ادیب کوئی ’’بے چارا‘‘ فرد نہیں ہے جو امداد کا طلبگار ہے۔ نہیں۔ وہ تخلیق کار ہے اور کائنات کے مالک کی طرح محسوس کرتا ہے جب کالی داس یا شیکسپئر یا کبیر یا والیٹر یا دانتے حسین و جمیل اور پرشکوہ کائناتیں تخلیق کررہے ہوں تو اس وقت بادشاہوں اور ان کی بیگمات کے ناموں کو کون یاد رکھتا ہے؟ادب کا مرتبہ بہت بلند ہے۔
کتابیں آپ کی سوچ کو مہمیز لگاتی ہیں، وہ سوال کرنے کی قابلیت کو آپ کے اندر روشن کرتی ہیں ۔ تصویر: آئی این این۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تخلیقی لوگ کچھ کچھ دیوانے ہوتے ہیں، اور اگر یہ سخت لفظ ہے تو ہم پھر یہ کہہ سکتے ہیں وہ کسی قدر غیرمعمولی ہوتے ہیں کیونکہ ان کی حسیت اور استعداد اوروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس حسیت اور تشویش کو معقولیت بخشنا اپنی ذات پر عائد کی ہوئی پابندی کی ایک دوسری شکل ہے۔ یہ بات کچھ اس طرح ہے کہ جیسے آپ کسی ’’راگ‘‘ کے لئے سروں کا انتخاب کررہے ہیں۔ ’’راگ‘‘ کی حدود کے اندر رہ کر آپ جدت پیدا کرنے والی ساختیات بنا سکتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جسے اسلوب کا نام دیا جاتا ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ آپ کو ’’راگ‘‘ کی بنیادی ساخت کا بہرحال احترام کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کسی ’’راگ‘‘ کو ماہرانہ طور پر پیش کرنے کی سعی کررہے ہیں تو پھر آپ کو جھوٹے سروں سے دامن بچانا پڑے گا۔
کچھ ایسے جبر ہیں جو آپ پر خارج سے عائد کئے جاتے ہیں اور جن پر آپ کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ یہ جبر بلاواسطہ ہوسکتے ہیں جیسا آمرانہ اور فسطائی حکومتوں میں ہوتا ہے یا ان حکومتوں میں جن کی بنیاد مذہبی بنیاد پرستی ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں جو کچھ ہٹلر کے جرمنی میں، اسٹالن کے روس میں، ضیاء کے پاکستان میں اور ہمارے اپنے ملک میں ایمرجنسی کے دوران میں ہوا ہے۔
حکومت اختلاف رائے رکھنے والی آوازوں کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ اس مفروضہ پر کہ بیشتر تخلیق کار مقتدر ادارہ کے خلاف ہوتے ہیں انہیں مصائب جھیلنا پڑتے ہیں ، یا تو انہیں جلاوطن کردیا جاتا ہے یا بڑے اطمینان سے انہیں پس زنداں ڈال دیا جاتا ہے لیکن اب تک کوئی بھی حکومت اختلاف رائے رکھنے والی آوازوں کو مکمل طور پر نہ مٹا سکی۔ ہم اس حقیقت کو اپنے ذاتی اور تاریخی تجربوں کی روشنی میں خوب جانتے ہیں۔ دوسرے جبر جو سماج تخلیقی ادب پر عائد کرتا ہے، بہت زیادہ نمایاں نہیں ہیں تاہم انہیں ہم مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت واضح طور پر رکھ سکتے ہیں :
تعلیمی جبر: ہمارا تعلیمی نظام بنیادی طور پر ایسے ابتدائی نمونے اور سرکار کے ہمنوا پیروکار پیدا کررہا ہے جن کی تعلیم میں زور مقابلے یا تعاون پر ہوتا ہے۔ اس تعلیمی نظام کا منطقی رسائی پر زیادہ زور اور مقتدرہ پر انحصار ہم سے تخلیقی تحریک چھین رہا ہے۔ اور کچھ نہیں تو اس کے آگے روڑے اٹکا رہا ہے۔ تخلیق آپ کو اپنی اصلیت کا سامنا کرانا چاہتی ہے لیکن جس قسم کا تعلیمی نظام ہمارے ہاں رائج ہے وہ اقدار کے تمام مرکز ِ نظر ہی کو بدل دیتا ہے۔
مذہب: یہ پہلی ناکہ بندی ہے جسے تخلیقی فرد کو ہمیشہ عبور کرنا پڑا ہے۔ بنیاد پرست سماج میں مذہب کی غلط تشریح سے بہت جبر عائد کرتا ہے تاہم بعض تاریخی ادوار میں مذہب نے تخلیقیت کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ مثال کے طور پر احیائے علوم کے تمام دور میں مذہبی تحریکوں نے نہ صرف مصوروں کے تخلیقی تخیل کی نشوونما کی بلکہ مذہبی ادارے بھی ان کے مربی بن گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان سے مطابقت کا پھر بھی تقاضا کیا گیا تھا۔ دوسرے زمانوں میں ادباء مذہبی معیاروں کو للکارنے کا حوصلہ رکھتے تھے اور انہوں نے بغاوت کی خوبصورت تحریریں تخلیق کیں۔ ہمارے اپنے ملک میں صوفیاء کرام نے ایسے ہی عمل کا مظاہرہ کیا اور کچھ عرصہ بعد بھکتی تحریک کے شعراء کرام نے۔
مجموعی نظام: جب کوئی سوسائٹی یا حکومت کسی بحران سے دوچار ہوتی ہے تو تخلیقی افراد، بالخصوص ادباء پر کچھ غیرمرئی پابندیاں عائد کرنا شروع کردیتی ہے۔ کیونکہ تمام تخلیق کاروں میں اگر کسی کو ’’نظام‘‘ پر انگلی اٹھانے کی استعداد یا فوری تحریک ہوتی ہے تو وہ ادیب ہوتا ہے۔ جب ہندوستان اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا تو یہ صرف ادباء ہی تھے جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اس میں بھرپور شرکت کی اس وقت ہمارے کرشن دیوتا اور گوپیوں کے رومانی چھیڑچھاڑ کے مناظرپیش کئے جارہے تھے۔ یہ سلسلہ اب بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مصور خوش اسلوبی سے گداز چہروں اور بڑی کحل آراستہ آنکھوں کی تصویریں بنا رہے تھے۔ موسیقار ’’راگوں ‘‘ کی عفت کو برقرار رکھنے میں مصروف عمل تھے۔ یہ منظرنامہ اب بھی نہیں بدل رہا ہے جبکہ ہم ایک ایسے بحران کا سامنا کررہے ہیں جو نفسیاتی، سماجی، ثقافتی، مذہبی اور اقتصادی سطحوں پر پیدا ہوا ہے۔
حکومت بڑے پرشکوہ رقص و سرود کے تماشے منعقد کرنے میں مصروف ہے، مثال کے طور پر بیرون ملک ’’ہندوستان کے تیوہار‘‘ اور اندرون ملک ’’اپنے اتسو‘‘ (عوامی جشن)۔ یہاں سارا زور نام نہاد لوک گیتوں، کلاسیکی رقص اور موسیقی پر ہوتا ہے اور یہ سب محفوظ عمل داریاں ہیں۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے پیش کئے جانے والے ’’تماشوں ‘‘ میں کتنے ادباء کو شرکت کا موقع ملا ہے؟ ان سب چیزوں سے حکومت یہ اعلان کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ و ہی تو ہماری ’’ثقافتی وراثت‘‘ کی محافظ ہے اور اس طرح اپنی معتبریت کی مچھلیاں پکڑ رہی ہے لیکن اگر کوئی فی الحقیقت فن و ثقافت کو عوام تک لے جانا چاہتا ہے تو اسے صفدر ہاشمی کی طرح قتل کردیا جاتا ہے۔ بہرکیف، یہ سیاست ہے، جی ہاں ! ادباء ’’خاص طور سے خطرناک ‘‘ قرار پاتے ہیں لہٰذا ایسے ناپسندیدہ لوگوں کو نظروں سے اوجھل کردو یا انہیں ٹی وی کی چاپلوسی میں مصروف کردو، اور اگر وہ پھنسنے سے انکار کریں تو انہیں نکال باہر کرو۔ اس سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ ہم ’’ثقافت‘‘ کے تصور کی پرکھ کریں۔ یہ کیا بات ہے کہ تحریری لفظ کو جان بوجھ کر اس تصور سے خارج کیا جاتا ہے۔
اب آپ ذرائع ابلاغ پر نظر ڈالیں۔ آپ عوام کو مذہب کی افیون دے دیں، ان کی توجہ کو حقیقی مسائل سے ہٹا دیں اور اس طرح اپنی سلامتی کو یقینی بنالیں ۔ وہ لوگ جو اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہیں بڑی ہشیاری سے اندازہ لگا چکے ہیں کہ اسطور اور مذہب ہمارے اجتماعی لاشعور پر چھائے ہوئے ہیں۔ پس وہ اس حقیقت کا پوری طرح استحصال کرتے ہیں۔ اور کس قیمت پر؟
اور کیا یہ بھی اسی چالاک منصوبہ بندی کا حصہ نہیں ہے (کیونکہ بعض اوقات ویران صحرا کی وسعت میں اصلی پانی بھی سراب کی طرح نظر آتا ہے) کہ احتجاج کی کسی ممکنہ دھار کو کند کرنے کے لئے کبھی کبھار ادباء کو انعامات سے نواز دیا جائے اور اسطرح ان کے ناراض قلموں کو راضی کرلیا جائے یا سخت رویہ کو نرم کردیا جائے؟
اگر کروڑوں روپے تہواروں پر صرف کئے جاسکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ کتابوں کےفروغ کے لئے تقریباً کچھ بھی نہیں کیا جاتا؟ یہ کیا بات ہے کہ ہمارے ملک میں جس کتاب کے صرف دو ہزار نسخے فروخت ہوجاتے ہیں اسے ہم بہترین بکنے والی کتاب قرار دے دیتے ہیں جبکہ روس میں کسی کتاب کے پچاس ہزار نسخوں سے کم کی طباعت کا تصور بھی نہیں کیا جاتا؟
اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ادیب کو خواہ مقصد سے اس کی کتنی ہی وابستگی کیوں نہ ہو، زندہ رہنے کے لئے دوسرا پیشہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں ’’آپ کیا کرتے ہیں ؟‘‘ ’’میں ادیب ہوں … ’’اچھا، لیکن…‘‘ اور اس ’’لیکن‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی اس سے زندگی کیسے بسر ہوتی ہے؟ کیا یہ جبر کی دوسری شکل نہیں جو سماج ادیب پر مسلط کرتا ہے؟
اگر حکومت لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں تعلیم دے سکتی ہے اور دوسری چیزوں کے بارے میں بھی جو اس کیلئے بہ آسانی کام کرنے میں ممد و معاون ہوسکتی ہیں تو پھر عوام میں خواندگی کی عادت کو فروغ دینے کو ہمارے قومی پروگرام کا حصہ کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟ اور بے حد تشہیر کئے ہوئے سوفیصد شرح خواندگی کا جزو کیوں نہیں بنتا جس کے بارے میں ہم گزشتہ چالیس سال سے بھی زیادہ مدت سے باتیں کررہے ہیں۔ اگر کسی کے پاس یہ عجیب و غریب خیال ہے کہ صرف بڑی لمبی دوڑیں جنہیں فلمی ستارے ٹیلی ویژن پر ترقی دیتے ہیں، قومی یک جہتی پیدا کرسکتی ہیں تو پھر وہ بڑی غلطی پر ہیں ۔ اس قسم کی شعبدہ بازی کے بجائے ہم ہر زبان میں ادب تخلیق کرنے والے اور اسے دوسری زبانوں میں دستیاب کرنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچ سکتے؟ یہ بھی سوچنا چاہئے کہ قومی یکجہتی قائم کرنے کا صرف یہی راستہ ہے لیکن کسی کے پاس اس قسم کی بصیرت نہیں ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ کتابوں سے خائف ہیں۔ کیونکہ کتابیں آپ کی سوچ کو مہمیز لگاتی ہیں، وہ سوال کرنے کی قابلیت کو آپ کے اندر روشن کرتی ہیں۔ موجودہ حکمراں قوتیں اپنے قریب کوئی سوال اٹھانے جانے کو گوارا نہیں کرتیں۔ وہ بنے بنائے جوابات والے سوالات گھڑنے کا حق صرف اپنے پاس رکھنا چاہتی ہیں۔
اگر آپ یہ نتیجہ نکال رہے ہیں کہ میں ادباء کے لئے کسی قسم کی رعایت مانگ رہی ہوں تو یہ بات غلط ہوگی۔ ادیب کوئی ’’بے چارا‘‘ فرد نہیں ہے جو امداد کا طلبگار ہے۔ نہیں۔ وہ تخلیق کار ہے اور کائنات کے مالک کی طرح محسوس کرتا ہے جب کالی داس یا شیکسپئر یا کبیر یا والیٹر یا دانتے حسین و جمیل اور پرشکوہ کائناتیں تخلیق کررہے ہوں تو اس وقت بادشاہوں اور ان کی بیگمات کے نام کو کون یاد رکھتا ہے؟ مغلیہ دربار ختم ہوگیا اور برطانوی سلطنت بھی جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، لیکن غالب اب بھی زندہ ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں قومی اثاثوں کی طرح ادیبوں کا احترام کیا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں ، انہیں بھوکوں مرنے کی نہایت تکلیف دہ سزا دی جاتی ہے۔
(ترجمہ: جمیل آذر)