• Sat, 14 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

گوشۂ بزرگاں:’’ شیر کی شکل میں موت کو سامنے دیکھ کر سب کے اوسان خطا ہوگئے تھے‘‘

Updated: October 01, 2023, 2:23 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

آگری پاڑہ کی ۷۶؍ سالہ زہرہ محمد ہاشم مومن کا گھر انسانوں کے ساتھ جانوروںاور پرندوں کی قیام گاہ ہے۔ ان کے گھر میں طوطے ، مچھلیاں، پرندے ، چڑیا اور گلہری وغیرہ کو دیکھ کرچھوٹے چڑیا گھر کا گمان ہوتاہے۔

Zahra Muhammad Hashim Momin. Photo. INN
زہرہ محمد ہاشم مومن۔ تصویر:آئی این این

سانکلی اسٹریٹ جنکشن پر واقع بابا سرو ر لائبریری کے نگراں صابر انصاری نے لائبریری کے ۲؍ سالہ قیام سے متعلق گزشتہ دنوں ہونے والی تقریب کی رپورٹ کی اشاعت کے سلسلےمیں فون کیا۔ دوران ِ گفتگو اس کالم پر بات چیت ہونے لگی ۔ صابر بھائی نے بتایا کہ ان کی نظر میں متعدد ایسے سن رسیدہ افراد ہیں جن کی عمر ۷۵؍ سال سے تجاویز کرچکی ہے۔ جن میں میری ۷۶؍ سالہ بڑی بہن زہر ہ محمد ہاشم مومن بھی شامل ہیں ۔ کالم نگار کی درخواست پر انہوں نے بہن سے ملاقات کا وقت طے کیا ۔ مقررہ وقت پر آگری پاڑہ ، فینسی مارکیٹ کےالریان ٹاور کی ۱۰؍ ویں منزل پر پہنچ کرہم نے زہرہ ہاشم مومن کے فلیٹ کی گھنٹی بجائی ، فوراً ایک عمررسیدہ خاتون نےدروازہ کھول کر ہمارا پُر تپاک استقبال کیا۔ یہی زہرہ ہاشم مومن تھیں۔
انہیں دیکھتے ہی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ پیرانہ سالی کےباوجود وہ چاق وچوبند ہیں۔ ان کی عمر ۷۶؍سال ضرور ہے لیکن شخصیت اور فعالیت کے اعتبار سے وہ اپنی عمر سے کم دکھائی دے رہی تھیں۔ 
فلیٹ میں ایک بڑے سے پنجرے میں قید ۲؍ طوطے اور دوسری جانب ۲؍ بڑے سے فش ٹینک پر نظر پڑتے ہی گھر والوں کےپرندوں اور جانوروں کے شوقین ہونے کااندازہ ہوا ۔ ہال کے ایک گوشہ میں ایک عمررسیدہ شخص بیٹھے دکھائی دیئے۔ جس طرح انہوں نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تھا ، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہو اکہ فالج کے سبب اس طرح کی کیفیت ہے ۔ ہال کے ایک حصہ میں سلیقے سے بچھی در ی پر ہم سب بیٹھے۔ یہاں سےزہرہ مومن کی زندگی پر دلچسپ اور معلوماتی گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا۔
مدنپورہ ، محمد عمر رجب روڈ ، بیت کی چال کی ۷۶؍ سالہ زہرہ محمد ہاشم مومن کی پیدائش ۱۴؍ نومبر ۱۹۴۶ء کو کامااسپتال ( سی ایس ایم ٹی ) میں ہوئی ۔ انجمن اسلام سیف طیب جی اُردو گرلز ہائی اسکول بیلاسس روڈ سے ۱۹۶۸ء میں ایس ایس سی پاس کیا ۔ ہلائی میمن جماعت خانہ سے ایک سال کا سلائی کورس کرنے کے بعد امام باڑہ کالج سے ڈی ایڈ کرکے مجگائوں کے پرنس علی خان میں ایک سال ملازمت کی ۔ اسی دوران بی ایم سی اسکول میں ٹیچرکی ملازمت کیلئے کی گئی درخواست کامثبت جواب آنے پر، ۱۹۷۱ء میں گھاٹ کوپر کی مانک لال اُردو میونسپل اسکول میں بحیثیت معلمہ تقرری ہوئی ۔ بعدازیں بوہری محلہ، یعقوب اسٹریٹ (جے جے جنکشن)، پریل، مدنپورہ اور وڈالا کی میونسپل اُردو اسکولوں میں تدریسی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے بحیثیت ڈپٹی ہیڈمسٹریس ملازمت سے سبکدوش ہوئیں ۔ ان کی چلت پھرت عالم یہ ہےکہ آج بھی اُمورخانہ داری کےساتھ بازار اور بینک وغیرہ کا کام کرنے خودہی جاتی ہیں۔ بقیہ وقت عبادت اور تلاوت قرآن پاک میں گزرتا ہے۔ 
 زہرہ مومن کی زندگی کے اہم اور خوفناک واقعات میں بابری مسجد کے بعد پورے ملک میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات ہیں ۔جس سے ممبئی بھی بری طرح متاثر ہوا تھا ۔ مدنپورہ کے ایک یتیم خانہ سے نہ معلوم کیوں پولیس ۲۰۔۲۵؍ بچوں کو پکڑکر لے جا رہی تھی ۔ جس سے یہاں کے مکینوں میں بڑی بے چینی پائی جارہی تھی ۔پولیس کے خوف سے مردو ں کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دیا جا رہا تھا ۔ ایسے میں ان بچوں کو بچانے کیلئے عورتوں کا ایک قافلہ گھر سے باہر نکلا تھا ، جس میں زہرہ مومن بھی شامل تھیں ۔ پولیس سے بچوں کو لے جانےکی وجہ دریافت کی گئی ۔ اطمینان بخش جواب نہ ملنے پر عورتیں اسی جگہ دھر نا دے کربیٹھ گئی تھیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کو نہیں لے جانے دیں گی ۔ عورتوں کامظاہرہ رنگ لایا ۔ ڈی سی پی اور چند بااثر مقامی افراد کی میٹنگ کے بعد پولیس نے بچوں کو چھوڑ دیا ۔ علاوہ ازیں مولانا آزار روڈ ،سالویشن آرمی کے قریب ایک ۱۲؍ سالہ لڑکےکو پولیس کی گولی کا نشانہ بنتے اور جگہ پر دم توڑتے دیکھ کر زہرہ مومن تڑپ اُٹھیں ۔اس بچے کے ذکر پر زہرہ مومن کی آنکھوں سے نکلنے والےآنسو ان کی دردمندی کے غماز تھے۔
 لطف کی بات یہ ہےکہ زہرہ مومن کاگھر ایک مختصر چڑیا گھر کی حیثیت رکھتاہے۔ ایک ۲؍ منزلہ بڑے پنجرے میں ۲؍ طوطےالگ الگ منزل پر قیام پزیر ہیں ۔ ایک کی عمر ۳۳؍ اور دوسرے کی ۲۰؍ سال ہوگئی ہے ۔ یہ دونوں ہی طوطے بہت چھوٹے تھے جب انہیں زہرہ مومن کےبیٹے ندیم نےپالنے کیلئے خریدا تھا ۔ اسی طرح ۲؍بڑے فش ٹینک میں سے ایک میں رنگ برنگی چھوٹی اور دوسرے میں بڑی مچھلیاں تیرتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں ۔ علاوہ ازیں دیگر ۳؍ درمیانی پنجروں میں گلہری ،لوبرڈ اور کوکٹیل نامی پرندوں کی چہچہا رہےتھے ۔ بلیاں اور کیچوا بھی کبھی اس گھر کا حصہ ہوا کرتے تھے ۔ ’’چڑیا گھر ‘‘ کےبابت پوچھنے پر معلوم ہواکہ یہ ندیم کاشوق ہے،مگر گھر کے دیگر افراد میں بھی مچھلیوں اورپرندوں کی محبت پیداہوگئی ہے۔
 زہر ہ مومن نے مدنپورہ کے صفرابادی اسکول میں سب سے زیادہ ۱۱؍سال ملازمت کی تھی ۔اس دوران ہونے والاایک خطرناک واقعہ انہیں اب بھی یاد ہے ۔ جاری کلاس کے دوران ، ایک ساتھی معلمہ ، زہرہ مومن سے کہہ کرگئیں کہ ابھی آتی ہوں ،کلاس کا خیال رکھنا ۔معلمہ کے جاتے ہی نہ معلوم کب اور کیسے ۲؍ طالب علم آپس میں لڑ پڑے ۔ غصہ میں ایک نے دوسرے کے ہاتھ کے پنجے کے قریب بلیڈ سے ایساحملہ کیاکہ اس طالب علم کی رگ کٹ گئی ۔ اب کیاتھا، خون فوارے کی طرح بہنے لگا۔ اسی دوران دونوں طالب علم کے گھر والے آ گئے ۔ اسکول میں شور وہنگامہ ہونے لگا ۔ والدین سمجھنے کو تیار نہیں تھے ۔ زخمی بچے کو سرکاری اسپتال لے جانے پر پولیس کیس ہونے کا خطرہ تھا جبکہ علاقے کے ڈاکٹروں نے علاج کرنے سے صاف منع کر دیا ۔ ایسے میں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے ۔ زہرہ مومن کے تعلقات تاردیو کے ڈاکٹر مالپانی سے تھے ۔ وہ زخمی طالب علم کو ان کے پاس لے گئیں ۔ ڈاکٹر نے زہرہ مومن کی درخواست پر بچے کو ٹانکا وغیرہ لگایا ۔ بعدازیں اس کے مزید علاج کی بھی ذمہ داری انہوں نے اُٹھائی ۔ لیکن اس حادثہ کی وجہ سے ہونے والی پریشانی اور کوفت کےبارےمیں سوچ کر ان کی حا لت اب بھی خراب ہو جاتی ہے ۔ وہ طالب علم آج بھی جب کبھی مدنپورہ میں زہرہ مومن سے روبرو ہوتا ہے تو’’ٹیچر سلام‘‘کہہ کر ہی آگے بڑھتا ہے۔‘‘
 زہرہ مومن کو بچپن سے سیر وتفریح کا شوق رہاہے۔ اسکولی زمانے میں ہرسال چھٹی ملنے پر نانا نانی کے ساتھ کسی تفریحی مقام پر ضرور جاتی تھیں ۔ ان دوروں سے متعدد یادیں جڑی ہیں ۔ لیکن ۱۳؍سال کی عمر میں نانی اور اپنے ۲؍ بھائیوں کے ساتھ مائونٹ آبو کادورہ خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اس دورہ میں موت کو قریب سے دیکھنے کا منظر وہ نہیں بھولتی ہیں ۔ یہاں قیام کے دوران ایک دن نانی اور بھائیوں کے ساتھ پیدل منکی پوائنٹ جاتے ہوئے ،اچانک شیرکا سامنے آنا اور شیر کو دیکھ کر پھسل کر گرجانے والے واقعہ کے بارے میں سوچ کروہ خوفزدہ ہو جاتی ہیں ۔ دراصل یہ لوگ پیدل جا رہے تھے ۔ اچانک ان سب کی نظر ۱۵؍فٹ کی دوری پر کھڑے شیرپر پڑی تو سب رُک گئے لیکن خوف سے زہر ہ مومن پھسل کر گر گئیں ۔سب کی حالت غیر ہوگئی تھی ۔ شیر کی شکل میں موت کو سامنے دیکھ کر سب کے اوسان خطا ہوگئے تھے ۔ ایسے میں ان کی نانی نے بڑی ہمت اور حوصلہ سے کام لیتے ہوئے ان سب سے کہا،ڈرو نہیں ، صرف خاموشی سے کھڑے رہو ،و ہ خود چلاجائے گا ۔اتفاق سے ایساہی ہوا ۔ چند لمحوں میں شیر وہاں سے غائب ہوگیا لیکن زہرہ مومن ،ان کی نانی اور بھائی پھر آگے نہیں گئے بلکہ یہیں سے اپنی قیام گاہ لوٹ آئے۔ 
 اُمورِ خانہ داری کا ۴۰؍ سال سے زیادہ کاتجربہ رکھنے والی زہرہ محمد ہاشم مومن نے قدیم زمانے کی سستائی اور موجودہ دور کی مہنگائی کا موازنہ بڑے دلچسپ انداز میں کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ کسی دور میں سبزی فروش کوتمیر خریدنے پر ادرک ، ہری مرچ اور پودینہ مفت میں دیا کرتے تھے ۔ اب ان سب چیزوں کی علاحدہ قیمت ادا کرنی ہوتی ہے ۔ انہیں اچھی طرح یادہے ، بوہری محلہ کا معروف گھی لینے ، وہ اپنی نانی کے ساتھ یعقوب اسٹریٹ جایا کرتی تھیں ۔ ۵۰؍ پیسہ رتل ( ایک کلو سے کچھ کم) کے حساب سے گھی ملتا تھا ۔ اسی طرح اسکول جاتے وقت ان کی امی چار آنے دیا کرتی تھیں ۔ جس سے پورے دن کی خوشی آسانی سے خریدی جاتی تھی لیکن اب سو روپے سے بھی بچے مطمئن نہیں ہوتے ہیں ۔ان کی پہلی تنخواہ ۳۵۳؍ روپے تھی اب وظیفہ یاب ہیں اور خاصی رقم ملتی ہے ،پھر بھی ۳۵۳؍روپے والا اطمینان ندارد ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK