Inquilab Logo

لکھنا، آج غالب کے دَور سے بھی بڑی سچائی ہے

Updated: March 15, 2020, 3:17 PM IST | Intizar Hussain

جو شخص یہ کہتا ہے کہ آج کچھ نہیں لکھا جارہا ہے، اچھا ادب تقسیم سے پہلے تخلیق ہوگیا اور اچھے شاعر ۱۸۵۷ء سے پہلے گزر گئے، وہ شخص جھوٹا ہے

Book Shop - Pic : INN
کتب خانہ ۔ تصویر : آئی این این

ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں۔ ذاتی منفعت اس معاشرہ کا اصل الاصول بن گئی ہے اور موٹر کار ایک قدر کا مرتبہ حاصل کرچکی ہے۔ جب اصل الاصول ذاتی فائدہ اور منفعت ہوتو دولت کمانے کے آسان نسخوں کے لئے دوڑ دھوپ روحانی جد و جہد کا سا رنگ اختیار کرجاتی ہے۔ عام لوگ موٹر کار کی چابی کی آرزو میں صابن کی ٹکیاں خریدتے ہیں اور معمے حل کرتے ہیں اور اہلِ قلم حضرات انعاموں کی تمنا میں کتابیں لکھتے ہیں۔ جن کے قلم کو زنگ لگ چکا ہے وہ ادب ، زبان اور کلچر کی ترقی کیلئے یا ادیبوں کی بہبود کیلئے ادارے قائم کرتے ہیں اور ادارے والے تو روز افزوں ترقی کرتے ہیں مگر ادب ، زبان اور کلچر دن بدن تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ ادب ، زبان اور کلچر کی ترقی کی کوشش میں زیر آسمان ترقی کی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ستاروں سے آگے کے جہان دریافت کئے جاتے ہیں۔ 
 ایسے عالم میں جو ادیب افسانہ اور شعر لکھتا رہ گیا ہے وہ وقت سے بہت پیچھے ہے ۔ اس کے لئے لکھنا بنفسہ عشق کا امتحان بن جاتا ہے۔ 
 جب سب سچ بول رہے ہوں تو سچ بولنا ایک سیدھا سادا معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے۔ اسے مسلمانوں کی زبان میں شہادت کہتے ہیں اور شہادت اسلامی روایت میں ایک بنیادی اور مطلق قدر کا مرتبہ رکھتی ہے۔ جب ایک معاشرہ تخلیق کے فریضہ کو فریضہ سمجھنا ترک کردے اور اسے ترقی کا ذریعہ سمجھے تو جو شخص اس فریضہ کو ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے وہ گویا شہادت پیش کرتا ہے۔ 
 لفظ خود ایک شہادت ہے ۔ جس انسان نے پہلی مرتبہ لفظ بولا تھا اس نے تخلیق کی تھی پھر یہ تخلیق فعل و عمل میں شیر و شکر ہوگئی اور زبان ایک معاشرتی فعل بن گئی۔ ادب معاشرتی عمل میں پیوست تخلیقی جوہر کی تلاش ہے۔ صدیوں کے قول و عمل، دکھ درد اور خارجی و داخلی مہمات کے وسیلہ سے جو سچائیاں دریافت کی جاتی ہیں اور بعد میں اقدار کہلاتی ہیں،  ان کی کارفرمائی سے معاشرتی عمل تخلیقی عمل بن جاتا ہے۔ جب تک ایک معاشرہ ان اقدار میں ایمان رکھتا ہے اور ان کی بدولت تخلیقی طور پر فعال رہتا ہے اس کا اس تخلیقی عمل کی تلاش پر بھی ایمان رہتا ہے، یعنی ادب بنفسہ اس کیلئے ایک قدر کا اور  ایک عظیم سچائی کا مرتبہ رکھتا ہے۔ شاید اسی لئے میرؔ اور غالبؔ اپنے اپنے زمانے میں ہماری قدروں کے امین بھی تھے اور خود اپنی اپنی جگہ بھی ایک قدر کا مرتبہ رکھتے تھے ۔ان کی عظمت میں کچھ ان کے تخلیقی جوہر کا حصہ ہے اور کچھ اس معاشرہ کے تخلیقی جوہر کا جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔بڑا ادیب فرد کے تخلیقی جوہر اور معاشرہ کے تخلیقی جوہر کے وصال کا حاصل ہوتا ہے۔ بڑا ادیب ہمارے عہد میں پیدا نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ یہ عہد اپنا تخلیقی جوہر کھو بیٹھا ہے اور ان اقدار پر اس کا ایمان برقرار نہیں ہے جو اس کی تاریخ کا حاصل ہیں۔ اسے اپنے تخلیقی جوہر کی تلاش میں بھی کوئی معنی نظر نہیں آتے۔
 آج کا لکھنے والا غالبؔ اور میرؔ نہیں بن سکتا۔ وہ شاعرانہ عظمت اور مقبولیت اس کا مقدر نہیں ہے  اس لئے کہ وہ ایک بہرے، گونگے اور اندھے معاشرہ  میں پیدا ہوا ہے۔ مگر وہ غالبؔ اور میرؔ سے زیادہ اہم فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس لئے کہ وقت نے اسے ایسی قدر کا امین بنا دیا ہے جو اس کی تاریخ کی سب سے اہم قدر ہے۔ آج لکھنا شہادت کا مرتبہ رکھتا ہے۔ لکھنا آج اُس ایمان کا اعادہ ہے کہ موٹر کار حاصل کرنے کی چیٹک (لگن، شوق) سے بھی زیادہ اہم کوئی چیٹک ہے۔ شعر اور افسانہ بے شک معاشرتی سطح پر معنی کھو بیٹھیں اس کے باوجود ایک سنجیدہ بلکہ مقدس مشغلہ ہیں۔ لکھنا آج غالبؔ کے زمانے سے بھی بڑی سچائی ہے۔ اس لئے کہ آج کا جھوٹ غالبؔ کے زمانے کے جھوٹ سے زیادہ سنگین ہے۔ اُس جھوٹ کو غیر قوم کی حاکمیت نے پیدا کیا تھا۔ یہ جھوٹ ہم نے آپس میں جھوٹ بول کر اپنی کوکھ سے جنا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ آج کچھ نہیں لکھا جارہا ہے، اچھا ادب تقسیم سے پہلے تخلیق ہوگیا اور اچھے شاعر ۱۸۵۷ء سے پہلے گزر گئے وہ شخص جھوٹا ہے۔ وہ اس لئے جھوٹا ہے کہ یہ کہہ کر وہ آج کے ادب یعنی آج کے جھوٹ اور سچ سے آنکھ چرانا چاہتا ہے۔ نقاد اور پروفیسر اور تہذیبی اداروں کے سربراہ جھوٹ بولتے رہیں لیکن اگر کوئی ایسی سبھا ہے جہاں جیتے جاگتے ادیب بیٹھتے ہیں تو اس کا درد سر اولاً آج کا ادب ہونا چاہئے۔ اگر آج کی تحریر کے کوئی معنی ہیں تو میرؔ اور غالبؔ کی شاعری کے بھی کوئی معنی ہیں۔ آج کچھ نہیں لکھا جارہا ہے یا بے معنی لکھا جارہا ہے تو پھر میرؔاور غالب ؔکے معنی بھی کتنے دن باقی رہیں گے؟ مگر آج لکھنا کیا معنی رکھتا ہے۔ آج کا ادب اگر وہ صحیح اور سچے معنوں میں آج کا ادب ہے تو وہ آج کے چالو‘ معاشرتی معیارات کا ترجمان نہیں ہوسکتا۔ وہ تو اس قدر کو واپس لانے کی کوشش ہوگی جسے ہمارا معاشرہ گم کر بیٹھا ہے۔ آج کا ادب معاشرہ کا نہیں تاریخ کا ترجمان ہے۔ گویا اس کے وسیلہ سے نہ آپ خازن بن سکتے ہیں ، نہ آپ کو موٹر کار نصیب ہوسکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادیبوں کی تو اتنی بہتات ہے کہ پانچ سو تک گنتی پہنچ گئی ہے مگر لکھنے والا اکیلا رہ گیا ہے۔ زمانے کی قسم آج کا لکھنے والا خسارے میں ہے اور بے شک ادب کی نجات اسی خسارے میں ہے۔ یہ خسارہ ہماری ادبی روایت کی مقدس امانت ہے۔ (’علامتوں کا زوال ‘ میں مضمون ’لکھنا آج کے زمانے میں‘ کا ایک حصہ

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK