ہمارا سماج بُری طرح بگڑ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بگڑ چکا ہے۔ اسے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف پولیس یا حکومت کی ذمہ داری نہیں، یہ سماج کے ایک ایک فرد کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری سے تغافل سماج کو جنسی انارکی میں جھونکنے کے مترادف ہوگا۔
EPAPER
Updated: May 15, 2020, 11:33 AM IST
|
Shamim Tariq
ہمارا سماج بُری طرح بگڑ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بگڑ چکا ہے۔ اسے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف پولیس یا حکومت کی ذمہ داری نہیں، یہ سماج کے ایک ایک فرد کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری سے تغافل سماج کو جنسی انارکی میں جھونکنے کے مترادف ہوگا۔ جو لوگ ایجادت و اختراعات سے گھبراتے ہیں وہ زمانہ کے ساتھ نہیں چل سکتے، مگر جو لوگ ایجادات و اختراعات کے منفی اور مثبت پہلوئوں پر نظر نہیں رکھتے وہ بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ وہاٹس ایپ، انسٹاگرام اور فیس بک اس زمانے میں رابطے اور تبادلۂ خیالات کے سب سے اہم ذرائع ہیں۔ ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر یہ ذرائع جھوٹ اور بہتان کو جس طرح بڑھاوا دے رہے ہیں ان کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ ایسے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ معصوم زندگیوں کو ایک منصوبے کے تحت تباہ کیا جارہا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کوئی شرم کی وجہ سے خود کشی کررہا ہے یا ذہنی نفسیاتی مریض بن کر جی رہا ہے کوئی پکڑے جانے اور سزا پانے کے خوف سے خود کشی کررہا ہے۔
لڑکپن اور جوانی کے ملنے کی عمر میں جس کو ’’ تجسس کی عمر ‘‘ کہتے ہیں ہر زمانے میں مختلف صنف والے ایک دوسرے کے لئے کشش محسوس کرتے رہے ہیں۔ ان کے آزادانہ اختلاط سے تکلیف دہ واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ رونما ہونے والے واقعات میں بعض بہت گھنائونے بھی ہوتے ہیں مگر ان میں منصوبہ بندی نہیں ہوتی تھی۔ کہتے ہیں پرانے زمانے میں کچھ لوگ ہوتے تھے جو معصوم بچوں کو اغوا کرکے ان سے بھیک منگواتے تھے یا بچیوں کو اغوا کرکے طوائف کے کوٹھوں پر بیچ دیتے تھے مگر محبت اور دوستی کے نام پر کسی کی زندگی تباہ کرنے کے واقعات شاید ہی کہیں رونما ہوتے تھے۔ رونما ہوتے بھی تھے تو ان کی کوئی اجتماعی شکل نہیں ہوتی تھی مگر اب کیا ہورہا ہے؟
جنوبی دہلی کے کچھ نوجوانوں نے جو اسکولوں کالجوں میں پڑھتے ہیں ’’ بوائز لاکر روم ‘‘ کے نام سے انسٹا گرام چیٹ گروپ بنا رکھا تھا جس پر وہ نہ صرف بیہودہ اور فحش گفتگو کیا کرتے تھے بلکہ ساتھ کی لڑکیوں کی شرمناک تصویریں مشتہر کرتے تھے۔ ان کی شیطنت کا یہیں خاتمہ نہیں ہوا بلکہ انہوں نے لڑکیوں سے اجتماعی طور پر جنسی تعلق قائم کرنے کی بھی بات کی۔ یہ بات بھی اچھی نہیں ہے مگر سمجھ میں آتی ہے کہ کسی لڑکی کا کسی لڑکے یا کسی لڑکے کا کسی لڑکی پر دل آجائے اور وہ اس سے جنسی تعلق قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کرے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آٹھ، دس، بیس، پچیس لڑکے لڑکیاں دوست ہوں اور پھر اجتماعی طور پر وہ ایک دوسرے سے جسمانی تعلق قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کریں۔ یہاں ’’ اجتماعی عصمت دری ‘‘ یا ’’ اجتماعی آبرو ریزی ‘‘ جیسی تراکیب کا استعمال صحیح نہیں ہے کیونکہ مذکورہ خواہش میں جبر شامل نہیں تھا۔ لڑکیوں کو خوشی و رضامندی سے سب کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے پر آمادہ کیا جارہا تھا۔ فضا بندی کے طور پر البتہ یہ جبر کیا گیا تھا کہ ان لڑکیوں کی نہ صرف قابل اعتراض تصویریں لے لی گئی تھیں بلکہ انہیں انسٹاگرام پر عام بھی کردیا گیا تھا۔ ان تصویروں کو عام کرنے کا مطلب لڑکیوں کو اس اندیشے میں مبتلا کرنا تھا کہ ابھی تو ایک دو تصویریں ہی عام ہوئی ہیں آئندہ معلوم نہیں کس کس کے ساتھ اور کس کس حال کی تصویریں عام کردی جائیں۔ یہ ایک طرح کی بلیک میلنگ یا دھمکی تھی مگر ایک لڑکی نے اس دھمکی کا اثر نہیں لیا۔ ۴؍ مئی کو اس نے اس گروپ یا گینگ کا اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر عام کرکے اس کے جرائم اور مجرمانہ سازشوں کو دنیا کے سامنے اُجاگر کردیا۔
نوجوانوں کی اس مجرمانہ سازش کا عام ہونا تھا کہ لوگ سکتے میں آگئے۔ خواتین کمیشن بھی حرکت میں آیا اور اس نے انسٹا گرام کے ساتھ پولیس کو بھی نوٹس جاری کردیا۔ محکمہ ٔ پولیس حرکت میں آیا اور اس نے ایک نوجوان کو گرفتار بھی کیا لیکن ابھی ان تمام نوجوانوں کی تفصیلات مہیا نہیں ہوئی ہیں جو اس گروپ میں شامل تھے۔ اس دوران انسٹاگرام پر ہی ایک دوسرے گروپ کا معاملہ سامنے آیا۔ اس گروپ کے ایک نوجوان پر عصمت دری کا الزام عائد ہوا اور اس نے پوچھ تاچھ کے خوف سے خودکشی کرلی۔
اس پورے معاملے کا تجزیہ کریںتو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ کہیں نہ کہیں گھر میں بھی کوتاہی ہورہی ہے اور تعلیم گاہوں میں بھی۔ جوان ہوتے بچوں بچیوں سے ان کے تجسس اور جنسی خواہشات کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کرتا مگر فحش سے فحش سائٹ بھی بچوں کو دستیاب ہیں۔ اس سے ان میں جو ذہنی خلجان پیدا ہوتا ہے اس کا فائدہ ایک دو شیطانی ذہن اٹھاتے اور بیشتر نوجوانوں کو علتوں میں مبتلا کردیتے ہیں یا ان کی کسی اضطراری کیفیت کی تصویر لے کر بلیک میل کرتے ہیں۔ اس کا علاج کون اور کیسے کرے؟ یہ مرض جنسی تعلق کو ازدواجی تعلق سے الگ کرکے دیکھنے کے سبب پیدا ہوا ہے۔ صنف نازک کو جنسی تسکین کا سامان سمجھ لیا گیا۔ فری سیکس، سیف سیکس اور سیم جینڈر سیکس (ہم جنس پرستی) کی کھلے عام وکالت کی جارہی ہے۔ ایسے میں اس قسم کی علت کیسے نہیں پھیلے گی۔
جنوبی دہلی میں جو ہوا وہ اسی لئے ہوا کہ صنف نازک، عصمت، حیا، پاکی و پاکبازی کا مفہوم ہمارے ذہنوں سے نکل چکا ہے۔ ہندوستان میں مذہب کا بہت شہرہ ہے مگر مذہب چند رسوم و قیود کو سمجھ لیا گیا ہے۔ تعلقات میں اخلاص و غمگساری کو غیر ضروری سمجھ لیا گیا ہے۔ کمزور و ماتحت اور ضرورتمند کا استحصال بڑھتا جارہا ہے۔
جنوبی دہلی میں جو ہوا اور سامنے آیا وہ ملک کے ہر حصے میں ہورہا ہے اور اس لئے ہورہا ہے کہ نوجوانوں کو بتایا ہی نہیں گیا ہے کہ ماں بیٹی بہن اپنی ہو یا دوسروں کی، ان سے تعلقات کی کچھ حدود متعین ہیں جو اگر پامال ہوں گی تو پھر انسان انسان نہیں رہ جائے گا۔ جن نوجوانوں نے اپنی ساتھی لڑکیوں کی قابل اعتراض تصاویر عام کیں اور پھر اُنہیں گھناؤنے فعل کی دعوت دی کیا ان کو انسان کہا جاسکتا ہے، کیا ہمارے سماج میں ان کیلئے جگہ ہونی چاہئے؟