Inquilab Logo Happiest Places to Work

پلاسٹک بَین کیا اب کامیاب ہوگا؟

Updated: March 04, 2020, 9:03 AM IST | Editorial

ممبئی میں پلاسٹک ایک بار پھر بَین ہونے جارہا ہے۔ بی ایم سی نے یکم مارچ سے یہ تحریک شروع کردی ہے۔ ممبئی کے تمام ۲۴؍ وارڈوں میں ’’اینٹی پلاسٹک اسکواڈ‘‘ تشکیل دے دیئے گئے ہیں۔ بی ایم سی کا دعویٰ ہے، جسے عزم بھی کہا جاسکتا ہے، کہ یکم مئی ۲۰۲۰ء تک یہ شہر جسے ممبئی کے نام سے شہرت و مقبولیت حاصل ہے، ’’پلاسٹک مُکت‘‘ ہوجائیگا۔اگر ایسا ہوا تو اسے بی ایم سی کا بڑا کارنامہ قرار دیا جائیگا مگر اس طرز عمل کا کیا کیا جائے کہ ہم ہی پابندی لگاتے ہیں اور پھر ہم ہی پابندی کی خلاف ورزی سے آنکھیں چراتے ہیں۔

پلاسٹک بَین کیا اب کامیاب ہوگا؟ ۔ تصویر : آئی این این
پلاسٹک بَین کیا اب کامیاب ہوگا؟ ۔ تصویر : آئی این این

 ممبئی میں پلاسٹک ایک بار پھر بَین ہونے جارہا ہے۔ بی ایم سی نے یکم مارچ سے یہ تحریک شروع کردی ہے۔ ممبئی کے تمام ۲۴؍ وارڈوں میں ’’اینٹی پلاسٹک اسکواڈ‘‘ تشکیل دے دیئے گئے ہیں۔ بی ایم سی کا دعویٰ ہے، جسے عزم بھی کہا جاسکتا ہے، کہ یکم مئی ۲۰۲۰ء تک یہ شہر جسے ممبئی کے نام سے شہرت و مقبولیت حاصل ہے، ’’پلاسٹک مُکت‘‘ ہوجائیگا۔اگر ایسا ہوا تو اسے بی ایم سی کا بڑا کارنامہ قرار دیا جائیگا مگر اس طرز عمل کا کیا کیا جائے کہ ہم ہی پابندی لگاتے ہیں اور پھر ہم ہی پابندی کی خلاف ورزی سے آنکھیں چراتے ہیں۔ یہ بات اسلئے کہی جارہی ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پتلے پلاسٹک یا ایک بار استعمال کئے جانے والی پلاسٹک اشیاء پر پابندی لگائی گئی یا اُس کے نفاذ کو یقینی بنانے کا عزم کیا گیا ہو۔ اس سے قبل جب جب بھی ممبئی کو پلاسٹک فری کرنے کا تہیہ کیا گیا، چند روز تو کافی ہلچل دکھائی دی مگر اس کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہوگیا۔ اس کی وجہ ہے:
 صارفین کے اپنے مسائل ہیں (جو پلاسٹک کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اُسے چھوڑنا اب اُن کے اختیار میں نہیں رہا)، دکانداروں کے اپنے مسائل ہیں (جن کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی تھیلیاں نہ رکھیں تو گاہک واپس چلے جاتے ہیں)، پلاسٹک مینوفیکچر کرنے والوں کے اپنے مسائل ہیں (جو کروڑوں کے کاروبار کو چھوڑ کر کسی اور کاروبارسے وابستہ ہونے کی ہمت نہیں کرپاتے) اور پلاسٹک بَین کو نافذ کرنے والے بی ایم سی عملے کے اپنے مسائل ہیں (جن سے آپ بخوبی واقف ہیں)۔ انہیں تہ در تہ مسائل کی وجہ سے بَین کو بَین کردیا جاتا ہے، پلاسٹک کا چلن باقی رہتا ہے۔ یہی ہے اب تک کی المناک داستان حالانکہ پلاسٹک کے نقصان سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ چونکہ واقفیت بیداری اور حساسیت میں تبدیل نہیں ہوتی اسلئے پلاسٹک اپنی راہ بنالیتا ہے، بعد میں بھلے ہی شہریوں کی راہ روک دے، گٹروں میں پھنس جائے اور گندے پانی کی نکاسی میں رُکاوٹ بن جائے، کوڑا کرکٹ میں پڑا سڑتا رہے یا کوڑا کرکٹ کے ساتھ جلا دیا جائے اور ماحول کو زہرناک بناتا رہے اور شہری طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجائیں۔ 
 جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ صرف ۹؍ فیصد پلاسٹک ری سائیکل ہوتا ہے، ۱۲؍ فیصد جلا دیا جاتا ہے اور ۷۹؍ فیصد یا تو زمین کی بھرنی میں استعمال ہوتا ہے، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں پڑا رہتا ہے یا جہاں بھی پھینک دیا جائے اور صفائی نہ ہو وہاں ڈیرا ڈالے رہتا ہے کہ ’’بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، کوئی ہمیں اُٹھائے کیوں؟‘‘ 
 بات صرف ممبئی کی نہیں، ملک کی ۲۵؍ ریاستوں میں پلاسٹک پر پابندی ہے مگر کوئی ایک ریاست بھی اس سے مکمل طور پر مُکت ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ دیگر ملکوں کا بھی یہی حال ہے (اس سے یہ ترغیب نہیں لینی چاہئے کہ جب اچھے اچھے طرم خاں ممالک نہیں سدھر پائے تو ہم کیسے سدھر جائیں)، صرف اٹلی، بنگلہ دیش اور روانڈا پلاسٹک فری ہونے کا دعویٰ کریں تو اُنہیں وہ دعویٰ زیب بھی دے گا۔لحیم شحیم ٹرمپ کے ملک امریکہ کا یہ حال ہے کہ پچاس میں سے صرف دو ریاستیں سنگل یوز پلاسٹک پر قابو پاسکی ہیں، ہوائی اور کیلی فورنیا۔
 ۱۳؍ جون ۲۰۱۸ء کو جب مہاراشٹر کی سابقہ حکومت نے پلاسٹک پر پابندی عائد کی تھی تب پلاسٹک مینوفیکچرنگ کمپنیوں نے کافی مزاحمت کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ۱۵؍ ہزار کروڑ کی اس انڈسٹری سے ۳؍ لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ اگر مکمل پابندی لگی تو انڈسٹری کا ایک ایک ملازم سڑک پر آجائیگا۔ اس مسئلہ کو مسترد نہیں کیا جاسکتا جب تک ان مالکان اور کارکنان کی باز آبادکاری نہ ہو۔ اسی طرح پلاسٹک بین کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا جب تک صارفین میں بیداری نہ لائی جائے اور ذمہ داری کا احساس نہ پیدا کیا جائے۔ کاش ہم سمجھ سکیں کہ پلاسٹک ایسی سزا ہے جسے ہم بھی جھیلتے ہیں اور آنے والی نسلوں کی جانب بڑھاتے بھی رہتے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK