Inquilab Logo Happiest Places to Work

خواتین ریزرویشن : ہر محاذ پر اُلجھی ہوئی حکومت، عوام کو بھی اُلجھائے رکھنا چاہتی ہے

Updated: September 24, 2023, 12:52 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

دونوں ایوانوں میں منظوری کے بعد بھی کئی سوال غیر واضح ہیں، جیسے یہ کہ خواتین کو کیا سالم ریزرویشن ملے گا ؟ اوبی سی خواتین کا کیا ہوگا؟ ایس سی ،ایس ٹی خواتین کا کیا بنے گا؟ اور یہ کہ اقلیتی خواتین کو کتنی نمائندگی دی جائے گی؟

Time will tell how much the Prime Minister will be able to benefit from this bill, but it is certain that women are not going to get any benefit for now. Photo: INN
وزیراعظم اس بل سے کتنا فائدہ اٹھاپائیں گے، یہ تو وقت بتائے گا، لیکن یہ تو طے ہے کہ خواتین کو فی الحال کوئی فائدہ نہیں ملنے والا ہے۔ تصویر:آئی این این

۲۰۲۴ء سےپہلے پہلےمرکزی حکومت بہت کچھ کرنا چاہتی ہےاور بہت کچھ جو ہوچکا ہے،اس کاکریڈٹ لیتے رہنا چاہتی ہےتاکہ انتخابی فائدے کی راہ سے بالشت برابر بھی ہٹا نہ جائے۔ووٹ بینک کے تناظر میں دیکھا جائےتواس حکومت کے پاس حالانکہ اب زیادہ موضوعات بچے نہیں ہیں لیکن کچھ ہیں ضرور جنہیں بنیاد بناکر و ہ اکثریتی طبقے کو متاثر کرنے کی کوشش ضرورکرے گی اوراگرنہیں بھی ہیں تو یہ حکومت موضوعات پیدا کرنے میں ماہر ہے۔ابھی حال ہی میں یکساں سول کوڈ(یو سی سی)کا شوشہ چھوڑا گیاتھا۔محکمہ قانون نے اس پرعوام کی رائےمانگی تھی۔ مشاہدہ ہےکہ لاکھوں کی تعدادمیں عوام بالخصوص مسلمانوں نے اس کی مخالفت میں اپنی آراءروانہ کی ہیں۔ اب اس پر کوئی بات نہیں ہورہی ہے، پوری خاموشی ہےگویا موضوع سردخانہ میں جاچکا ہے۔اس کاشور حالانکہ تھم چکا ہے لیکن جس اندازمیں یہ موضوع اٹھایا گیا، اس سے یہی ثابت ہوا کہ حکومت کو اچانک اس کی یاد آگئی اور۲۰۲۴ء کیلئےا پنے حق میں را ئے کچھ ہموار کرنے کیلئے اس نے اس کاسہارا لینا ضروری سمجھا۔ نتیجہ کیا رہا، یہی کہ ہوا کچھ نہیں۔ کئی ریاستوں اور پارٹیوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔کئی برادریوں نےاسے قبول نہیں کیا اورحکومت کو خاموش بیٹھنا پڑا ۔بعد ازاں بہت سے واقعات ہوئے اور اب بھی ہورہے ہیں جن میں حکومت کی شبیہ داؤپر لگتی ہوئی نظر آرہی ہے۔منی پور بحران سے لے کر جی ۲۰؍کے انعقاد میں لاکھوں کروڑوں روپے بہا دئیے جانے تک، پھر خالصتان تحریک سے لےکرکینیڈ ا سے تعلقات میں کشیدگی تک،اندرون ملک جاری نفرت کی سیاست سے لے کرلداخ کے ایک بڑے حصہ پر چین کے قبضے تک ایسی کئی باتیں ہیں جن میں حکومت گھری ہوئی ہے اور نکلنےکا راستہ نہیں پا رہی ہے۔ یہ موـضوعات اگر غالب آگئے توحکومت کو ۲۰۲۴ء میں عوامی انقلاب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہےلیکن یہ حکومت ہے شاطر۔اقتدار میں رہنے اور بچنےکی راہ ڈھونڈنے کیلئے غیر موـضوع کو موضوع بنانے کا موقع نہیں چھوڑے گی۔انہی غیر موضوعات میں سے ایک موضوع اس نے اپنی پھٹی پرانی زنبیل میں سے چن کر نکالا ہے جس کا نام ہے خواتین ریزرویشن یا ناری شکتی وندن بل۔ 
اس موضوع پر آنے کیلئےتھوڑی طویل تمہید اسلئے باندھنی پڑی تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ حکومت یہ بل جو عوام کے درمیان لے کر آگئی ہے، یہ فی الوقت کتناغیر ضروری ہےاور اس سے بڑےبڑے موضوعات و مسائل حکومت کا مسلسل منہ چڑا رہے ہیں۔خواتین کے ریزرویشن کا مطالبہ تاریخی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ۱۹۳۱ء میں خواتین کی ۲؍ تنظیموں نے برطانوی حکومت سے بھی مناسب نمائندگی کا مطالبہ کیاتھا۔۹۰ء کی دہائی میں نرسمہا راؤ کے دور میں باقاعدہ آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ میں خواتین کے ریزرویشن کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس پر پارٹیوں میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا تھا۔ خواتین کےریزرویشن سے متعلق یہ بل اس سے قبل تک قانونی پیچیدگیوں میں ہی الجھا ہوا تھا۔اس پر یہ اتفاق رائے۲۷؍ برسوں بعد قائم ہوا جب پارلیمنٹ کی نئی عمار ت میں منعقدہ پہلے خصوصی اجلاس میں اسےپہلے لوک سبھامیں منظوری ملی جہاں صرف ۲؍ اراکین نے اس کے خلاف ووٹ دیا اورپھر دوسرے دن راجیہ سبھامیں اسے منظور کرلیا گیا جہاں سبھی ۲۱۴؍ اراکین نے اس کی حمایت کردی ۔ یہ بل پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کیلئے ۳۳؍ فیصد نشستیں محفوظ کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔یہ بل ابھی نافذ  نہیں ہوگا۔ بتایا جارہا ہےکہ ۲۰۲۶ء تک بل منجمد رہےگا ،بعد ازاں نئی مردم شماری اور حد بندیوں کے بعداس کے ۲۰۲۹ء تک نافذ ہونے کا امکان ہے۔ اسی بنیاد پر ڈی ایم کے کی رکن پارلیمنٹ کنی موزی نے اس پر سوال اٹھایا ہےاورنئی حد بندیوں کے سبب تمل ناڈ و اور دیگر جنوبی ریاستوں کے متاثر ہونے اور وہاں نمائندگی کا تناسب بگڑنے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا ہے۔کنی موزی نے کہا کہ انہوں نے اس سے قبل بھی ایوان میں خواتین ریزرویشن بل پیش کرنے کا مطالبہ کیاتھا لیکن اس وقت حکومت نے کہا تھا کہ بل تمام پارٹیوں ، شراکت داروں اور فریقوں سے صلاح ومشورہ کے بعد لایا جائے گا۔کنی موزی نے سوال کیا کہ ان برسوں میں حکومت نے کس سے بات کی؟ کس کو اعتماد میں لیا؟ اورکس سے صلاح ومشورہ کیا؟ حکومت یہ بل رازدارانہ طورپر لائی ہے۔مہوا موئترانے۵؍ سال تک اس بل کے بے معنی رہنے پر سوال اٹھائے اورکہا کہ اس پر راست کارروائی ہونی چاہئے اور۳۳؍ فیصد خواتین کو۲۰۲۴ء میں ہی پارلیمنٹ میں بھیجا جائے۔ سونیا گاندھی نے اس بل پرحکومت کے کریڈٹ لینے پر سوال اٹھایا (کیونکہ ۲۰۱۰ء میں یو پی اے کے دور میں بھی یہ بل پیش کیا گیا تھا جسے راجیہ سبھا میں منظوری مل گئی تھی لیکن لوک سبھا میں سماجوادی اورآر جے ڈی نے اس مخالفت کی تھی) اور پوچھا کہ خواتین کو انصاف کیلئے مزید کتنا سال انتظار کرنا پڑے گا؟اس کے علاوہ سپریہ سلے نے بھی بل کے حوالے سے ارباب اقتدارکے ذریعے خواتین کا احترام نہ کرنے کا معاملہ اٹھایاجس پر اسمرتی ایرانی نے جواب دیا کہ اس حکومت نے وہ کام کئے ہیں جن سے خواتین کی اہمیت بڑھی ہے۔ان سار ی بحثوں کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون ارجن رام میگھوال نےسرکا ری انداز میں جواب دیاکہ اس بل کے نفاذ میں حکومت ضابطے کے مطابق کارروائی کرے گی۔ 
عوامی نمائندگی میں خواتین کی حصہ داری کی اہمیت سےکسی کو انکار نہیں ہے لیکن اس بل کی منظوری سے سر دست عوام کو کچھ بھی فائدہ نہیں کیونکہ تصویر پوری طرح صاف ہے کہ اس کیلئے جو پوری مشق ہونی ہےوہ برسوں پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلے برسوں پر مشتمل اس طرح کی مشقوں سے آج تک ملک میں کتنی برادریوں اور ذاتوں کا تعین ہوسکا ؟ذات پات پرمبنی مردم شماری کا قضیہ بھی حال ہی سامنے آیا تھا ۔ اس پر ابھی بحث جاری ہے۔ بہار میں ذاتوں کے اعدادوشمار سامنے آنے والے ہیں ۔ ایس سی /ایس ٹی اور قبائلیوں کا الگ مسئلہ ہے ۔ ان کی اپنی نمائندگی ہے،کہیں کم ہے ،کہیں زیادہ ہے،کہیں ہے ہی نہیں ۔گجروں کا معاملہ الگ ہے، مراٹھوں کا معاملہ الگ۔جاٹوں کا الگ ہے ،دھنگروں کا الگ ہے۔ ہندوستانی سیاست میں ’ریزرویشن‘ ایک ایسا لفظ بن چکا ہے جس کے ذریعے کوئی بھی برادری آن کی آن میں منظر عام پر ابھر بھی آتی ہے اور آن کی آن میں غائب بھی ہوجاتی ہے؟مہاراشٹر میں مراٹھا ،اوبی سی اور دھنگرسما ج کے ریزرویشن پر ہنگامی سیاست جاری ہی تھی کہ مرکز نے خواتین ریزرویشن کے نام پرپوری بساط ہی پلٹ کر رکھ دی۔ خواتین کو کیا سالم ریزرویشن ملے گا ؟اب اوبی سی خواتین کا کیا ہوگا ،اب ایس سی ،ایس ٹی خواتین کا کیا بنے گا،اقلیتی خواتین کو کتنی نمائندگی دی جائے گی؟کس کو کتنا ریزرویشن ملے گا ،کچھ بھی طے نہیں ہے ،کس برادری کا ریزرویشن کس میں سے ہوگا یہ بھی واضح نہیں ہے،قبائلی خواتین کو نمائندگی دینے کا حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے ،ان میں سے کوئی بھی بات واضح نہیں ہے!بس کچھ تحریک آمیز باتیں ہیںکہ خواتین کو بااختیاربنانا ہے، قبائیلیوں کو تحفظ دینا ہے، پسماندہ طبقات کوان کا حق دلانا ہے لیکن زمینی سطح پر دگرگوں حالات میں یہ باتیں کارگرنہیں ہوسکتیں۔ملک میں نہ قبائلی محفوظ ہیں نہ خواتین۔ منی پور میں کوکی خواتین کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی سنگینی کو کیا خواتین ریزرویشن بل کم کرسکتا ہے؟حقیقت یہ ہےکہ اس وقت کئی سوال ہیں اورکئی محاذ ہیں جن میں حکومت الجھی ہوئی ہےاور ایک الجھی ہوئی حکومت عوام کو الجھانے کے سوا اور کر بھی کیا سکتی ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK