Inquilab Logo

ایک کامیاب معاشرے کیلئے تعلیم نسواں ضروری ہے

Updated: September 18, 2020, 10:34 AM IST | Nadeem Alam Hadvi

آج کی دنیا نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ ایک پڑھی لکھی خاتون اس نئے ماحول سے مطابقت پیدا کر سکتی ہے اور اپنا مافی الضمیر آسانی سے دوسرے تک پہنچاسکتی ہے۔

Girl`s Education - PIC : INN
تعلیم نسواں ۔ تصویر : آئی این این

’’تعلیم نسواں‘‘دو الفاظ کا مرکب ہے، تعلیم اور نسواں۔ تعلیم کا مطلب ہے ’’علم حاصل کرنا‘‘۔ نسواں ’’نسا‘‘سے ہے جس کا مطلب ہے عورتیں۔ گویا تعلیم نسواں سے مراد عورتوں کی تعلیم ہے۔ علم اور تعلیم دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے۔
تاریخ مذاہب کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تخلیق فرماکر جنت میں ٹھہرایا۔ حضرت آدمؑ نے تمام نعمتوں کے موجود ہونے کے باوجود تنہائی و کمی محسوس کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت حواؑ کو پیدا فرمایا۔ گویا عورت کا وجود کائنات کی تکمیل کرتا ہے۔ 
عورت اس کائنات کا جمال و شاہکار اور دلکش وجود ہے۔ وہ گردش لیل ونہار کا ایک حسین اور کیف آور نغمہ ہے جس کے دم سے حیات قائم ہے۔ عورت کے بغیر انسانی نسل کا استحکام اور نشوونما ناممکن ہے۔ بقائے حیات و معاشرے کا قیام و استحکام، جسمانی و روحانی آسودگی عورت ہی کے باعث ہے۔ عورت ماں کے روپ میں بے لوث محبت و شفقت و ہمدردی اور ایثار و قربانی کی انمول داستان ہے۔ عورت بیوی کی صورت میں خلوص، وفاداری اور چاہت کا حسین افسانہ ہے۔ عورت بہن کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمت ہے تو بیٹی کے روپ میں خدا کی رحمت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عورت انسانیت کی عزت ہے۔ مذہب اسلام نے عورت کو مرد کے برابر مقام و مرتبہ عطا فرماکر اس کی حیثیت متعین کردی ہے بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اسلام نے عورت کو تحت الثریٰ سے اٹھا کر فوق الثریٰ تک پہنچادیا ہے۔
علم دلکش داستان اور بے مثال کہانی ہے۔ یہ لامحدود موضوع ہے۔ ایک جامع مضمون ہے جو ہر شے کے ہر پہلو کا احاطہ کئے  ہوئے ہے۔ یہ وہی طاقت و قوت ہے جس نے دربار خداوندی میں انسان کی فضیلت فرشتوں پر ثابت کی ہے۔ علم ایک لازوال دولت ہے جو تقسیم کرنے سے کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو جہالت کی تاریکی کو مٹاتی ہے۔ یہ وہ زرخیز زمین ہے جس کے پھولوں اور پھلوں کی کوئی گنتی ، کوئی شمار نہیں۔ یہ وہ سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ یہ وہ طاقت ہے جو انسان کو خود شناسی اور خدا شناسی سکھاتی ہے۔
علم کا عمل تعلیم سے مکمل ہوتا ہے۔ تعلیم کے ذریعے ایک نسل اپنا تہذیبی اور تمدنی ورثہ دوسری نسل کو منتقل کرتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ہر سوسائٹی اپنے تہذیبی مسائل اور تمدنی حالات کے مطابق ادارے قائم کرتی ہے اور ہر ادارے کی اپنی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ قوم اور ملک کی توقعات پر پورا اترے۔ لیکن ایک چیز سب میں مشترک ہے کہ پچھلی نسل اگلی نسل کو اپنے سارے تجربات منتقل کرتی ہے بلکہ یہی نہیں پوری انسانیت کے تجربات اور علوم پوری طرح منتقل کرتی ہے تاکہ اقوام عالم کے شانہ بشانہ زندگی کی دوڑ میں شریک ہوا جاسکے۔
مذہب اسلام کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ حصول علم پر ہرممکن زور دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں تقریباً پانچ سو کے لگ بھگ مقامات پر بلاواسطہ یا بالواسطہ حصول علم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ پھر یہ مذہب مرد کی طرح عورت کے لئے بھی تعلیم کا حصول لازم قرار دیتا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمة. (صحیح بخاری) ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘ نبی کریم صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن حکیم میں اس دعا کی ہدایت فرمائی گئی ہے: رَبِّ زِدْنِیْ عِلْما. (طه:۱۱۴) ’’اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘ یوں گویا بالواسطہ طور پر مسلمانوں کو حصول علم کی رغبت و تعلیم دی گئی ہے۔ ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم و حکمت کو مومن کی گمشدہ متاع قرار دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی مخصوص فرمارکھا تھا۔ ازواج مطہرات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دین کی باتیں سیکھ کر دیگر مسلمان خواتین کو سکھاتی تھیں۔ یوں دین کی تعلیم عورتوں تک بھی باقاعدہ پہنچتی رہی۔
بدقسمتی سے اسلامی تعلیمات کی ادھوری تفہیم اور انہی معاشرتی رسوم و رواج میں خلط ملط کرنے کے باعث خواتین کو ماضی میں علوم کے ذرائع تک آزادانہ رسائی کا حق حاصل نہیں رہا۔ جس کی وجہ سے وہ نسل در نسل زیور تعلیم سے محروم رہیں۔ اور اگر انہیں گھر میں بھی دین کی تعلیم دی گئی تو وہ بھی اس معیار کی نہ تھی جس سے دین اسلام کا صحیح مفہوم انہیں معلوم ہوسکے اور وہ نئی نسل کی تربیت صحیح انداز میں کرسکیں۔
درحقیقت تعلیم ہی وہ زیور ہے جس سے عورت اپنے مقام سے آگاہ ہوکر اپنا اور معاشرے کا مقدر سنوار سکتی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ کچھ بزرگ تعلیم نسواں کے متعلق بڑی غلط فہمی رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم صرف لڑکوں ہی کو دینا ضروری ہے۔ تعلیم صرف روزگار کے لئے چاہئے۔ اس میدان میں صرف مردوں کو آنا چاہئے۔ عورتیں صرف باورچی خانے کے لئےپیدا ہوئی ہیں اور ان کی زندگی باورچی خانے سے شروع ہوکر دستر خوان پر ختم ہوجاتی ہے۔اس طرح کی باتیں ہرگز درست نہیں۔ عورتیں بھی انسان ہیں۔ علم کی روشنی انسان کو جینا سکھاتی ہے۔ تاریخ اسلام میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں۔ خواتین کی ہمت و جرأت اور تدبر و فراست سے بڑے بڑے انقلابات ظہور پزیر ہوئے۔ مثلاً حضرت موسیٰؑ کی والدہ اور زوجہ فرعون حضرت آسیہ کی مثال قرآن میں موجود ہے۔ حضرت آسیہ نے حضرت موسیٰؑ کو فرعون کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھ کر اپنی آغوش میں پروان چڑھایا۔ زوجہ رسول مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت خدیجہؓ نے آپؐسے شادی کے بعد اپنی تمام دولت خدمت اسلام کے لئےوقف کردی۔ ایسے ہی بنت رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہؓ نے اپنی آغوش میں حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ جیسے سپوت پروان چڑھائے۔حضرت امام حسنؓ نے دو گروہوں میں صلح کروا کر ملت کو خون خرابے سے بچایا اور حضرت امام حسینؓ نے جان قربان کرکے اسلام کی حفاظت کی۔ عالم اسلام کی جلیل القدر شخصیت حضرت عبدالقادر جیلانی کی ماں ہی تھیں کہ جن کی تربیت کا اثر تھا کہ بچپن میں آپ کے دست مبارک پر ڈاکوؤں نے توبہ کی۔
کسی دانا کا قول ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔ بچہ جو کچھ اس درس گاہ سے سیکھتا ہے وہ اس کی آئندہ زندگی پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ بچے کی بہترین تربیت کے لئےماں کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ مفکرین کی رائے میں: ’’مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے، جبکہ عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے‘‘۔ فرانس کے مشہور بادشاہ نپولین کا قول ہےـ: ’’آپ مجھے اچھی مائیں دیں، میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔‘‘ علامہ اقبال کے فارسی شعر کا مفہوم ہے: ’’قوموں کو کیا پیش آچکا ہے؟ کیا پیش آسکتا ہے؟ اور کیا پیش آنے والا ہے یہ سب ماؤں کی جبینوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘
مذہب کو انسانی زندگی میں خاص مقام حاصل ہے۔ مذہب کی بنیادی تعلیمات اور اہم مسائل سے آگاہی مرد کے ساتھ ساتھ عورت کے لئےبھی اشد ضروری ہے۔ دین ہی وہ کامیاب راستہ ہے جس پر چل کر انسان دنیوی و اخروی زندگی کو کامیاب و کامران بناسکتا ہے۔ پڑھی لکھی عورت مذہبی و دینی تعلیمات ومسائل سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت دینی اصولوں کی روشنی میں بہتر انداز میں کرسکتی ہے اور  ملک و ملت کی تقدیر سنوار سکتی ہے۔ لیکن ایک ناخواندہ عورت جو دین و مذہب کی تعلیمات سے نا آشنا اور غیر سلیقہ شعار ہوتی ہے،  وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض بھی اچھے طریقے سے ادا نہیں کرسکتی۔
موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اب وہی قوم یا ملک اس جہاں پر حکمرانی کرسکتا ہے جو علم اور ٹیکنالوجی میں آگے ہے۔ اگر کسی ملک کی نصف آبادی یعنی خواتین پسماندہ ہوں گی تو وہ قوم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ لہٰذا عورتوں کے لئےتعلیم کا حصول اور واقفیت عامہ یا معلومات عامہ سے آراستہ ہونا  نہایت ضروری ہوچکا ہے۔ آج کی دنیا نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کررہی ہے۔ اس لئےایک پڑھی لکھی عورت ہی اس نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرسکتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت اپنا مافی الضمیر آسانی سے دوسرے تک پہنچاسکتی ہے۔ وہ اپنی رائے کا اظہار بہتر طریقے سے کرسکتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت ملک کی ترقی کے لئےاپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کرسکتی ہے۔ وہ اپنے خاندان اور معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ عورت پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر یا پائلٹ ہی بنے۔ عورت کی اولین ذمہ داری اس کا گھر ہے۔ وہ پڑھی لکھی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ بہتر طریقے سے نبھا سکتی ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK