خوشی ہوئی کہ سائبر فراڈ پر طویل خاموشی کے بعد اب سارے معاملات سی بی آئی کے حوالے کئے جا رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: December 12, 2025, 7:16 AM IST | Mumbai
خوشی ہوئی کہ سائبر فراڈ پر طویل خاموشی کے بعد اب سارے معاملات سی بی آئی کے حوالے کئے جا رہے ہیں۔
بدعنوانی اور بے ایمانی عوامی سطح پر ہو یا حکومتی سطح پر اس کا ختم ہونا اور بدعنوانی و بے ایمانی کا ارتکاب کرنے والوں کا کیفر کردار تک پہنچایا جانا ضروری ہے مگر بدعنوانی و بے ایمانی یا کسی اور جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائے جانے کا پورا عمل شفاف اور قانون کے دائرے میں ہونا بھی لازم ہے اس لئے خوشی ہوئی کہ سائبر فراڈ میں ہڑپ کی جانے والی رقوم کے بارے میں خاموشی اور عذر لنگ کے بعد اب سارے معاملات سی بی آئی کے حوالے کئے جارہے ہیں۔ سی بی آئی کو مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ بینک کو پابند کرے کہ جو چیک یا ٹرانسفر اماؤنٹ زور زبردستی سے کسی فرضی اکاؤنٹ میں ڈالے گئے ہیں ان کے روپے بینک ادا کرے۔ یہ کہہ کر کسی کو ٹالا نہیں جاسکتا کہ چیک اس نے دیا یا ٹرانسفر اس نے خود کرایا ہے۔ ٹرانسفر کے بارے میں یہ سوچنا غلط نہیں ہے کہ اکاؤنٹ ہولڈر یا اس کی بیوی بچوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر بھی ٹرانسفر کروایا گیا ہوگا۔ سائبر جرائم کرنے والوں کی طرف سے بہتوں کو نیشنل انٹرسٹ یا قومی مفاد میں کسی سے کچھ نہ کہنے کا جھانسہ دیئے جانے کی بھی خبر ہے۔ اسی دوران یہ بھی خبر آئی ہے کہ دہلی پولیس کی معاشی شاخ نے سونیا گاندھی، راہل گاندھی، سام پترودا اور کچھ دیگر کانگریس لیڈروں اور ان کے ہم نواؤں کے خلاف مزید ایف آئی آر درج کرائی ہے کہ انہوں نےمجرمانہ سازش رچ کر اسوسی ایٹڈ جرنلس پر قبضہ حاصل کیا ہے۔ خبر کے مطابق اسوسی ایٹڈ جرنلس پر ’ینگ انڈین‘ نے قبضہ کیا ہے جس میں گاندھی خاندان کی مبینہ طور پر ۷۶؍ فیصد حصہ داری ہے۔
یہ شکایت انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ نے کی تھی جس کی بنیاد پر ای او ڈبلیو نے معاملہ درج کیا ہے شکایت میں نیشنل ہیرالڈ منی لانڈرنگ معاملے کی جانچ سے متعلق تفصیل بھی پیش کی گئی ہے۔ شکایت سب سے پہلے ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی درخواست پر درج کی گئی تھی۔ ۲۰۰۸ء سے ۲۰۲۴ء تک تفتیش و تحقیق بھی کی جاتی رہی۔ یہ سب انسداد منی لانڈرنگ قانون کے تحت ہوا۔ معاملہ یہ درج ہوا کہ نیشنل ہیرالڈ کی پبلشر کمپنی ’اسوسی ایٹڈ جرنلس لمیٹڈ‘ کی ۲۰۰۰؍ کروڑ کی ملکیت حاصل کرنے کے لئے مجرمانہ سازش رچی گئی جس کے نتیجے میں مذکورہ ملکیت صرف ۵۰؍ لاکھ میں ہی حاصل کر لی گئی۔ سونیا اور راہل کے خلاف اسی سال یعنی اپریل ۲۰۲۵ء میں فرد جرم دائر کی جا چکی ہے جس پر ۱۶؍ دسمبر کو سماعت ہوگی۔ مبینہ طور پر نئی ایف آئی آر میں ای ڈی نے شکایت کی ہے کہ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیان آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے اے جے ایل یعنی نیشنل ہیرالڈ کی پبلشر کمپنی کو ۹۰ء۲۱؍ کروڑ قرض کے طور پر دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ قرض وصول نہیں کیا جاسکتا حالانکہ اے جے ایل کے پاس قیمتی اثاثہ یا ملکیت موجود تھی۔ شکایت میں مبینہ طور پر کہا گیا ہے کہ اے آئی سی سی سے قرض وصول کرنے کا اختیار ینگ انڈین نے صرف ۵۰؍ لاکھ میں خرید لیا اور اس طرح فریب کیا گیا۔ اے جے ایل نے بھی ینگ انڈین کے حق میں قرض کی رقم کو ’ایکوٹی شیئرز‘ میں تبدیل کر دیا اور اس طرح اے جے ایل کے شیئر ہولڈرز کے علاوہ اے آئی سی سی کے پبلک ڈونرس سے بھی مبینہ فراڈ کیا گیا کیونکہ اس طرح قرض وصول کرنے کا حق اے آئی سی سی کے ہاتھ سے نکل گیا۔
ای ڈی کے مطابق یہ پورا معاملہ ۹۸۸؍ کروڑ کا ہے اور یہ منی لانڈرنگ کا معاملہ ہے حالانکہ جس کمپنی کے ذریعہ یہ سب ہوا اس کا رجسٹریشن منافع کمانے والی کمپنی کے طور پر نہیں ہوا تھا۔ ای ڈی کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۱۹ء انتخابات سے پہلے ۱۸۔۲۰۱۷ء میں ینگ انڈین نے ۱۸؍ کروڑ کے عطیات وصول کئے۔ اسی دوران اے جے ایل ۳۸ء۴؍ کروڑ ایڈوانس کرایہ وصول کیا۔ ۱۸۔۲۰۱۷ء میں ۲۹ء۵؍ کروڑ ریوینیو بھی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا جو صحیح ثابت نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں کانگریس اور ایجنسیوں کے بیایات الگ الگ ہیں اور امید ہے کہ قانونی لڑائی دیر تک چلے گی۔ راقم کا موقف یہ ہے کہ اگر واقعی مجرمانہ سازش رچی گئی ہے تو سازش رچنے والوں کو سزا ملنی اور رقم کی وصولی ہونا چاہئے اور اگر سارا معاملہ سیاسی انتقام کا ہے تو اس سلسلے کا ختم ہونا بھی ضروری ہے۔
بات شروع ہوئی تھی سائبر فراڈ سے اور پہنچی نیشنل ہیرالڈ (اور قومی آواز) کی پبلشر کمپنی کے معاملات تک۔ لیکن اس کا مطلب کسی کےجرم کو کم کرنا نہیں بلکہ یہ احساس دلانا ہے کہ جس سے جو رقم اینٹھی گئی ہے وہ اس کو واپس ملے اور رقم اینٹھنے میں اگر حکومت کے کسی شعبے کے لوگ ملوث ہیں تو ان کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اونچی سطح یعنی اقتدار یا اقتدار میں رسوخ رکھنے والے کسی کا حق مارتے ہیں تو حکومت کے کارندے بھی غلط کام کرنے کا حوصلہ پاتے ہیں۔ سائبر فراڈ کرنے والوں نے پولیس، بینک افسران کے علاوہ بڑے عہدیداروں کی بھی مسلسل کردار کشی کی ہے کہ ان کے شامل ہوئے بغیر وہ سب نہیں ہوسکتا تھا جو سائبر فراڈ کرنے والے کرتے رہے ہیں۔ راقم اس قسم کی حرکتوں یا حکومت کے محکموں اور افسروں کو بدنام کئے جانے کے سخت خلاف ہے مگر حکومت کے شعبے اور ادارے بھی تو بیان دیں کہ کسی کی رقم ضائع نہیں ہوگی مگر یہاں تو ہو یہ رہا ہے کہ بڑی بڑی رقوم کے ساتھ کچھ لوگ بھاگ گئے ہیں اور معمولی یا بوڑھے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ چیک آپ نے ہی تو دیا تھا یا ٹرانسفر آپ ہی نے تو کیا تھا۔ یہ نہیں تسلیم کیا جاتا کہ کس کس کو یا اس کے بچوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر روپیہ ٹرانسفر کروایا گیا ہے اور پھر نیشنل انٹرسٹ میں یا خطا کاروں کو گرفتار کرانے میں مدد دینے کے نام پر ان کو ٹھگا گیا ہے۔ نیشنل ہیرالڈ میں اب عدالت فیصلہ کرے گی کہ کس نے خطا کی اور کتنی رقم ہڑپ کی گئی مگر سائبر فراڈ کے معاملے میں تو سیاسی پارٹیوں کے ذمہ داروں کی طرف سے بھی کوئی بیان نہیں دیا جا رہا ہے کہ جن کی رقم ٹھگی گئی ہے وہ کیسے اور جلد از جلد واپس ہو؟ کیا یہ ملی بھگت ہے۔n