Inquilab Logo Happiest Places to Work

زکوٰۃ: اہمیت اور مقاصد

Updated: March 15, 2024, 10:54 AM IST | Mufti Abdul Qayyum Khan Hazarvi | Mumbai

معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ دولت کے بہاؤ کا رخ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف ہو اور اس کا مستقل انتظام زکوٰۃ کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

Along with individual payment of zakat, collective discipline is also required. Photo: INN
انفرادی طور پر زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ اجتماعی نظم کی بھی ضرورت ہے۔ تصویر : آئی این این

آپ دنیا کی کسی تحریک کو دیکھ لیں ، کسی مذہب کا مطالعہ کرلیں ، روٹی کا مسئلہ کسی نے نہ نظر انداز کیا، نہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے غریبوں ، بیواؤں ، یتیموں اور معذوروں کی مدد کرنے کا حکم ہر جگہ ہر ایک نے دیا اور دے رہے ہیں مگر جس انداز سے اس مسئلہ کو اسلام نے لیا ہے اور جس حکمت سے اسے حل کیا ہے وہ اسی کا خاصہ ہے۔ عام طور پر دوسروں کی مدد، ایک اخلاقی ہدایت تک محدود رکھی گئی ہے کہ کرنا چاہئے اچھی بات ہے مگر یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے جو نظامِ حیات دیا اس میں نماز جیسی اہم ترین عبادت کے بعد زکوٰۃ کی صورت میں اس مسئلہ کو حل کردیا۔ 
زکوٰۃ کے مقاصد
زکوٰۃ ادا کرنے کے چند مقاصد اور آداب ہیں جو ملحوظ خاطر رہنے چاہئیں اور اگر ان آداب کا خیال نہ رکھا جائے تو زکوٰۃ کی ادائیگی مشکوک بن جاتی ہے۔ 
 (۱) تزکیہ نفس: زکوٰۃ کا حقیقی اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ زکوٰۃ دہندہ کا دل دنیا کی حرص و ہوا سے پاک ہوجائے اور تقویٰ کے کاموں کے لئے تیار رہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ’’اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیز گار شخص کو بچا لیا جائے گا۔ جو اپنا مال (الله کی راہ میں ) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے۔ ‘‘(الیل:۱۷۔ ۱۸)
حضور ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا:’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرمادیں۔ ‘‘(التوبه:۱۰۳)
ان آیات میں زکوٰۃ کا مقصد دل کی پاکی اور نفس کے تزکیہ کو کیا جارہا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا:’’دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ ‘‘(مشکوة) آپ ﷺ نے مال کو امت کے حق میں سب سے بڑا فتنہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’(دنیا) کا مال میری امت کا فتنہ ہے۔ ‘‘(ترمذی)
 (۲) رضائے الٰہی: زکوٰۃ کا دوسرا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے۔ 
 اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ہم تم کو صرف اللہ کی رضا کے لئے کھلاتے ہیں ، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواہاں ہیں ، نہ شکریہ کے۔ ‘‘(الدھر:۹)
 زکوٰۃ ادا کرنے سے رب کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے لہٰذا کسی اور مقصد کو رضائے الہٰی پر فوقیت نہیں ہونی چاہئے۔ لینے والا اپنا حق لے رہا ہے۔ دینے والا اپنا فرض ادا کررہا ہے۔ لینے والا سوائے پروردگار کے کسی کا احسان نہیں اٹھائے گا اور دینے والا سوائے رضائے مولیٰ کے کسی صلہ و ستائش کا طالب نہیں ہوگا۔ 
اسلام کا نظامِ معاش: اسلام ایسا نظامِ معاش قائم کرتا ہے جس سے سرمایہ اوپر اوپر ہی نہ گھومتا رہے۔ ارشاد رب العزت ہے کہ
 ’’تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔ ‘‘(الحشر:۷)
زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر قرآنی وعید
 جو صاحب ثروت اور صاحب استطاعت لوگ زکوۃ کی ادائیگی کے احکامات کو پسِ پشت رکھتے ہیں اور حکم عدولی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خلاف سخت عذاب کی وعید سنائی ہے:
 ’’اے ایمان والو! بے شک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دین حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کیے جانے سے روکتے ہیں )، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ ‘‘(التوبة:۳۴)
 اسی طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے عدمِ ادائیگی زکوۃ پر لوگوں کو روزِ محشر ان کے اموال کے ساتھ سخت حشر کرنے کی وعید بھی بیان کی:
 ’’جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لیے جمع کیا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھے۔ ‘‘(التوبة:۳۵)
 جو لوگ مال و دولت اکٹھا کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
 ’’تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔ ‘‘(التکاثر:۱۔ ۲) 
 انسان فطرتاً بڑا حریص اور مادیت پرست ہے۔ وہ مال و دولت اور جاہ و منصب سے محبت اور دنیا کی حرص و طمع اس کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ ہابیل نے قابیل کا قتل بھی خواہشِ نفس کی تسکین کے لئے کیا تھا۔ کثرتِ مال کی وجہ سے یہی لوگ اپنا حقیقی مقصد بھول جاتے ہیں اور اس مال میں سے اپنا حصہ غریبوں اور یتیموں پر خرچ نہیں کرتے تو اس کثرتِ مال کی محبت نے انہیں قبروں تک جاپہنچایا جس پر وہ نازاں و خراماں تھے۔ 
ادائیگی زکوۃ، مال کی پاکیزگی کاسبب
 حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسولؐ الله! اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی؟ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، اس مال کا شر اس سے جاتا رہا۔ ‘‘(اخرجه ابن خزیمة فی الصحیح)
 معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ دولت کے بہاؤ کا رخ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف ہو اور اس کا مستقل انتظام زکوٰۃ کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ زکوٰۃ کی برکت سے امیروں کی دولت غریبوں کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ اگر معیشت کو اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے کی کماحقہ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور نظامِ زکوٰۃ کے عمل کو اوپر سے نچلی سطح تک منظم، مربوط اور مستحکم کیا جائے تو اسلام کے اس روشن اصول کے ذریعے معاشرے سے تنگدستی اور غربت کے اندھیروں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ 
 آج کے دور میں ضرورت اس امرکی ہے کہ نظامِ زکوۃ کو منظم و مربوط طریق سے فعال کیا جائے تاکہ اس کے فوائد و ثمرات سے حقدار لوگ صحیح معنوں میں مستفیدہوسکیں ۔ کسی ایک فرد کو یا بہت سارے افرادمیں مال زکوۃ کی تقسیم سے زکوۃ کی ادائیگی تو ہوجاتی ہے مگر غربت اور مفلسی کا مرض اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK