Inquilab Logo

معاشی مندی جلد ختم ہوگی یا اس کا سایہ دراز ہو گا؟

Updated: November 30, 2020, 10:45 AM IST | Bharat Jhunjhunwala

کئی باتوں کے علاوہ اس اہم سوال کا جواب اس بات پر بھی منحصر ہے کہ کووڈ۔۱۹؍ کی ویکسین کتنی جلدمارکیٹ میں آکر تقسیم ہوگی اور اس وباء سے کتنی جلد گلوخلاصی ہوگی۔

GDP - PIC : INN
جی ڈی پی ۔ تصویر : آئی این این

جی ڈی پی میں اضافے کی شرح ہمارے ملک میں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (اپریل تا جون) کے دوران ہی منفی رُخ پر چلی گئی تھی۔ اسے منفی ۲۴؍ شمار کیا گیا تھا۔ دوسری سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے بارے میں گمان تھا کہ یہ منفی ۸؍ سے منفی ۱۰؍ کے درمیان ہوگی۔کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ 
 کسی ایک مہینے میں،جی ڈی پی میں اضافے کی شرح منفی ہو جائے تو اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی مگر پوری سہ ماہی میں یہ منفی ہی رہے تب کہا جاتا ہے کہ معیشت مندی کا شکار ہے جسے انگریزی میں ’’رسیشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر دو سہ ماہیوں کے دوران بھی یہی کیفیت رہے تو اسے ’’ٹیکنیکل رسیشن‘‘ کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ عالمی معاشی پیمانوں کے مطابق معیشت کا حجم کم ہواہے۔ اس کے بعد کے مرحلہ میں ’’منفی اضافہ‘‘ (نگیٹیو گروتھ) کئی سال جاری رہ سکتا ہے۔ اس کی بہترین مثال ریاستہائے متحدہ امریکہ سے دی جاسکتی ہے جہاں یہ کیفیت یعنی نگیٹیو گروتھ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۸ء کے دوران ۹؍ میں سے ۷؍ سال برقرار رہی۔ جب منفی اضافہ کئی سال تک جاری رہتا ہے تو معیشت کے اس دور کو ’’ڈپریشن‘‘ (اردو میں کساد بازاری) کہا جاتا ہے۔ 
 بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک نے   موجودہ صورتحال کا الگ الگ یعنی اپنے اپنے طور پر تجزیہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے موجودہ سست رفتاری کو ٹیکنیکل رسیشن کا نام دیا ہے جس میں یہ اُمید پوشیدہ ہوتی ہے کہ منفی گروتھ کا یہ دور گزر جائیگا اور اس کے بعد مثبت گروتھ ممکن ہوگی۔ عالمی بینک کی رائے اس سے مختلف ہے۔ اس نے کہا ہے کہ عالمی معیشت کساد بازاری (ڈپریشن) کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اس لئے غالب امکان اس بات کا ہے کہ منفی گروتھ کا یہ مرحلہ کئی سال تک جاری رہے۔ 
  مطمح نظر دونوں کا الگ الگ ہے مگر دونوں کو یہ اعتراف ہے کہ عالمی معیشت کا حجم پہلی دو سہ ماہیوں کے دوران گھٹ گیا ہے۔  دونوں اداروں کے تجزیئے میں فرق یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو عالمی معیشت کے جلد راہ راست پر آنے کی اُمید ہے جبکہ عالمی بینک کو ایسی کوئی امید نہیں ہے۔ عالمی بینک کے خیال میں موجودہ سست رفتاری اور منفی گروتھ کا سلسلہ کئی سال جاری رہے گا، جیساکہ بیان کیا گیا کہ ۱۹۳۰ء کی دہائی میں امریکہ میں یہی ہوا تھا۔ان میںسے کون سا ادارہ حالات کا بہتر تجزیہ کرنے میں کامیاب ہے اس کا اندازہ ہمیں آئندہ برسوں ہی میں ہوسکے گا۔ 
 اس دوران پوری دُنیا کو یہ اُمید اور انتظار ہے کہ کووڈ۔۱۹؍ کا ٹیکہ جلد بازار میں آجائیگا۔ اب تک کئی کمپنیاں دعویٰ کرچکی ہیں کہ ان کی تیار کردہ ویکسین ۹۰؍ فیصد کامیاب ہے۔ انہیں یہ امید بھی ہے کہ جلد ہی ان کی ویکسین عالمی سطح پر دستیاب ہوگی۔ آئی ایم ایف کی خوش گمانی میں، کہ منفی گروتھ کا یہ دور جلد ختم ہوجائیگا، یہ امید پوشیدہ ہے کہ ویکسین کی کامیابی اور ہر جگہ دستیابی آئندہ چند مہینوں میں ممکن ہوگی۔ لیکن،یہ اُمید کتنی مضبوط بنیادوں پر ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ کووڈ۔۱۹؍ ایسا وائرس ہے جو بہت تیزی سے نئی شکل میں ڈھلتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جو ویکسین تیار ہو وہ وائرس کی بدلی ہوئی نئی شکل کیلئے غیر مؤثر ثابت ہو۔ ایسی صورت میں وباء نئے سرے سے عوامی زندگی اور معیشت کو ہلکان کرے گی۔
  اس دوران یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ ایک بار کووڈ۔۱۹؍ سے متاثر ہوئے ان کی سابقہ صحت بحال نہیں ہوئی۔ کچھ کو کمزوری لاحق ہوئی جو جانے کا نام ہی نہیں لیتی تو کچھ کو دردِ سر اور سانس لینے میں دشواری کی شکایت اب بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کا معیشت میں جو حصہ تھا وہ طویل عرصہ تک متاثر رہے گا جس کا لازمی اثر معاشی ترقی کی شرح (گروتھ ریٹ) پر پڑے گا۔ اگر یہ سب نہ ہوا بلکہ ویکسین کارگر ثابت ہوئی تب بھی اس کا دُنیا کی ۷؍ ارب کی آبادی تک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس میں کافی وقت لگ جائیگا۔ چنانچہ اس تناظر میں کوئی پیش گوئی ممکن نہیں ہے کہ آیا موجودہ رسیشن ٹیکنیکل رہے گا جیسا کہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے یا وہ باقاعدہ ڈپریشن میں تبدیل ہوگا جیسا کہ عالمی بینک کی رائے ہے۔ 
 آئی ایم ایف اور عالمی بینک دونوں کے درمیان مشترک خیال یہ بھی ہے کہ تقریباً تمام ملکوں نے قرض لے کر اور اپنی معیشت کو جاری و ساری رکھنے کی شعوری کوششوں کے ذریعہ مالیاتی نظام کو منہدم ہونے سے بچالیا ہے۔ یہ ایک اچھی اور خوشگوار پیش رفت ہے۔ لیکن، دونوں ہی اداروں نے حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ قرض کی رقومات کا استعمال عوام کو ہنرمند بنانے اور ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے کیلئے کریں تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو۔ اس کی مثال اس طالب علم جیسی ہے جو کسی بینک سے قرض لے اور حاصل شدہ رقم کو کسی نئے کورس کو سیکھنے پر خرچ کرے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ آئندہ سال داخلہ امتحان کامیاب کرسکے گا۔ اس کے برخلاف اگر وہی طالب علم تعلیمی قرض لے کر تمام رقم سیر سپاٹے پر خرچ کردے تو وہ حاصل تو کچھ نہیں کرپائے گا البتہ قرض کا بوجھ سر پر لئے گھومتا رہے گا۔ 
 کیا ہماری حکومت نے مذکورہ مشورہ قبول کیا؟ حال ہی میں فرید آباد کے ایک تاجر نے مجھ سے کہا کہ اس نے حالیہ تہواروں میں بند ڈبوں میں مٹھائی کا اچھا کاروبار کیا۔ جب مَیں نے اس سے دریافت کیا کہ معیشت لڑکھڑائی ہوئی ہے اور عوام کی انکم متاثر ہے، ایسے میں اچھا کاروبار کیونکر ممکن ہوسکا تو اس کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کو خاطر خواہ رقمیں ملی تھیں اور آمدنی کے اس اضافے نے اُنہیں جی بھر کے خریداری کی تحریک دی۔ 
 ثابت ہوا کہ ہماری حکومت نے وبائی حالات میں جو قرض لیا  اس سے صارفین کی قوت خرید بڑھی۔ بہ الفاظ دیگر یہ رقم خرچ ہوگئی جبکہ اس کے ذریعہ سرمایہ کاری کی جانی چاہئے تھی جس کا فائدہ آئندہ وقت میں ملتا۔ ہمارے ملک کیلئے یہ کوئی فال نیک نہیں ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK