وجود بچائے رکھنے کی ہے کیوں کہ اس کے پاس یہاں کی اسمبلی میں صرف ۳؍ ایم ایل اے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK