Inquilab Logo Happiest Places to Work

مہنگائی؛ عام زندگی کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے

Updated: May 19, 2022, 12:49 PM IST | Saima Shaikh | Mumbai

گزشتہ چند ماہ میں مہنگائی کافی بڑھی ہے۔ کئی اشیاء کی قیمتوںمیں دگنا اضافہ ہوا ہے جس سے زندگی بسر کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں انقلاب نے چند خواتین سے بات چیت کی ہے:

If the prices of basic commodities continue to rise then it will be difficult for the common man to survive..Picture:INN
اگر بنیادی اشیاء کے دام یوں ہی بڑھتے جائیں گے تو عام آدمی کے لئے جینا مشکل ہو جائے گا۔ تصویر: ایجنسی

مہنگائی نے سب کی کمر توڑ دی ہے
آج کے زمانے میں کوئی نہیں جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان نہ ہو، اور کیوں نہ ہو، مہنگائی نے سب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ دن بہ دن چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ حکومت کے وعدے حقیقت سے بہت دور ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ مندر ، مسجد سے ہٹ کر مہنگائی اور بے روزگاری پر توجہ دے ورنہ سری لنکا سے بھی برا معاشی بحران عنقریب ہندوستان میں آئیگا (خدانخواستہ)۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ حکومت غیر ضروری مسائل پیدا کرکے مہنگائی اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس وقت ملک کو معاشی طور پر مستحکم ہونے کی ضرورت ہے ورنہ عام افراد کیلئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر پانا مشکل ہو جائے گا۔ حکومت کو کم از کم بنیادی اشیاء کے دام کم کرنے چاہئیں۔
انصاری کلثوم بانو محمد منتظم اختر
علاقوں کے مطابق دام
فی الحال مہنگائی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہر کوئی اس آفت سے پریشان ہے۔ مَیں نے غور کیا ہے کہ پاش علاقوں میں اشیاء زیادہ دام میں فروخت ہوتی ہیں اور وہاں رہنے والے افراد منہ مانگی قیمت ادا بھی کرتے ہیں جس سے متوسط اور غریب طبقے کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ البتہ دیسی سبزیوں کے نام پر بھی دگنا دام وصول کیا جاتا ہے۔ مَیں نے کئی لوگوں کو مالی حالت بہتر نہ ہونے کے سبب سڑی گلی سبزیاں خریدتے دیکھا ہے کیونکہ وہ سستے داموں میں مل جاتی ہیں۔ یہ صورتحال افسوسناک ہے۔ ان حالات میں خواتین کو زیادہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کیونکہ انہیں محدود آمدنی میں گھر چلانا ہوتا ہے۔ اگر آپ ۵۰۰؍ روپے لے کر بازار جائیں تو وہ رقم فوراً ختم ہو جاتی ہے اور مطلوبہ اشیاء میں سے کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتی ہیں۔ عوام کو مہنگائی کیخلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔
خان تسنیم کوثر
مہنگائی کی مار....
آج ہر ا نسان مہنگائی سے پریشان ہے۔ متوسط طبقہ اور غریب اس کی زد میں زیادہ ہیں۔ یومیہ جتنی آمدنی نہیں، اس سے زیادہ خرچ ہے۔ تعلیمی ادارے، دواخانے اور سفر.... غرض ہر شعبہ مہنگائی کی زد میں ہے۔ میں ایک ٹیچر ہوں بچوں کے گھریلو حالات کے متعلق معلوم پڑتا ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ دراصل ضروری بنیادی اشیاء جیسے دال، چاول، شکر، دالیں، مسالے، تیل، گھی وغیرہ کے دام بڑھنے سے متوسط اور غریب طبقے کے لئے مشکلیں پیدا ہوگئی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آمدنی نہیں بڑھ رہی ہے اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے۔ ایسے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ اس طرح کی اسکیم بنائے کہ ہر انسان دو وقت کی روٹی سکون سے کھا سکیں۔
تسنیم بھورانیہ
بڑھتے دام اور گھٹتی آمدنی
گزشتہ چند برسوں سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے مگر لاک ڈاؤن کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ الیکشن کے درمیان قیمت نہیں بڑھی بلکہ الیکشن کے نتائج آنے کے بعد رسوئی گیس، پیٹرول اور ڈیزل کے دام مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ عام آدمی مہنگائی سے زیادہ پریشان ہے۔ اگر کسی شے پر ایک روپے بھی بڑھا ہے تو اس سے بھی گھریلو بجٹ متاثر ہوا ہے۔ اگر بنیادی اشیاء کے دام یوں ہی بڑھتے جائیں گے تو عام آدمی کے لئے جینا مشکل ہو جائے گا۔ ملک میں ایک طرف مہنگائی بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کئی لوگوں کی تنخواہ میں بھی کٹوتی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے اسکول کی فیس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ عوام بیک وقت کئی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔
شبانہ قریشی
خاتون خانہ کی بڑھتی پریشانی
مہنگائی نے ہر ایک کومتاثر کیا ہے۔ ایک گھریلو خاتون کے لئے پریشانی بڑھ گئی ہے۔ اشیائے خورد و نوش کے دام بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت بازار میں ایک کلو تیل کا پیکٹ ۲۰۰؍ روپے سے کم دام پر نہیں مل رہا ہے۔ پہلے جو چیزیں ماہانہ بجٹ میں آجایا کرتی تھیں اب وہی بجٹ ۱۵؍ دن کے لئے ہوگیا ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ دام دُگنے ہوگئے ہیں جیسے پہلے ایک کلوگرام دال ۶۹؍ روپے میں ملتی تھی، اب ۱۰۰؍ سے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ لوگوں کی ملازمت بھی چھوٹ رہی ہے اور کمپنیاں تنخواہ بڑھا بھی نہیں رہی ہیں۔ آمدنی کم ہوگئی ہے جبکہ اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر رسوئی گیس کے دام بڑھ گئے ہیں۔ خاتون خانہ پہلے بچت بھی کر لیا کرتی تھی مگر اب کسی ناگہانی صورتحال کیلئے قرض لینے کی نوبت آجاتی ہے۔
ڈاکٹر صدف کانڈی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK