Inquilab Logo

ادیب اورشاعرکواگراپنےہنرپراعتماد نہ ہو تواس کےاندراستغنا پیدا نہیں ہوتا

Updated: January 16, 2023, 4:53 PM IST | Mubeen Mirza | MUMBAI

دب پر ان دنوں اضطراب کا موسم ہے۔ اور ادب میں اضطراب کی اہمیت کو محسوس کرنے کے لئے ادیب، شاعر کا ترقی پسند ہونا بھی ضروری نہیں ہے

When in the eyes of the artist art becomes small, something else becomes bigger, his attention is diverted from his art and focused on something else.; Photo: INN
جب فنکار کی کی نظروں میں فن چھوٹا ، کوئی اور شے بڑی ہوجاتی ہے تو اس کی توجہ اپنے فن سے ہٹ کر کسی اور شے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔; تصویر:آئی این این

 مبین مرزا
 ہمارے ادب پر ان دنوں اضطراب کا  موسم ہے۔ اور ادب میں اضطراب کی اہمیت کو محسوس کرنے کے لئے ادیب، شاعر کا ترقی پسند ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ اتنی بات تو مجھ ایسا عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اُس کے محرکات کی نوعیت اور اثرات کی شدت پر بات بے شک الگ سے کی جائے، تاہم اضطراب بنفسہٖ ادب کے لئے کارآمد شے ہوا کرتا ہے ، اس لئے کہ یہ ادیب ، شاعر یا فنکار کا اضطراب ہی تو ہوتا ہے جو پیش آمدہ زندگی کے حالات اور وقت کے تغیرات سے لے کر تقدیرِ انسانی اور کائنات کے مظاہر تک کی بابت اُس کے اندر سوالات اٹھاتا اور اسے سوچنے پر اُکساتا ہے۔ جملہ فنون ِ لطیفہ میں اظہار کے اسالیب اور ابلاغ کا دائرہ اسی اضطراب کی نوعیت اور شدت سے طے ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فنکار کا مرتبہ اور اس کے فن کی قدر و قیمت بھی اسی سے متعین ہوتی ہے۔
 اس لحاظ سے دیکھا جائےتو عصری ادب پر اضطراب کے موسم کا آنا تو خوش آئند بات ہوئی، لیکن کیا معاصر ادب کے رجحانات اور ادیبوں کے رویے کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقعی ایسا ہے؟ نہیں۔ اس لئے کہ یہ اضطراب چاہے ہمیں کتنی ہی جاں گسل کیفیتوں اور کیسے ہی جانکاہ مراحل سے گزارے لیکن جب ہم اس سے نکلیں گے تو یہ نظر نہیں آتا کہ ہمارے دامن میں زندہ تجربوں اور بڑے سوالوں سے دمکتی ہوئی تخلیقات ہوں گی… وہ تخلیقات و نگارشات جنہیں انسانی تجربہ و احساس کی جمالیاتی تشکیل کہا جاتاہے۔
  فطری طور پر یہاں پوچھا جانا چاہئے، لیکن کیوں؟  اس لئے کہ عصری ادب اور ہمارے ادیبوں کا یہ اضطراب اصلی نہیں ہے۔  اصلی نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کا منبع ہمارے ادیبوں اور شاعروں کے کہیں داخل میں نہیں ہے۔ یہ کسی اندرونی کیفیت یا باطنی تجربے، کسی داخلی ضرورت یا فکری قوت کے اظہار کے طور پر پیدا  نہیں ہوا ہے بلکہ اسے خارج سے اور براہِ راست خیال کے طور پر حاصل کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ خارج کی اشیاء ادب کے کام کی نہیں ہوسکتیں۔ ہوسکتی ہیں، بلکہ یوں کہئے کہ ہوتی ہیں لیکن وہ کچھ دوسرےد اخلی عناصر سے ترکیب میں کارآمد ہوتی ہیں۔ البتہ براہ راست خیالات کی تخلیقی ادب کو کچھ ایسی ضرورت نہیں  ہوتی۔
 تخلیقی ادب کا سروکار تو ان چیزوں سے ہوتا ہے جو آدمی اور اس کے معاشرے کے باطن میں اور پھر نتیجتاً اس کے طرزِ احساس میں کسی تبدیلی کا ذریعہ بنتی ہیں اور یوں شعور کی بدلتی ہوئی سطح کو نمایاں کرتی ہیں۔ ادب انسانی احساس، خیال، تصور، فکر ، ارادے اور عمل میں سے کسی چیز کو رد نہیں کرتا۔ سب کچھ اس کے لئے کارآمد ہوتا ہے حتیٰ کہ انسان کی ترجیحات اور اس کے تعصبات تک اس کے لئے مفید طلب ہوتے ہیں، بس اگر کوئی چیز وہ قبول نہیں کرتا تو وہ ہے بناوٹ یاکھوکھلاپن۔ اسلئے کہ یہ  وہ شے ہے جو ادیب کو اپنی شخصیت کا اسیر بنادیتی ہے ۔  ہمارے یہاں اس وقت جس اضطراب کا اظہار عصری ادب کے تناظر میں پایا جاتا ہے وہ کوئی تخلیقی یا فکری کیفیت کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ اس کے پس منظر میں خود اپنی ہی شخصیت کی اسیری کا ردعمل کارفرما ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اضطراب ہمیں آج اپنے ادیبوں اور شاعروں کے یہاں نظر نہیں آتا جو تخلیقی دفور سے سرشار اپنے کام میں  مصروف ہیں، بلکہ اس کا اظہار ان لوگوں کے یہاں ہورہا ہے جن میں سے کوئی اپنی وسعت پزیر اَنا کا اسیر ہے تو کوئی جان لیوا احساسِ محرومی سے مغلوب۔ کسی کو  ناقدری ٔ زمانہ کی وحشت ہے تو کوئی اظہار یا ابلاغ کی نارسائی کا قتیل۔ کوئی ناسازگاری ٔ حالات کا کشتنی ہے تو کوئی جبر تقدیر سے درماندہ ۔ غرضیکہ اس گوشۂ اسیراں کو جائیے تو محرومی، مغلوبیت، نارسی اور اسیری کا  وہ تماشا  ہے کہ ہر قدم جائے عبرت ۔ اب سوال یہ ہے کہ آدمی پر یہ افتاد کب اور کیسے گزرتی ہے کہ جو اُسے درماندگی اور پائمالی کے اس پاتال تک پہنچا دیتی ہے؟ یہ سوال اہم اور غور طلب ضرور ہے مگر ایسا دقیق بہرحال نہیں کہ کسی بطلیموس یا ارسطاطالیس کے بغیر اس کا جواب ہی نہ مل پائے۔ بات بالکل سامنے کی ہے ، لیکن اقبالؔ نے اس سمت اشارہ کیا تودیکھئے کیسی لطافت اور نکتہ وری کے ساتھ
صاحب ِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
 تو بس بات یہی ہے کہ سروش تو گاہے گاہے غلط آہنگ ہو ہی سکتا ہے لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب صاحب ِ ساز غفلت کا شکار ہوجائے ۔ یہ غفلت   اس وقت ہوتی ہے جب فنکار کا دھیان آہنگ سے یا سروش سے ہٹ کر کہیں اور بہک جاتا ہے …یعنی جب فنکار کی توجہ اپنے فن سے ہٹ کر کسی اور شے پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ ایسا کب ہوتا ہے؟ اُس وقت جب اس کی نظروں میں فن چھوٹا ، کوئی اور شے بڑی ہوجاتی ہے۔
  ادب و فن کی دنیا میں وہ سب لوگ جو کسی نہ کسی عنوان سے آج ادب کی بے اثری یا اس کے زوال کا راگ الاپتے اور معاشرے کی عدم توجہی اور زمانے کی ناسازگاری کی تان لگاتے ہیں، اصل میں وہی لوگ ہیں جن کی نظروں میں ان کا ہنر چھوٹا پڑ گیا ہے اور چھوٹا اس لئے پڑ گیا ہے کہ وہ اُس کو مقصود بالذات نہیں جانتے بلکہ اس کے ذریعے دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔  ادیب اور شاعر کو اگر اپنے ہنر پر اعتماد نہ ہو تو اس کے اندر استغنا پیدا نہیں ہوتا ، تب وہ ایک عام آدمی کے مقابلے میں کہیں زیادہ دنیا کی ہوس رکھتا ہے اور اس کے لئے ہر آن تڑپتا ہے۔  یہ تڑپ اس کے یہاں کبھی زمانے کی شکایت بن کر ظاہر ہوتی ہے تو کبھی ناقادری کے احساس کی صورت اور کبھی تو حد یہ ہے کہ اسکی ذاتی معذوری، نااہلی اور بے مائیگی کا احساس منقلب ہوکر پورے عہد اور اس کے تخلیقی ، فنی ، فکری اور نظری اسالیب اور مظاہر کو زوال آمادہ دیکھتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK