Inquilab Logo Happiest Places to Work

صہیونی ہٹ دھرمی عالمی امن کیلئے خطرہ بنتی جارہی ہے

Updated: October 29, 2023, 12:33 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

فلسطین پراسرائیلی حملے کے تناظر میں اگر عالمی صورتحال پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ نام نہاد عالمی طاقتیں اپنا رسوخ کھوتی جارہی ہیں۔

The patience of the Secretary General of the United Nations, Antonio Guterres, has also been exhausted by the Israeli aggression. Photo: INN
اسرائیلی جارحیت پراقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس کے صبرکا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا۔ تصویر:آئی این این

گزشتہ دو ہفتوں سے زیادہ مدت سے اسرائیل نے غزہ کے عوام کو جن سنگین مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے اسے حماس کے خلاف اس کی انتقامی کارروائی کہنا قطعی مناسب نہیں ہوگا۔اسرائیل ، حماس کے حملے کو بہانہ بنا کر فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی انسانیت سوز جارحیت کا جو شرمناک اور افسوس ناک کھیل،کھیل رہا ہے، اس سے یہ واضح ہے کہ اس کا مقصد صرف حماس کو زیر کرنا نہیں ہے بلکہ وہ اس خطے کو مکمل طور پر اُن لوگوں سے خالی کروانا چاہتا ہے جن کے اجداد نے اب سے تقریباً ۷۵؍برس قبل اسرائیلی مہاجرین کو پناہ دی تھی۔ ۱۹۴۸ء میں اس خطے پر پناہ ملنے کے بعد ہی سے یہودیوں نے نہ صرف خطے کی جغرافیائی شکل اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے سازشی اقدامات کئے بلکہ اپنی ریشہ دوانیوں سے خطے کی تہذیب و ثقافت اور طرز معاشرت کو اپنے افکار کے سانچے میں ڈھالنے کیلئے مسلسل کوشاں رہے۔ اس کوشش کو اپنے حسب منشا کامیابی کی منزلوں سے ہمکنار کرنے کے عمل میں ان پناہ گزینوں نے اپنے محافظوں اور محسنوں کو جان و مال کا نقصان پہنچانے سے کبھی گریز نہیں کیا۔اس مقصد کے حصول کیلئے ان احسان فراموشوں نے دنیا کے سامنے اپنی بے چارگی اور پریشان حالی کا ایسا سوانگ رچا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں نے ان کے ہر اقدام کی تائید کی یا دانستہ طور پر صہیونی سازشوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ عالمی سطح پر اپنی مکاری اوردیدہ دلیری کے سبب اسرائیل نے وہ مرتبہ حاصل کر لیا کہ اہل فلسطین کا اس کے رحم و کرم پر منحصر ہو جانا نام نہاد انسانیت نواز طاقتوں کیلئے ایک عام بات ہو کر رہ گئی ہے۔
 عالمی ہمدردی اور تائید کے رجحان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی حکومتوں اور خطے کو فکر و عمل کی سطح پر اپنے رنگ میں ڈھالنے کیلئے ہمہ وقت کوشاں صہیونی عناصر کاحوصلہ دن بہ دن بڑھتا رہا اور فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ دراز ہوتا رہا۔ اب یہ سلسلہ وہ شکل اختیار کر چکا ہے جس نے صہیونی سازش کو پوری طرح عیاں کر دیا ہے۔ اب وہ نام نہاد عالمی طاقتیں بھی خود کو اس سازش کے آگے بے بس محسوس کر رہی ہیں جن طاقتوں نے ماضی میں ان کی فلاح و بہبود کیلئے ہر وہ اقدام کیا جو اس خطے پر ان کے اثر و رسوخ کو دوام عطا کر سکے۔حماس کے خلاف اسرائیل کے جنگی اقدامات نے ان تمام دائروں کو توڑ دیا ہے جن کی پابندی بین الاقوامی قوانین کی رو سے لازمی ہوتی ہے۔ صہیونی جارحیت نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہےکی بلکہ اپنی اس ہٹ دھرمی کو جائز ٹھہرانے کیلئے اس نے جو بیانیہ تعمیر کیا ہے، وہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کی جنگی کارروائی کا مقصد صرف حماس کی شکست نہیں ہے بلکہ وہ غزہ پر پوری طرح اپنا کنٹرول چاہتا ہے۔
 اسرائیلی فوج کے ذریعہ ہونےوالےمتواتر فضائیہ حملوں میں غزہ پر جس تعداد میں بم برسائے جا رہے ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت اس خطے کو پوری طرح تاراج کر دینا چاہتی ہے۔ اس کے ان انسانیت سوز اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی باتیں سننا بھی گوارہ نہیں اور اگر کسی بات پر اس کا ردعمل ظاہر بھی ہوتا ہے تو اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کی جنگی کارروائی کو ہدف بنانے والوں کو بھی ’دہشت گرد‘ ثابت کر دیا جائے۔اب سے ربع صدی قبل مغربی میڈیا کے ذریعہ تواتر سے استعمال ہونے والی ’دہشت گرد‘ کی اصطلاح نے عالم انسانیت کو عدم تحفظ اور تعصب و نفرت کے اتنے خانوں میں منقسم کردیا ہے کہ کسی انسانی مسئلے پر اس کا متحد ہونا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو عام کرنے کی غرض سے استعمال کی جانے والی اس اصطلاح کا اثر گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں بھی دکھائی دیا جس میں جنگ بندی کی قرار داد پیش کی گئی تھی لیکن فرانس اور امریکہ نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کر کے اس قرار داد کو کالعدم بنا دیا۔ اس وقت اسرائیلی جارحیت نے ظلم و ستم کا جو سلسلہ جاری کر رکھا ہے اسے درست ثابت کرنے کیلئے بھی متواتر اس اصطلاح کا استعمال کیا جارہا ہے۔ حالانکہ فلسطینیوں کے اقدام کو صرف اس اصطلاح کے تناظر میں دیکھنا ان تاریخی حقائق کو صریح طور پر نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا جن حقائق کا تعلق یہودیوں کے اس غاصبانہ اور ظالمانہ رویے سے ہے جس کے نتیجہ میں اہل فلسطین اپنے ہی ملک میں ان کے رحم وکرم پر زندگی گزارنے کو مجبور ہو گئے ہیں۔
 اقوام متحدہ کے سیکریڑی جنرل انتونیو غطریس نے اس جنگ کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے انہی تاریخی حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ان کا بے لاگ اور صداقت پر مبنی تبصرہ صہیونیوں کو برداشت نہیں ہوا اور ان کی جانب سے جو رد عمل ظاہر ہوا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے زعم میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ انھیں بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے بنائے گئے اصولوں کی مطلق پروا نہیں ہے۔انتونیو کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہین نے پہلے تو ان سے معافی کا مطالبہ کیا اور پھر اس سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ کوہین نے صرف اس پر بس نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے عملہ کو ویزا نہیں جاری کریں گے۔ ظاہر ہے کہ ان کے اس فیصلے سے خطہ میں راحت اور جنگ متاثرین کے تحفظ کیلئے اقوام متحدہ کی جانب سے کئے جانےوالے اقدامات متاثر ہوں گے۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے بارہا اپنے بیانات سے یہ واضح کیا ہے کہ فی الوقت وہ جنگ بندی کے موڈ میں نہیں ہیں۔
  غزہ میں گزشتہ کئی دنوں سے جاری صہیونی جارحیت کی زد میں آکرجس کثیر تعداد میں عوام مارے جا رہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ اسرائیل اس خطے سے انسانی آبادی کو مکمل طور پر نیست و نابود کردینا چاہتا ہے۔ اسرائیل نے اپنے اس ظالمانہ اقدام کو جائز ٹھہرانے کیلئے جو دلیلیں اب تک پیش کی ہیں وہ اتنی کمزور ہیں کہ ان پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ان دلیلوں کے ذریعہ اس نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو غیر اہم بنا دیا ہے بلکہ اپنے ان آقاؤں کو بھی متنبہ کردیا ہے کہ وہ اپنے اقدامات کی راہ میں آنے والی کسی بھی مزاحمت کو برداشت نہیں کرے گا۔اس کا یہ رویہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی کو ان تمام ضابطوں اور قوانین سے برتر سمجھتا ہے جو قوانین عالمی انسانی برادری کے جان و مال کے تحفظ کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اسرائیل کے اس رویے کا ایک سبب اس کا سائنس و تکنیک کے شعبوں میں وہ نمایاں کارنامے انجام دینا ہے جس سے دنیا کے بیشتر ملک استفادہ کررہے ہیں ۔ مادی آسائش پر فریفتہ انسانی سماج کو صہیونیوں نے اس راہ پر ڈال دیا ہے کہ یہ سماج اس کے ظالمانہ رویے کو بھی بڑی آسانی سے نظر انداز کرتا رہا ہے لیکن اس جنگ نے اس صورتحال کو کم از کم اس حد تک تبدیل توکر ہی دیا ہے کہ اسرائیل کو جن ملکوں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے وہاں کے عوام بھی اس کے خلاف سڑکوں پر اتر رہے ہیں۔
اس جنگ کے تناظر میں اگر عالمی صورتحال پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اب نام نہاد عالمی طاقتیں اپنا رسوخ کھوتی جارہی ہیں ۔ اب تک ان نام نہاد طاقتوں کی کسی بھی بات کا اثر صہیونیوں پر نہیں ہوا ہے اور آئندہ بھی اس کا امکان کم ہی ہے۔ دوسرے یہ کہ اسرائیل کے رویے سے عالمی امن و آشتی کی ان کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا جس کیلئے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے کوشش کررہے ہیں ۔ اسرائیل کہ ہٹ دھرمی ان ملکوں کو بھی حوصلہ دے سکتی ہے جن ملکوں میں دائیں بازو کے شدت پسند عناصر اقتدار پر اپنی اجارہ داری کو یقینی بنانا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے ملک کے عوام کو فکر و عمل کی سطح پر انہیں نظریات و عقائد کا پیروکار بنانا چاہتے ہیں جن پر وہ خود عمل پیرا ہیں ۔یہ صہیونی ہٹ دھرمی عالمی امن کیلئے خطرہ بنتی جارہی ہے اور دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے مفاد کے پیش نظر اس پر جس طرح کا رد عمل ظاہر کر رہی ہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ انسانی حقوق کی دہائی دینے والوں کے نزدیک اپنے مفادکو یقینی بنانا زیادہ اہم ہے۔ اس مفاد کے حصول کے عوض اگر ہزاروں انسانوں کو اپنی جان اور اپنے مال و اسباب سے ہاتھ دھونا پڑے تو اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ غزہ میں روزانہ جو ہزاروں ہلاکتیں ہو رہی ہیں وہ اس مہذب دنیا کے ان نام نہاد امن کے ٹھیکیداروں کے دامن پر ایسا داغ ہے جو بہ آسانی مٹنے والا نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK