دنیا آرام نہیں اعمال کی جگہ ہے۔ اِس دنیا میں موسموں کا تبدیل ہونا بھی ایک آزمائش ہے، اُس دنیا میں اہلِ جنت کا حال یہ ہوگا: وہ ان باغوں میں آرام دہ اونچی نشستوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جہاں نہ دھوپ کی تپش دیکھیں گے اور نہ کڑا کے کی سردی۔
EPAPER
Updated: December 01, 2023, 12:28 PM IST | Mufti Nadeem Ahmed Ansari | Mumbai
دنیا آرام نہیں اعمال کی جگہ ہے۔ اِس دنیا میں موسموں کا تبدیل ہونا بھی ایک آزمائش ہے، اُس دنیا میں اہلِ جنت کا حال یہ ہوگا: وہ ان باغوں میں آرام دہ اونچی نشستوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جہاں نہ دھوپ کی تپش دیکھیں گے اور نہ کڑا کے کی سردی۔
دنیا آرام نہیں اعمال کی جگہ ہے۔ اِس دنیا میں موسموں کا تبدیل ہونا بھی ایک آزمائش ہے، اُس دنیا میں اہلِ جنت کا حال یہ ہوگا: وہ ان باغوں میں آرام دہ اونچی نشستوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جہاں نہ دھوپ کی تپش دیکھیں گے اور نہ کڑا کے کی سردی۔ (الدہر)
جب تیز ہوا چلے: حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ ہوا اللہ کا ایک حکم ہے، رحمت بھی لے کر آتی ہے اور عذاب بھی، جب تم دیکھو کہ تیز ہوا چل رہی ہے تو ہوا کو برا مت کہو، بلکہ اللہ سے اس کی خیر مانگو اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ (ابوداؤد)
سردی اور گرمی کا سبب: حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، سرکار دوعالم نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب گرمی تیز ہوجائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیوں کہ گرمی کی تیزی دوزخ کی آگ کی بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ (بخاری)
دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب ! (آگ کی شدت کی وجہ سے) میرے بعض حصے نے بعض حصے کو کھالیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس سردی میں اور ایک سانس گرمی میں ۔ اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم محسوس کرتے ہو، وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔(بخاری) یعنی گرمی کی شدت کا ظاہری سبب تو آفتاب ہے اور اس کو ہر شخص جانتا ہے اور کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا، لیکن عالمِ باطن اور عالمِ غیب میں اس کا تعلق جہنم کی آگ سے بھی ہے اور یہ ان حقائق میں سے ہے جو انبیائے کرام ؑ ہی کے ذریعے معلوم ہوسکتے ہیں ۔ (معارف الحدیث )
سردیوں کی برکت: حضرت ابوسعید خدریؓسے مروی ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: سردیوں کا موسم مومن کے لئے موسمِ بہار ہے۔(مسند احمد) حضرت معاذؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابن آدم کے دل سردیوں میں نرم ہوجاتے ہیں ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور مٹی سردی میں نرم پڑجاتی ہے۔(فیض القدیر)
سردیوں میں وضو : حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ کام نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند کرتا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپ ﷺ نے فرمایا: وضو کو تکلیفوں (سردیوں کے موسم) میں پورا کرنا، مسجدوں کی طرف بار بار جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، یہ رباط (یعنی سرحدپر حفاظت کرنے جیسا) ہے۔ (ترمذی)
حضرت علی ؓسے روایت ہے، نبیؐ کریم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے سخت سردیوں میں اچھی طرح وضو کیا، اس کیلئے اجر کے دو حصے ہیں۔
(معجمِ اوسط طبرانی)
سخت سردی اور مسجد کی جماعت: حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا: لوگو! اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھ لو۔ پھر فرمایا: نبی کریم ﷺ سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگ اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لیں ۔(بخاری)
سردیوں میں تہجد اور روزہ: حضرت عامر بن مسعود سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ٹھنڈی نعمت سردیوں میں روزہ رکھنا ہے۔ (ترمذی) حضرت ابوسعید خدریؓبیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سردیاں مومن کا سیزن ہیں ، اس میں دن چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ روزہ رکھتا ہے اور رات لمبی ہوتی ہے تو وہ قیام کرتا ہے۔(سنن کبریٰ بیہقی)
سردیوں میں آگ بجھا کر سونا: بعض لوگ سردی سے بچنے کے لئے گھروں میں آگ جلا کر سو جاتے ہیں ، اس سے احتراز کرنا چاہئے۔ سالم اپنے والد سے، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺنے فرمایا : جب تم سونے لگو تو اپنے گھروں میں آگ نہ رہنے دو۔ (بخاری) حضرت ابوموسیؓنے بیان کیا کہ ایک گھر مدینے میں گھر والوں سمیت رات کو جل گیا، ان لوگوں کا واقعہ آپﷺ سے بیان کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ آگ تمہاری دشمن ہے، اس لئے جب تم سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔(بخاری)
سردیوں کے موسم میں صدقہ و خیرات: سردی کے موسم میں بہت سے محتاجوں کو ہماری ضرورت ہوتی ہے، اس مشکل وقت میں ہمیں ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ حضرت ابوسعیدؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان کسی ننگے کو کپڑا پہنائے گا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کا سبز لباس پہنائے گا، جو مسلمان کسی بھوکے کو کھانا کھلائےگا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے پھل کھلائے گا، جو مسلمان کسی پیاسے کو پانی پلائےگا اللہ تعالیٰ اسے جنت کی شراب پلائے گا۔ (ابوداؤد)
حضرت حصینؓ کہتے ہیں کہ ایک سائل نے حضرت ابن عباسؓ سے سوال کیا تو انہوں نے اس سے پوچھا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ؟ اس نے عرض کیا: ہاں ! آپؓنے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا: ہاں ! آپؓنے فرمایا: کیا تم رمضان کے روزے رکھتے ہو ؟ اس نے کہا: ہاں ! پھر فرمایا: تم نے مجھ سے کچھ مانگا ہے اور سائل کا بھی حق ہے، لہٰذا مجھ پر فرض ہے کہ میں تمہیں کچھ نہ کچھ دوں ، پھر آپ نے اسے کپڑا عطا کیا اور فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کو کپڑا پہنائے وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے جب تک کہ پہننے والے پر اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی باقی رہے۔ (ترمذی)