Inquilab Logo

نوجوانو! احتجاجی جلسے جلوس اور سوشل میڈیا پوسٹ کے بجائے کوئی مستقل اور حقیقی حل کے بارے میں سوچو

Updated: October 29, 2023, 12:33 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل۔ فلسطین (یا حماس) کے درمیان جو ہولناک جنگ جاری ہے، اُس سے دنیا کی سیاست، معیشت و معاشرت بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔

The demand of the time is that one child from each of our homes should go to science, he should be dedicated to science research. Even if it is only one meal, but one child from each of our homes should be dedicated to science. Photo: INN
وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارےہر گھر سے ایک بچّہ سائنس میں جائے، اُسے سائنس کی تحقیق کیلئے وقف کیا جائے۔ خواہ ایک وقت ہی کھانا کھائیں مگر لازمی طور پر ہمارے ہر گھر سے ایک بچّہ سائنس کیلئے وقف کیا جانا چاہئے۔ تصویر:آئی این این

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل۔ فلسطین (یا حماس) کے درمیان جو ہولناک جنگ جاری ہے، اُس سے دنیا کی سیاست، معیشت و معاشرت بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔ وحشیانہ بمباری، انسانیت سوز مظالم،تڑپتے سسکتے لوگ، دوا، کھانااور پانی کیلئے دم توڑتے بچّے ، یہ سارے ہولناک مناظر دیکھ دیکھ کر ہر سُو غم و غصّہ اُبل رہا ہے۔ اِن حالات میں اس ملک کے ہماری قوم کے نوجوان کیا کریں ؟ ہم آج صرف اس ملک کے ہمارے نوجوانوں کیلئے لائحہ عمل کیوں طے کر رہے ہیں ؟ وجہ ظاہر ہے اور ہم بارہا اِن کالموں میں لکھ چکے ہیں کہ جغرافیائی لکیریں کافی طاقتور( اورکبھی کبھی بڑی ظالم بھی) ہوتی ہیں ۔ہم جذباتی طور پر اِن لکیروں وسرحدوں کے پار سوچیں البتہ ہم اربابِ حکومت کے ہاتھوں مجبورہوتے ہیں۔ 
فلسطین مسئلے کی حقیقت :
 نوجوانو! اسرائیل، فلسطین کے درمیان تصادم کی تاریخ سے اب تک آپ واقف ہو ہی گئے ہوں گے۔ مختصراً وہ یہ ہے کہ لگ بھگ ۷۵؍سال قبل جب یہودیوں کیلئے ساری دنیا میں زمین تنگ ہوگئی تھی اور اکیلے ہٹلر نے ۶۰؍لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا تھا تب آج کی عالمی طاقتیں بھی انھیں پناہ نہیں دے رہی تھیں ، اُس وقت وہ فلسطین میں پناہ گزیں ہوگئے اور پھر آہستہ آہستہ اُس ملک پر قبضہ کرتے گئے، کچھ اس حد تک کہ فلسطین نام کا ملک ہی نقشے سے غائب ہوگیا۔ مزاحمت میں ۱۹۴۶ء سے اب تک کی ۴؍ جنگیں ہوئیں مگر ہر بار اسرائیل جیتتا اور مضبوط ہوتا گیا۔
مقابلہ کیسے ہوتا ہے:
اگلے وقتوں میں جب جنگیں تلوار اور بھالے سے ہواکرتی تھیں ، اُس دَور میں انہی ہتھیاروں کا ذخیرہ کیا جاتا تھا، کبھی خندقیں کھودی جاتیں اور کبھی سرنگیں ۔ پھر توپوں کا زمانہ آگیا، رائفل، بندوق، بم، ہائیڈروجن بم، نیوکلیئر بم، آرڈی ایکس، اسکڈ میزائیل، پیٹرائٹ میزائیل اینٹی پلاسٹک میزائیل، کروز میزائیل، راکٹ، زہریلی گیس اور کیمیکل ہتھیار وغیرہ۔ 
 نوجوانو! جنگ بہر حال صرف تباہی ہی لے کر آتی ہے البتہ ایک تو طے ہے کہ جس کے پاس ساری ٹیکنالوجی سے لیس جتنے جدید اسلحہ ہتھیار ہوں گے، جنگ وہی جیتے گا، اسلئے ہر ملک کے پاس (حملہ کرنے کیلئے نہیں البتہ) اپنا دفاع کرنے کیلئے جدید ترین ہتھیار ہونے ہی چاہئیں ۔ فلسطین، اسرائیل تنازع کی مختصر کہانی صرف یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس تمام تر ٹیکنالوجی سے لیس جدید ترین ہتھیار اور میزائیل موجود ہیں اور مسلم ممالک کے پاس نہیں ہیں ۔ اپنے دفاع کیلئے یہ ممالک اگر کبھی میزائیل اور راکٹ استعمال کرتے بھی ہیں تو اسرائیل ہی کے آقا امریکہ، فرانس اور برطانیہ سے خریدے ہوئے۔ اپنے پیٹرول کے عوض وہ جدید ہتھیار خریدتے بھی ہیں مگر اُن کو چلانے یا درستگی کی مہارت بھی اُن میں نہیں ہے۔
اصل ماجرا کیا ہے؟
 اسرائیل غاصب ہے، امریکہ اور اُس کے حواری پہلی جنگ عظیم سے لے کر ہر جنگ اور ہر خانہ جنگی میں ملوث رہے ہیں۔ اپنی برتری ثابت کرنے وہ بستیاں کی بستیاں بے چراغ کرتے آتے ہیں۔ نیوکلیائی ہتھیاروں سے ہیرو شیما ناگاساکی میں انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح ہلاک کرنے میں بھی اُنھیں کوئی افسوس نہیں ہوا۔ آج دنیا بھرمیں ۵۷؍ مسلم ممالک ہیں۔ وہ سبھی مل کر امریکہ سے مقابلہ کرنا تو درکنار، اسرائیل کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ وجہ صرف ایک ہی ہے کہ موجودہ دَور میں لڑی جانے والی جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار اُن کے پاس نہیں ہیں۔ خوب خوب دولت ہے اِن مسلم ممالک میں مگر ٹیکنالوجی اور سائنس میں وہ سارے ممالک ہی کہلائیں گے۔ وہاں کے شاہوں کو اپنے ذاتی دفاع کیلئے بھی تیل کے کنویں اِن مغربی ممالک کے حوالے کرنے پڑتے ہیں۔ 
 علم اور تعلیم کی صورتحال بھی دیکھ لیجئے۔ دنیا بھر میں یہودیوں آبادی صرف اعشاریہ ۲؍ فیصد ہے البتہ فزکس کا نوبل انعام حاصل کرنے والے یہودی سائنسدانوں کی تعداد۵۶؍ہے (یعنی اب تک کے انعام یافتگان کا ۲۵؍فیصد)۔ مسلمانوں کی آبادی ۱۸۰؍کروڑ ہے یعنی دنیا کی آبادی کا ۲۴؍فیصد البتہ فزکس کا نوبل انعام اب تک صرف ایک مسلمان نے حاصل کیا ہے۔ فزکس، کیمسٹری، سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت ہی طے کرتی ہے کہ کون جنگ جیتے گا۔
نوجوانو! اسرائیل غاصب ہے، ظالم ہے مگر ساری ٹیکنالوجی سے لیس جدید ترین ہتھیار اور اُنھیں چلانے کا نالج اور پوری تحقیق اُن کے پاس ہے۔ اسلئے وہ ظالم ہوتے ہوئے بھی جنگ جیتتا ہے اور شاید جیتتا ہی رہے گا۔ ہاں اِن ۵۷؍مسلم ممالک میں سے ایک ملک نیوکلیائی طاقت بھی ہے مگر اس کی معیشت صفر ہے بلکہ صفر سے بھی کم۔ ایک امریکی ڈالر اس ملک کے ۳۰۰؍روپوں کے برابر ہے۔ وہاں پیٹرول ۳۰۰؍روپے لیٹر ہے۔ نوجوانو! ٹیکنالوجی اور معاشیات کی ایک صدی کی غفلت مسلم ممالک کو کہاں لے آئی ہے۔ جہاں تک معیشت کا تعلق ہے، اس کے جواز میں ہمارے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مغربی اور صہیونی طاقتوں نے جو معاشی ترقی کی ہے وہ سُودی نظام کو وجہ سے کی ہے۔ یہ جواز اور جواب کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے۔ سچ تویہ ہے کہ ہم غیر سودی نظام سے بھی ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔ اسلئے بھی کہ ہمیں اور صرف ہمیں یہ کہا گیاہے کہ سود اللہ کے خلاف جنگ ہے۔ اس طرح ہمیں یہ ’ہوم ورک‘ یعنی ذمہ داری اللہ نے دی ہے کہ ہم ایک کامیاب غیر سودی نظام قائم کریں۔ سائنس، جدید ٹیکنالوجی اور معاشیات کے محاذ پر مسلم ممالک بے عملی اور بے حِسی کا شکار ہیں اور اسلئے گزشتہ ۷۵؍برسوں تک کئی قیامت صغریٰ سے گزرنے کے باوجود اُن کی کبھی غیرت نہیں جاگی۔ کچھ دنوں بعد یہ کمبل، کپڑے ، دوائیاں اور کفن بانٹنے کیلئے اپنے اپنے محلوں سے نکلیں گے۔
ہمارے نام نہادلیڈران :
 جنگ، انتشار اور عالمی بحران کے دور میں اکثر ہمارے نوجوانوں کو بہکا یا جاتاہے۔ اِن حالات میں ہمارے بڑوں میں شمار کچھ لوگ اپنے نوجوانوں کا استحصال کرتے ہیں اور وہی آج بھی ہورہا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کوفلک شگاف نعرے لگانے،مورچے نکالنے اور احتجاجی جلسوں میں حصہ لینے کیلئے جمع کیا جاتا ہے۔ پھر یہ دعوے کئے جاتے ہیں کہ اُن کا مورچہ پانچ کلومیٹر طویل تھا، کسی کا سات کلومیٹر اور کوئی دس کلومیٹر کا دعویٰ کرتا ہے۔ دس ہزار پلے کارڈ، پانچ ہزار پوسٹرس، دوہزار بینر وغیرہ۔
 ۷۵؍برسوں سے یہی ہورہا ہے۔ وہ سارے مورچے، جلسے، جلوس بی بی سی اور سی این این پر بھی لائیو دکھائے جاتے ہیں مگر ظالم و غاصب اسرائیل اور امریکہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ایک بچّہ سائنس کو دیں :
 ہمارے چند لوگ ہمیشہ اتفاقات کی آس میں جیتے ہیں ۔ گزشتہ ۷؍ دہائیوں سے فلسطینی بچّے ہر رائفل اور میزائیل کا مقابلہ صرف پتھروں سے کر رہے ہیں ۔ہمارے اکابرسوچتے رہتے ہیں کہ کاش ہمارے بچّے غلیل سے میزائیل گرائیں یا ہمیں ابابلیں بچانے آجائیں (ہمارے اعمال اس درجہ کے ہوں گے تو ابابلیں بھی بچانے آئیں گے)۔ نوجوانو! ہم آج اس کا قدرے طویل مدتی حل پیش کر رہے ہیں۔ ہماری قوم کے ہر گھر سے ایک بچّہ ہم سائنس کو دیں ، اُسے صرف سائنس کی تحقیق کیلئے وقف کردیں ۔ چاہے ایک وقت ہی کھانا کھائیں مگر لازمی طور پر ہمارے ہر گھر سے ایک بچّہ سائنس کیلئے وقف کیا جانا چاہئے۔ جدید ٹیکنالوجی میں وہ مہارت حاصل کریں۔ قدرت نے سارے مسلم ممالک کو من و سلویٰ سے نوازا ہے۔ اُن سارے ممالک کی ہزروں میل زمین کی تہہ میں معدنی تیل اور قدرتی گیس کے خزانے عطا کئے ہیں۔ وہ تیل ہمارے ملکوں کو صاف کرنے بھی نہیں آتا۔ سائنس اور جدیدٹیکنالوجی کیلئے وقف ہمارے نوجوان پیٹرولیم ٹیکنالوجی میں بھی مہارت حاصل کرکے مسلم ممالک کو خود کفیل بنائیں گے۔ منصوبہ طویل مدتی ہے، شاید دو تین دہائیوں کے بعد اس کے نتیجے ملیں گے، مگر ۵۷؍مسلم ممالک ایک ملک کے سامنے صرف رینگ رہے ہیں۔ اس مسلسل اذیت سے تو نجات ملے گی ان شاء اللہ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK