آپ ؐ کے اخلاق کی وجہ سے ہی خدا کا دین غالب آسکا ۔ آپؐ نے مخالفت، تعصب اور نفرت کا جواب بھی نرمی اور رحمدلی سے دیا۔ طائف کے اس واقعہ کو کس طر ح نظر انداز کیا جا سکتا ہے جب آپؐ نے پتھر برسانے والوں کو دعائیں دیں۔
EPAPER
Updated: September 29, 2023, 11:25 AM IST | Sana Raeen | Mumbai
آپ ؐ کے اخلاق کی وجہ سے ہی خدا کا دین غالب آسکا ۔ آپؐ نے مخالفت، تعصب اور نفرت کا جواب بھی نرمی اور رحمدلی سے دیا۔ طائف کے اس واقعہ کو کس طر ح نظر انداز کیا جا سکتا ہے جب آپؐ نے پتھر برسانے والوں کو دعائیں دیں۔
اللہ رب العزت کا وجود ہر شے کے لئےرحمان و رحیم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہزاروں نعمتوں میں سے سب سے عظیم نعمت ہمارے آخری نبی خیر البشر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں ۔ حضرت محمدؐکے احسانات کو قلمبند کرنا با لکل ایسا ہے جیسے دریا کو کوزے میں بند کر نا۔ قرآن شریف میں ارشاد ربانی ہے: ’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں ۔‘‘ (القلم: ۴) سورۃ کوثر میں بھی خدا نے اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’(اے نبیؐ) ہم نے آپ کوثر عطا کر دیا ۔‘‘(الکوثر: ۱) آپؐ کے مقام کا اندازہ خدا کے اس فرمان سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’ جس نے رسولؐ کا حکم مانا اس نے بے شک اللہ کا حکم مانا۔‘‘ (النساء:۸۰)شان رسول ؐ میں جب غالبؔ نے قلم کو جنبش دی تو وہ بھی دُنیا کی سب سے بڑی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے اور لکھا:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کان ذات پاک مرتبہ دان محمدؐ است
ترجمہ : ’’غالب ہم نے خواجہ (محمدؐ) کی مدح کو خدا پر چھوڑ دیا کہ وہی ذات پاک ہے جو محمد ؐ کے مقام و مر تبہ سے آگاہ ہے۔‘‘
حضرت محمد ﷺ تشریف نہ لاتے تو آج بھی یہ کا ئنات گمراہیوں اور ظلم و استبداد کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی ہوتی۔ حضور ﷺکے دنیا میں تشریف لاتے ہی سارا عالم منور ہوگیا ۔ آپ ؐ کی آمد سے قبل کی تاریخ ِ عرب کی ورق گردانی کریں تو روح کا نپ جائے گی کہ کس قدر جہالت تھی۔ زمین پر بسنے والے خدا کی بندگی کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے انسانوں ، جانوروں اور بتوں کی بندگی میں اس قدر رچ بس گئے تھے کہ شرک جیسا کبیرہ گناہ بھی انہیں عبادت لگتا تھا۔ عرب میں اس وقت سرداری نظام کا رواج تھا، ان سرداروں کے درمیان ایک معمولی سی بد گمانی سے تلواریں نکل جاتیں ، سیکڑوں لوگ نا حق مارے جاتے اور یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہتا۔ انسانوں کی خرید و فروخت عام بات تھی۔ غلاموں پر حد درجہ سختی کی جاتی یہاں تک کہ انہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یہ وہ دور تھا جب سماج حاکم اور محکوم دو طبقوں میں تقسیم ہو چکا تھا، حاکم اس وقت کے خدا بن بیٹھے تھے۔ ظلم اپنی انتہا پر تھا اور شکایت یا انصاف مانگنے کا حق کسی کے پاس نہیں تھا۔ خاندانی نظام کا یہ حال تھا کہ یہاں بھی انسانیت دم توڑ چکی تھی اور محرم نامحرم رشتوں کا احترام بھی نہیں تھا۔ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا۔ دین ابراہیم میں جن چیزوں کو حلال قرار دیا گیا تھا وہ خود سے انہیں اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے۔
لیکن، ہر شب کے بعد ایک روشن صبح بھی تو ہے۔ عرب کی تاریکی بھی ختم ہونی تھی، باطل کا خاتمہ ہونا اور حق کو غالب آنا ہی تھا۔ماہِ ربیع الاول کی اس سہانی گھڑی میں رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ کی آمد سے نہ صرف عرب بلکہ ساری کا ئنات جھوم اٹھی۔ حضرت محمد ﷺکی حیاتِ مبارکہ تمام انسانیت کیلئے اسوۂ حسنہ ہے۔ اللہ نے آپؐ کو رہبر بنا کر بھیجا۔ ہمارے نبی ؐکی آمد سے قبل آپؐ کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہؓ اور دادا حضرت عبدالمطلب پر محمدؐ ؐکے بابرکت ہونے کی نشانیاں واضح ہو چکی تھیں ۔ عرب کے دستور کے مطابق آپؐ کو گود میں لیتے ہی بی بی حلیمہؓ کی قسمت جاگ اٹھی۔ ان کی ادھ مری اونٹنی ہوا سے بات کرنے لگی، گھر میں قدم رکھتے ہی بکری کے سوکھے تھنوں میں دودھ آگیا۔ حضرت حلیمہ معصوم محمد ؐکی ایسی گرویدہ ہوئیں کہ رضاعت کی مدت کے بعد بھی آپؐ کو جدا نہیں کرنا چاہتی تھیں ۔ ہمارے پیارے نبی ؐتین سال تک داعی حلیمہ کے پاس ہی رہے ۔
کم عمری سے ہی آپ ؐ میں عدل و انصاف، حق گوئی، اعجاز گوئی، فصاحت لسانی اور حسن تکلم موجود تھا۔ آپ ؐ برائی سے اس قدر دور تھے کہ کوئی برا لفظ سننا بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔ دور جوانی میں بھی ہمارے نبیؐ جیسی معصومیت کی کوئی مثال نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کے اخلاق دیکھنا ہےتو اس کے ساتھ سفر کیا جائے۔ آپ ؐ نے ہر سفر میں خود سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھا۔ ایسے ہی ایک سفر میں حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ آپؐ کے ہمراہ تھے۔ دورانِ سفر اپنے مشاہدات کی وجہ سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ آپؐ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔
آپ ﷺ کو امین کا لقب دیا گیا کیونکہ آپؐ کی شخصیت میں سچائی، راست بازی، عدل اور پر ہیز گاری تھی۔ یہ آپ کی صداقت ہی تھی جس نے ابوجہل کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ’’ ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے البتہ آپ ؐ جو کچھ لے کر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں۔‘‘
آپؐ کے ہم پر کروڑوں احسانات ہیں اور سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ آپ ﷺ کبھی اپنی امت کی فکر سے غافل نہیں رہے اور یہ فکر آخری امتی تک کی تھی۔ آپ ؐ کے اخلاق کی وجہ سے ہی خدا کا دین غالب آسکا ۔ آپؐ نے مخالفت، تعصب اور نفرت کا جواب مخالفت، تعصب اور نفرت سے نہیں ، نرمی اور رحمدلی سے دیا۔ طائف کے اس واقعہ کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے جب آپؐ نے پتھر برسانے والوں کو دعائیں دیں ۔ جب آپ ؐ نے توحید کی دعوت کیلئےپیدل ہی طائف کا سفر کیا۔ طائف والوں نے آپ ﷺکے ساتھ وہ سلوک کیا جس سے انسانیت شرمسار ہوتی ہے۔ سرکار دو عالم ؐ نے اہل طائف کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی جن کو قبول کرنے کے بجائے آپؐ پر پتھر پھینکے گئے جن سے آپؐ لہولہان ہوگئے۔ اس وقت آپؐ نے اپنی بے بسی کا ذکر خدا سے کیا۔ اسی وقت بارگاہِ الٰہی سے پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر آپؐ اجازت دیں تو پہاڑوں کو ملا دیا جائے (طائف پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے) لیکن قربان جائیے آپ کی اعلیٰ ظرفی کے، کہ آپؐنے طائف والوں کیلئےہدایت کی دعا فرمائی۔آپؐ کی دعا کے صدقہ چند سال میں طائف کے باشندے بھی ایمان لے آئے۔
خدا نے ہمارے نبیؐ کو پوری دنیا کیلئے رہنما بنایا۔ آپؐ نے انسانیت کو انسانیت کا مفہوم سمجھایا، غلاموں ، غریبوں اور یتیموں پرشفقت اور رحم کا معاملہ کیا۔ آپؐ کا اسوۂ حسنہ رہتی دنیا تک نمونہ ہے، جو بھی آپؐ کی پیروی کرے گا راستہ پاجائے گا، نجات پا جائے گا۔