زندگی سے محبت کرنے والے اپنی زندگی میں غیر متوقع حادثات یا واقعات سے ہار نہیں مانتے بلکہ انہیں زندگی کا ایک حصہّ سمجھ کر راستہ نکال لیتے ہیں اور اپنی زندگی کی لغت میں مشکل لفظ کو چیلنج پڑھتے ہیں
EPAPER
Updated: June 07, 2023, 4:26 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
زندگی سے محبت کرنے والے اپنی زندگی میں غیر متوقع حادثات یا واقعات سے ہار نہیں مانتے بلکہ انہیں زندگی کا ایک حصہّ سمجھ کر راستہ نکال لیتے ہیں اور اپنی زندگی کی لغت میں مشکل لفظ کو چیلنج پڑھتے ہیں
ہزاروںصفحات کی ضخیم کتابیں پڑھنے والے اور تحقیقی مقالے تحریر کرنے والے ہمارے طلبہ کو ہماری پہلی نصیحت یہ ہے کہ وہ زندگی کا مطالعہ کریں اور آفاقی کتب سے استفادہ کریں۔ اسلام میں دنیاوی دولت کے ’موہ‘ کو ناپسند قراردیا گیا ہے البتہ اِس دین میں رہبانیت اور زندگی سے نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیںہے ۔ دنیاوی اُمور سے منہ موڑ کر زندگی کے دن جوں توں کرکے گزارنا یاصرف موت کی تمنّا کرتے رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس زندگی کے بعد کی سب سے بڑی حقیقت یعنی آخرت میں ساری نعمتوں اور بخششوں کا دارومدار صرف اور صرف اس دنیاوی زندگی کی کارکردگی پر ہے۔ نوجوانو! اب بھلا کوئی کیوں کر اس دنیاوی زندگی اور اس کے تقاضوں کو نظر انداز کرسکتا ہے؟ اس دنیا کی ثروت، شہرت و دولت کے حصول پر جان چھڑکنا کسی کی زندگی کا نصب العین نہیں ہونا چا ہئےکیونکہ اسی سے حرص، ہوس، حسد و جلن اور سازشوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے البتہ اللہ نے جو قیمتی زندگی انسان کو عطا کی ہے اس کی قدر، اس کو گزارنے کیلئے کچھ اصول و ضوابط تو بہر حال ضروری ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم زندگی سے پیار کریں۔ اس کے برعکس اگر ہم زندگی سے نفرت کرتے ہیں تو سراسر گھاٹے میں رہیں گے، نیز آخرت کیلئے ہم اس دنیا میں جو رِپورٹ کارڈ تیار کر رہے ہیں وہ بھی بگڑ جائے گا۔ اسی بناء پر آج ہمارا روئے سخن ان طلبہ اور نو جوانوں سے ہے جو ہمیشہ مایوسی کی چادر اوڑھے رہتے ہیں، کسی نا کامی پر وہ ہمت تو کرتے ہیں مگر زندگی و زمانے سے مقابلے کی نہیں بلکہ موت کو گلے لگانے کی۔ انہیں ہم بتانا چاہیں گے کہ زندگی سے پیار کرنے میں کیا جادو ہے:
زندگی شناسی: زندگی سے حقیقی پیار کرنے والا شخص جانتا اور مانتا ہے کہ یہ زندگی واقعی مختصر ہے۔ اتنی عام سی بات البتہ ان کی سمجھ میں نہیں آتی جو زندگی کو نہیں چاہتے۔ زندگی کو چاہنے والے ہر لمحے کو قیمتی رکھتے ہیں۔ وہ اس بنیادی حقیقت کو بھی مانتے ہیں کہ یہ زندگی ایک آزمائش یا امتحان ہے اسلئے پر چہ تو لکھنا ہوگا اور اس میں کار کردگی پر رزلٹ آئے گا اسلئے وہ زندگی سے فرار کا راستہ تلاش نہیں کرتے۔
منظّم :زندگی سے پیار کرنے والا بہت منظم ہوتا ہے۔ اپنی زندگی میں نظم پیدا کرنے کیلئے تھوڑے وقت اور تھوڑی انر جی کو صَرف کرتا بلکہ سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اس تھوڑی سی سرمایہ کاری کی بناء پر اسے زندگی گزارنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ زندگی برتنے کے اس کے اس نظم و ضبط یا ڈسپلن کی بناء پر وہ ذہنی تناؤ کا شکار نہیں ہوتا نیز اُسے ہمیشہ سکون قلب حاصل رہتا ہے۔ اس کے برعکس زندگی سے نفرت کرنے والا اپنی زندگی میں غیر منظم ہوتا ہے اسلئے وہ ہمیشہ ہڑبڑاہٹ، بوکھلاہٹ اور اکتاہٹ کا شکار رہتا ہے۔
وقت کاقدردان: زندگی سے محبت کرنے والا وقت کا بڑا قدردان ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وقت کی بے قدری زندگی کی بے قدری ہے۔ اس میں یہ سمجھنے کی بصیرت بھی ہوتی ہے کہ یہ جو دن، مہینے اور سال تبدیل ہورہے ہیں، اس میں جشن کی کوئی بات نہیں۔
مثبت سوچ کا حامل : زندگی سے محبت کرنے والے مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ نفرت کرنے والے ہر قسم کی منفی فکر کو اپنے او پر لا دے رہتے ہیں۔ یہ منفی سوچ اسے کئی نفسیاتی بیماریوں کا شکار بنادیتی ہے جس سے وہ زندگی کے بجائے موت کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔ منفی سوچ کا حامل شخص ہر کسی کی کمزوریوں اور عیوب پر نظر رکھتا ہے لہٰذا اسے ہر شخص سے نفرت ہو جاتی ہے۔ یہ ساری نفرتیں اس کی زندگی کا ایک حصہّ بن جاتی ہے۔ اِن نفرتوں سے چھٹکارا پانے کیلئے ضروری قوّت ارادی اس کے پاس نہیں ہوتی،اسلئے وہ زندگی کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔
بے لوث :زندگی سے محبت کرنے والے صرف اپنے لئے نہیں جیتے۔ وہ یہ مان کر چلتے ہیں کہ ان کی زندگی ، ان کے وسائل اور ان کی صلاحیتوں پر دوسروں کا بھی حق ہے اسلئے زندگی سے فرار حاصل کرنے کے منفی خیال جب بھی ان کے ذہن میں اُبھرتے ہیں تب وہ اپنے گھر والوں کے بارے میں سوچتے ہیں ، انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کے وہ دوست و احباب جو اُن سے مستفیض ہوتےہیں، ان کا کیا ہوگا؟ خدا نے انہیں جو علم دیا ہے، اسے دوسروں تک بانٹے بغیر اگر وہ دنیا سے رخصت ہوگئے تو وہ رب کو کیا جواب دیں گے؟
ثا بت قدم : زندگی سے محبت کرنے والے اپنے جذبات پر قابورکھنا جانتے ہیں۔ انہیں کوئی بھی اشتعال دلانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ کسی کی بیہودہ حرکتوں (جیسے تضحیک آمیز کارٹون ) اذیّت ناک باتیں (ان کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالنا ) نسل وذات پر ہونے والی دشنام طرازی (جیسے تعلیمی کیمپس کی ریگنگ) ذہنی ٹارچر ( بصورت طعنے و فقرے )وغیرہ سے وہ مشتعل ہونا در کنار متاثر تک نہیں ہوتے۔ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ان ساری شرانگیزیوں سے متعلق سوچنے کیلئے بھی ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ زندگی کے سارے معاملات میں ثابت قدم ثابت ہونے والے یہ افرادزندگی سے منہ موڑنے کا کبھی کوئی ارادہ نہیں کرتے۔
خود پسندی سے دُوری : عام طور پرانسان کی یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ توجہ چاہتا ہے۔ کچھ لوگوں میں یہ مادہ کم اور کچھ میںزیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔ توجہ حاصل کرنے کیلئے وہ اوٹ پٹانگ حرکتیں بھی کرتا ہے۔ توجہ حاصل کرنے کا بھوت اس کے سر پر کچھ ایسا سوار رہتا ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی موت بھی ہر طرف گفتگو کا موضوع بن جائے۔ یہ جنون سیاستدانوں میں زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔ وہ تو اپنا مرثیہ بھی اپنے جیتے جی لکھوانا چاہتے ہیں تاکہ وہ یہ دیکھیں کہ کون کون ان کا مرثیہ لکھنے کیلئے تیار ہے؟ ان کا بس چلے تو وہ اپنی موت کی خبر اور ان پر مضامین جیتے جی ہی چھپوا لیں کہ ان کی موت پر دوسرے روز اُن کی کمی کون محسوس کرتا ہے؟ یاد رکھیں کہ زندگی سے پیار کرنے والے خوش باش و خوش و خرّم لوگ ہی مرکزِ نگاہ، جانِ محفل اور توجہّ کا مرکز ہوتے ہیں۔
حیات آفریں: زندگی سے محبت کرنے والے شراب، سگریٹ اور دیگر نشہ آور اشیا سے اپنے آپ کو اس لئے بچاتے ہیں کہ یہ سب حیات کش اشیاء ہیں اسی طرح سے وہ حسد اور بغض سے بھی دُور رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ نفسیاتی بیماریاں بھی ان کو موت سے قریب لے جاتی ہیں۔
صالح صحبت کا پاسدار : زندگی سے محبت کرنے والے ہمیشہ یہ جانتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کیلئے کتنے ہی اصول وضوابط مرتّب کریں اور کتنی ہی محنت و محبت سے ان پر عمل پیرا ہوں البتہ اگر وہ منفی سوچ وفکر رکھنے والے افراد کے ربط میں اور ان کی صحبت میں آگئے تو ان کے سارے اصول دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اسلئے وہ ایسے لوگوں کو دوست نہیں بناتے جو زندگی کی بے قدری کرتے ہیں یا جو یاسیت اور مایوسی کا لبادہ اوڑھے رہتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کو دوست بناتے ہیں جن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ انسان کو ہر حال میں اپنی جدّ و جہد جاری رکھنی ہے۔
ہار کو بھی جھیلنے والا :زندگی سے محبت کرنے والے اپنی زندگی میں غیر متوقع حادثات یا واقعات سے ہار نہیں مانتے بلکہ انہیں زندگی کا ایک حصہّ سمجھ کر راستہ نکال لیتے ہیں۔ اپنی زندگی کی لغت میں مشکل لفظ کو وہ چیلنج پڑھتے ہیں۔ ان جیسے افراد کو اسکول کے زمانے ہی سے صرف فتح کا جشن منانا نہیں سکھا یا جاتا بلکہ بڑی سے بڑی شکست کو بھی خوش اسلوبی سے جھیلنے کی تربیت دی جاتی ہے۔
نوجوانو! دیکھا آپ نے اللہ کی دی ہوئی قیمتی شہ یعنی زندگی سے حقیقی محبت کرنے والے معتدل اور پُر سکون زندگی گزارتے ہیں اسلئے وہ غیر فطری موت کا تصوّر بھی نہیں کرتے اور مایوسی ، ذہنی انتشار و فرسٹریشن کا شکار ہوکر اپنی زندگی کو جہنم بھی نہی بناتے