• Sun, 13 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

خواتین ریزرویشن بل تاریخی پیش رفت مگر!

Updated: September 22, 2023, 1:31 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

خواتین ریزرویشن بل قانون بننے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اب یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اسی بل کی خاطر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا تھا۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

خواتین ریزرویشن بل قانون بننے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اب یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اسی بل کی خاطر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ ایک خاص بل کیلئے ایک خاص اجلاس کی ضرورت تھی چنانچہ اس بل کو نہ صرف یہ کہ خاص اجلاس میسر آیا بلکہ خاص جگہ بھی ملی۔ خاص جگہ یعنی پارلیمان کی نئی عمارت۔ یہ بل نئی عمارت میں منظور کیا جانے والا پہلا بل ہے۔ وزیر اعظم مودی کے طریق کار کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ ماحول تیار کرتے ہیں ، اس کے بعد اپنے پتے کھولتے ہیں ۔خواتین ریزرویشن بل کیلئے بھی یہی کیا گیا۔ خصوصی اجلاس کے ایک دن پہلے کابینہ میں اس بل کو منظور کیا گیا تب ہی عوام جان پائے کہ خصوصی اجلاس طلب کئے جانے کا مقصد کیا ہے۔ 
 بہرکیف، اس بل کو قانون بننے سے اب کوئی نہیں روک سکتا مگر عوام کو اس سے جڑے ہوئے سوالات کرنے سے بھی روکنا نہیں جاسکتا۔عوام کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب اسے ۲۰۲۹ء کے پہلے نافذ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس سے پہلے نئی حدبندی اور مردم شماری شرط ہے تو اتنی عجلت میں اور تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر اس کیلئے خصوصی اجلاس طلب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر موجودہ لوک سبھا میں نہیں تو آئندہ لوک سبھا میں اسے پیش کرکے منظور کروایا جاسکتا تھا! کاش اس سوال کا جواب ملنے کی طرح ملتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت بہت سی چیزوں کو قیاس آرائی کیلئے چھوڑ دیتی ہے کہ سوچتے رہئے۔
  مگر مبصرین اس کی دو تین وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ ۲۰۲۴ء کے الیکشن کیلئے جب حکمراں جماعت عوام کے درمیان جائیگی تب اُس کے پاس کہنے کیلئے یہ بہت بڑا موضوع ہوگا کہ وہ خواتین ریزرویشن بل جو ۲۷؍ سال سے معرض التواء میں تھا اور ایک ایوان میں منظوری کے باوجود دوسرے ایوان میں پڑا رہا، ہم نے اُسے قانون بنادیا تاکہ ملک کی خواتین کو بااختیار اور قانون سازی کے عمل میں اُن کی شراکت کو یقینی بنایا جاسکے۔ بات تو پتے کی ہے مگر کیا اس سے حکمراں جماعت کو سیاسی و انتخابی فائدہ ملنے کی اُمید ہے؟ 
 اس کا امکان کم ہے کیونکہ اس میں اوبی سی کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ کانگریس کے دور میں بھی اس بل میں اوبی سی کا کلاز نہیں تھا چنانچہ عوام یہ دریافت کرینگے کہ اگر وہی بل پیش کرنا تھا تو اب تک کیوں نہیں کیا گیا تھا؟ اس کیلئے اتنے برس انتظار کیوں کیا گیا؟ دوسرا سوال اُن کا یہ ہوگا کہ اگر اس کے نفاذ کو بوجوہ نئی حدبندی اور مردم شماری سے مشروط ہونا تھا تو اس کو اتنی عجلت میں پاس کروانے کی کیا ضرورت تھی؟ تیسرا سوال جو عوام کی جانب سے ہوگا وہ یہ ہوگا کہ جب اتنے برس بعد ایک کام انجام دیا جارہا تھا تو اسے کارنامہ کیو ں نہیں بنایا گیا اور اس میں راجیہ سبھا نیز ودھان پریشدوں کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ چوتھا سوال عوام کا یہ ہوگا کہ وزیر داخلہ نے تو یہ کہہ دیا کہ مردم شماری کا آغاز ۲۰۲۴ء کے الیکشن کے فوراً بعد کیا جائیگا مگر اس کی کیا ضمانت ہے کہ اسے اور نئی حدبندی کو وقت پر شروع اور وقت پر مکمل کرلیا جائیگا تاکہ خواتین کو ۳۳؍ فیصد ریزرویشن ملنے لگے؟ 
یہ سوال عوامی ذہنو ں میں ہیں لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ اتنے ڈرامائی انداز میں بل کی منظوری کے باوجو دبی جے پی کو سیاسی فائدہ ملنا مشکل ہے، دیکھئے کیا ہو!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK