Inquilab Logo

بچے نے آپ کا یا آپ نے بچے کا جینا دوبھر کر دیا ہے؟

Updated: July 29, 2021, 5:00 PM IST | Odhani Desk

بہت سی خواتین لاک ڈاؤن ، کورونااور پابندی کے سبب اسکول بند ہونے سے تنگ آچکی ہیں اور وہ یہی چاہتی ہیں کہ کسی طرح اسکول کھلے اور بچےگھر چھوڑدیں ، اُن کی نظر میں بچے دن بھر ان کے سر پہ سوار رہتےہیں ،شور ہنگامہ کرتے ہیں اوراپنے ہم عمر وں سے لڑتے جھگڑتےہیں

Happy Mother`s children are happy, always laughing and smiling..Picture:INN
خو ش مز اج ماں کے بچے خوش رہتے ہیں ، ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہتےہیں۔ تصویر: آئی این این

کورونا ، لاک ڈاؤن اور پابندیوںکے درمیان  طویل عرصے سے اسکول بند ہیں۔ دوسری لہر سے پہلے مختصر وقفے کیلئے اسکول کھو لے گئے  ۔اس دوران کچھ دن بچے اسکول گئے مگر جلد ہی   و ہ گھر لوٹ آئے۔ اب وہ ہروقت   نگاہوں کے سامنے  رہتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تھوڑی دیر کیلئے باہر جاتے بھی ہیں لیکن شہری علاقوں میں اب تک بچے  زیادہ وقت گھر ہی میں گزارتےہیں ۔  کلا سیز بھی نہیں جاتے ہیں۔’عربی بھی نہیں جانا‘ ہے۔ وہ گھر میں شور مچاتے ہیں ، ہنگامہ کرتے ہیں۔ بھراپرا خاندان  ہے تو  بچے اپنے ہم عمروں سےہر وقت لڑتے جھگڑتے  رہتےہیں ۔ گھر والے ان کے جھگڑوں سے تنگ آگئے ہیں  اور بعض دفعہ یہ بھی کہہ دیتےہیں :’’پتہ نہیں کب  اسکول کھلیں گے ؟ اور یہ بچے گھر سے نکلیں گے ، بہت تنگ کرتے ہیں، کبھی کبھی رونا آجاتا ہے۔ ‘‘ 
 خواتین کی ایک بڑی تعداد بچوں کے ضدی ہونےکی شکایت بھی کر رہی ہے۔ ایسی خواتین کو کچھ مشورے دیئے جارہےہیں ۔ان پر عمل کرکے بڑی حد تک بچوںکو سنبھالا جاسکتا ہے۔ اس میں ماں  باپ دونوں میں تال میل ضروری ہے ۔ 
 اس کا حل نکالنے سے پہلےیہ جاننا ضرور ہے کہ بچہ ایسا کیوں کررہا ہے؟ بچے شرارتاً  بھی چیختے چلاتےہیں۔  ایسی صورت میں ان کےچہرے پر شرارت آمیز مسکراہٹ رہتی ہے ۔ اس پر بہت زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، بس تنبیہ کافی ہے ۔ یہ بچے کی ذہنی نشو و نما کیلئے ضروری ہے۔      دوسرے یہ کہ بچے کےچیخنے چلانے کی آواز تیز ہوجائے ، اس میں کرختگی آجائے ،  انتقامی جذبہ جھلکے ۔ یہ خطر نا ک صورتحال ہوتی ہے ۔ اس سے بچے کی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے۔ اس صورت میں بچے کی مستقل نگرانی کرنی ہوتی ہے۔  اس کا فوری علاج مشکل ہے۔ مسلسل دیکھ بھال  ہی سے اس کی شخصیت سنورے گی ۔  
         ایسے بچوں کی تربیت کرنا اور انہیں راہ راست پر لانا آسان نہیں ہے۔ بچے اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، اس لئے پہلے اپنا جائزہ لینا ہوگا ۔ خود کو دیکھنا ہوگا ۔ مثلاً  والدین اپنے بچے کی غلطیو ں کا جب سب کے سامنے ذکر کرتے ہیں تو اس کا اس کی شخصیت پر برا اثر ہوتا ہےاور یہیں سے بچے کا ذہن تبدیل ہونے لگتا ہے ، اس میں ضد  اور دوسرے منفی  جذبا ت پروان چڑھنے  لگتے ہیں  ۔ والدین کیلئے یہ معمولی بات ہوتی ہے لیکن اس کے نتائج سنگین ہوتے ہیں۔ والدین کو ایسے معاملات میں اعتدال سے کام لینا  چاہئے ، اس کی عزت نفس کا خیال رکھناچاہئے۔
  ماہرین کے مطابق ایسے بچوں کے ضدی ہونے کے  اور بھی اسباب ہیں۔ان میں کچھ ایسے ہیں جو نظر نہیں آتےہیں ۔ جیسے  نیند پوری نہ ہونے، بھوک پیاس  نہ مٹنے اور گرمی لگنے کی وجہ سے بھی بچے  چڑچڑےاور ضد ی ہوجاتےہیں۔ 
  اسی طرح بچے کی پرورش اگر منتشر خاندان میں ہو تب بھی  اس میں ضد  اور دوسرے منفی جذبات پیدا ہوجاتےہیں۔ بچے کو اگر یہ احسا س ہوجائے کہ دوسرے بھائی  بہنوں کے مقابلے میں اسے کم اہمیت دی جارہی ہےیا اس کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے تو بھی وہ ذہنی طور سے پریشان رہنے لگتا ہے۔   اسی طرح والدین کی طرف سے حد سے زیادہ لاڈپیار ملنا،  ضرورت سے زیادہ سزا ، بار بار سرزنش اور پوچھ گچھ بھی اسے ضدی بناتی ہے۔ ایسے بچے کو اس کی  صلاحیت اور قابلیت سے آگاہ کریں۔ فیملی میں اس کی موجودگی اور اہمیت کو کم نہ سمجھیں۔ اپنے فیصلوں میں بچے کو شامل کریں اور کسی مسئلے کو حل کرنے میں اس کی مد د لیں۔  اس کی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھیں۔
بچے کو ذمہ دار بنانے کیلئے کام سونپیں تاکہ وہ ذمہ دار بنے اور اپنی توانائی لگائے اور اسے احساس ہو کہ اس کا  وجود اہم ہے۔
  اسی طرح بچے کے دوست ہونے بھی بہت ضروری ہیں، اسے مثبت شخصیت کا مالک بنائیں۔ کچھ مائیں اپنے بچوں کو حادثات، حسد اور پڑوسیوں کی نظر لگ جانے  کے خوف سے گھروں میں بند کر دیتی ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کی پرورش درست نہیں ہوتی اور وہ معاشرے سے خوفزدہ رہتا ہے، جب وہ باہر نکلتا ہے تو  خوف محسوس کرتا ہے اور وہ اپنے آس پاس کی چیزیں توڑ کر خراب کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ماںکو چاہئے کہ وہ اپنے  بچے کو  اپنی عمرکے بچوں  سے دوستی کرنے کا مشورہ دے  اور اسے  ا پنے دوستوں  سے گھلنے ملنے کی ترغیب دے ۔ اس سے وہ ساتھ رہنے کا عادی ہوگا ، ورنہ تنہا ئی پسند ہوجائے گا اور ہمیشہ یہی چاہےگا کہ کوئی اس کے کسی کام میں مداخلت نہ کرے۔ وہ چاہے گا کہ اس کا کھلونا صرف اسی کا ہو ۔ اگر وہ موبائل پر کچھ دیکھے تو صرف وہی دیکھے ، کسی دوسرے بچے کے جھانکنے پر وہ شور مچانے لگتا ہے ۔
  اسی طرح  بچے کو مارنے اور لعن طعن کرنے کے بجائے مشورے دیں اور نصیحت کریں۔  پیار و اطمینان سے مشورے دیں اور اس کی  بے چینی  دور کریں۔ بچے کی شخصیت ماحول اور خاندان سے تشکیل پاتی ہے۔ یاد رکھئے کہ بچہ ایک مربوط اور پرسکون کنبے میں پرورش پاتا ہے تو مضبوط شخصیت کا مالک بنتا ہے۔بچے کو یہ بھی محسوس ہونا چاہئے کہ محبت سب سے پہلے گھر اور کنبے سے حاصل ہوتی ہے اور ا گر اسے وہاں محبت نہیں ملے گی تو پھر وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے ساتھ بڑا ہوگا اور اسے نفسیاتی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔وہ خراب  رویہ ،  بے چینی اور تناؤ کے ماحول میں بڑھے گا ۔ نتیجتاً اسے وراثت میں خود غرضی ملے گی۔ یادر کھئے کہ محبت کسی بھی صحت مند نفسیاتی زندگی کی  بنیاد ہے۔
  اکثر ایسا ہوتا بھی ہے کہ بچے والدین کو متوجہ کرنے کیلئے مختلف حرکتیں کرتے ہیں ،ان پررد عمل ظاہرکریں ۔ انہیں کبھی ایسا محسوس  نہ ہونے دیں کہ ان کے والدین ان  سے پیار نہیں کرتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ وہ بچے کو بھرپور پیار دیں۔ اس کی ہر چھوٹی بڑی بات کو دھیان سے سنیں۔ ’بیکارکی بات‘ کہہ کر انہیں ٹالنا مناسب نہیں۔  بچے کو نظر انداز کرنا اس کے ذہن پرغلط اثرات مرتب کر سکتا ہے۔  ضروری ہے کہ اس کی ہر ایک بات سنیں، کسی بھی بات کو نظر انداز نہ کریں۔ اس کی باتوں میں آپ کی دلچسپی یقیناً بچے کوخوش کردے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK