Inquilab Logo

کیا اگنی پتھ اسکیم کا حشرزرعی قوانین جیسا ہوگا؟

Updated: June 23, 2022, 10:58 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

بیروزگاری ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ اگنی پتھ اسکیم کا ایک مقصد ریٹائرڈ فوجیوں پر پنشن اور دیگر سہولتوں پر ہونے والے اخراجات میں کمی بتایا گیا ہے لیکن اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس اسکیم سے بیروزگاری میں کمی آئے گی تواسے اس بھرم میں نہیں رہنا چاہئے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

مودی نے ۲۰۱۴ء کا الیکشن جیتنے اور وزیراعظم بننے کے لئے جو وعدے کئے ان میں ایک بڑا وعدہ سالانہ ۲؍ کروڑملازمتوں کی فراہمی کا تھا۔ اگر اس پرنیک نیتی سے عمل کیاجاتا تو اب تک ۱۶؍ کروڑ نوجوان ملازمت پر لگ چکے ہوتے اور بیروزگاری کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوجاتا۔ بدقسمتی سے یہ وعدہ بھی مودی کے دوسرے وعدوں کی طرح جھوٹا یعنی انتخابی جملہ ثابت ہوا کیونکہ مقصد عوام کو بیوقوف بناکرالیکشن جیتنا تھا۔ بی جے پی لیڈروں کے بارے  میں یہ تصور عام ہے کہ اقتدار پر بنے رہنے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے  ہمیشہ انتخابی موڈ میں رہتے ہیں۔ ہونا بھی چاہئے کیونکہ ہندوستان میں ایسا کوئی سال نہیں جاتا جس میں الیکشن نہ ہوتے ہوں۔ اس لئے لمبے چوڑے وعدے کرنا سیاست دانوں کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ بی جے پی لیڈر اس میں طاق واقع ہوئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی پھلجھڑیاں جلنے سے پہلے ہی  پُھس ہوجاتی ہیں۔ امسال واگلے سال کئی ریا ستوں اور ۲۰۲۴ء میں عام انتخابات ہونے والے ہیں جس کی تیاری ان لوگوں نے ابھی سے شروع کردی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے دوبڑے اعلان کرکے انتخابی ایجنڈا طے کرنے کی کوشش کی   جو ناکام ہوتی نظرآتی ہے۔ حکومت کو ان سے جو توقعات  وابستہ تھیں پوری  نہیںہوئیں بلکہ دوسرے اعلان پر لینے کے  دینے  پڑگئے۔
 حکومت کا پہلا اعلان یہ تھا کہ وہ اگلے اٹھارہ مہینوں میں سرکاری محکموں میں دس لاکھ نوکریاں پیدا کرے گی ۔ یہ پیشکش ، ۲۰۱۴ء کی دوکروڑملازمت کے مقابلے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ اس لئے کسی نے اس  پر گرمجوشی کا اظہار کیا نہ سنجیدگی سے  لیا۔ اس کی دووجہیں ہیں۔ ایک، حکومت نے اس کے لئے کوئی روڈ میپ تیارنہیں کیا۔ دو، وعدہ وفائی کے معاملے میں مودی کے سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کوئی ان پر بھروسہ کرنے پر آمادہ نہیں۔  یہ ملک کے سب سے اعلیٰ منصب پر فائز اس شخص کا حال ہے جسے اس کے اندھ بھکتوں نے ’ مودی ہے تو ممکن ہے‘ کا تمغہ عطاکیا ہے۔ 
 حکومت کا دوسرا اعلان اگنی پتھ اسکیم سے متعلق تھا جس میں مسلح افواج میں بھرتی کے طریقۂ کار کو نیا رنگ روپ دے کریہ  واضح کیا گیا کہ نئی اسکیم کے تحت فوج میں بھرتی مستقل بنیادپر نہیں، کنٹریکٹ کی بنیاد پر ہوگی۔ ملازمت کی میعاد صرف چار سال ہوگی جس کے بعد فوجیوں کو پنشن ، گریجویٹی اور دیگر سہولتیں دیئے بغیر تقریباً ۱۲؍ لاکھ روپے کی رقم اور اگنی ویر کا خطاب دے کر سبکدوش کر دیا جائے گا اور سرکاری نوکریوں میں انہیں ترجیح دی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں انہیں پولیس ، سیکوریٹی گارڈ یا چوکیدار کی حیثیت سے کام کرنا ہوگا۔ ہماری دانست میں ملک اور سرحدوں کی نگرانی اور حفاظت کرنے والے ایک فوجی کی اس سے بڑی توہین اورکوئی نہیں ہوسکتی۔ خود ہی سوچئے اس شخص کی حالت کیا ہوگی جس نے سخت اورکڑی ٹریننگ کے بعد فوج میں نوکری حاصل کی لیکن  یہ سوچ کر پریشان رہے کہ چار سا ل بعداسے نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ کیا ایسا شخص اپنے فرائض کے ساتھ انصاف کرسکے گا؟ اس فوج کا تصور کیجئے جس میں  فوجی تو ہوں گے لیکن ان کا کوئی رینک ہوگا نہ ترقی کے مواقع، جبکہ چار سال بعد انہیں ’’استعمال کرو اور پھینک دو ‘‘کی طرح غیر یقینی مستقبل  سے جوجھنے کے لئے چھوڑ دیا جائے گا۔ مستقل ملازمت والا ایک فوجی ہمیشہ فوجی رہتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس کے مرتبے، عزت اور توقیر میں کوئی کمی نہیں آ تی ہے لیکن ایک چار سالہ عارضی فوجی ، سبکدوشی کے بعد فوجی نہیں رہے گا بلکہ نوکری کا متلاشی ایک ایسا انسان ہوگا جسے اس کے اوراس کے  خاندان کے مستقبل کی فکر کھائے جائے گی ۔ ہمیں اس پر بھی حیر ت ہے کہ ان عارضی فوجیوں میں سے صرف ۲۵؍فیصد فوجیوں کو ان کی لیاقت وقابلیت کے لحاظ سے مستقل ملازمت دی جائے گی۔ کیا یہ فوجیوں کے درمیان تفریق وامتیاز کی علامت نہیں؟ اگنی پتھ اسکیم اس لئے بھی عجیب وغریب ہے کہ حکومت ملازمت کے تحفظ کو یقینی بنائے بغیر فوجیوں سے ملک کیلئے  بڑی سے بڑی قربانی کی توقع رکھتی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسکیم میں اُن عارضی فوجیوں کیلئے کیا اہتمام کیا ہے جو دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوجائیں ؟ سچ پوچھئے تویہ اسکیم کسی بھی زاویئے سے سود مندنظر نہیں آتی ہے۔ اگنی ویروں کی اصل آزمائش ریٹائرمنٹ کے بعد شروع ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اسکیم کے اعلان کے بعد فوج میں ملازمت کے خواہاں نوجوان بپھر اٹھے۔ جن شہروں میں  بڑے پیمانے پرتوڑ پھوڑ اور آتشزنی کے واقعات پیش آئے وہ نوجوانوں میں پھیلی مایوسی اور برہمی کا غماز تھے۔
 بیروزگاری ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ اگنی پتھ اسکیم کا ایک مقصد ریٹائرڈ فوجیوں پر پنشن اور دیگر سہولتوں پر ہونے والے اخراجات میں کمی بتایا گیا ہے لیکن اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس اسکیم سے بیروزگاری میں کمی آئے گی تواسے اس بھرم میں نہیں رہنا چاہئے کیونکہ اس طرح کے اقدامات سے بیروزگاری میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوگا۔ گزشتہ دس برسوں میں اور بالخصوص مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے عاجلانہ فیصلوں اور پھر کووڈ اور لاک ڈاؤن نے جو ستم ڈھایا ، ان سے ملک کی معیشت ومعاش پرتباہ کن اثرپڑا، اس سے سرمایہ داروں کے علاوہ ملک کا ہر طبقہ متاثر ہوا۔ ملازمتیں چھن گئیں، غریبوں اور مزدوروں کے کھانے پینے اورجینے کے لالے پڑگئے۔ کووڈ سے مؤثر طورپر نمٹنے میں ناکامی نے لاکھوں کی جانیں لیں۔ ہزاروں خاندانوں پر  سے  ان کی کفالت کرنے والوں کا سایہ اٹھ گیا۔ اسی طرح زرعی قوانین کے خلاف ہونے والے آندولن نے ۷۰۰؍ کسانوں کی جانیں لیں ان سب کے باوجود مودی کی پیشانی پر شکن نہیں آئی۔ وہ زرعی قوانین کو کسانوں کے حق میں بتانے اور انہیں واپس نہ لینے پر اڑے  رہے۔ یہ اور بات ہے کہ کسانوں کے عزم مصمم کے آگے انہیں جھکنا پڑا اور قوانین کو واپس لینا پڑا۔ بعید نہیں کہ اگنی پتھ اسکیم  کا بھی ، حکومت اور سربراہان فوج کے سخت رویے کے باوجود،یہی حشر ہو بشرطیکہ نوجوان اور اپوزیشن پارٹیاںاسے واپس لینے کے مطالبے پر قائم رہیں۔ ایک ایسے وقت جب ملک ایک بےنظیر بیروزگار ی کے بحران سے گزر رہا ہے حکومت کو چاہئے کہ نوجوانوں کے مطالبات پر ہمدردی سے غور کرے۔ مودی کے صرف یہ کہہ دینے سے کام نہیں چلے گا کہ کچھ فیصلے بظاہر نامناسب معلوم ہوتے ہیں لیکن ملک کی تعمیر وترقی کیلئے  ضروری ہوتے ہیں ۔ نوٹ بندی کے موقع پر بھی انہوںنے  اسی طرح کا  دعویٰ کیا تھا۔ کیا ہوا؟ ریزروبینک نے تاخیر سے سہی ان دعووں کی قلعی کھول دی۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK