Inquilab Logo

ازدواجی زندگی :ساتھ ساتھ چلئے ، یہ سفر آسان ہوجائے گا

Updated: March 16, 2021, 11:36 AM IST | Inquilab Desk

ایک وقت تھا کہ مائیں دادیاں یا گھر کی دیگر بڑی بوڑھیاں سسرا ل جانے سے پہلے اپنی بیٹی کو مثبت طریقے سے زندگی گزارنے کی تلقین کرتی تھیں لیکن اب کچھ مائیں اور سہیلیاں روزانہ کی فون کی گفتگو میں غلط مشورے دیتی ہیں جس کے نتیجے میں اس کی ازدواجی زندگی بر باد ہوجاتی ہے ، تلخیوں سے بھر جاتی ہے

Marital life
شادی کے دن ہاتھ پکڑتے ہی ذمہ دار بنئے ، وقت کے ساتھ ساتھ اس گرفت کو اور مضبوط کیجئے ۔

 ازدواجی زند گی میں نشیب و فراز آتے ہیں، بہت کچھ بنتا بگڑ تا ہے ۔ پرا نا نیا ہوجاتا ہےاور نیا  پرانا ، یہ سب صرف اس رشتے کی نہیں بلکہ ہر رشتے کی فطرت ہے لیکن  میاں بیوی میں تلخی اس رشتے کو گھن کی طرح چٹ کرجاتی ہے ، اسے بری طرح نقصان پہنچا تی ہے ، اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے۔ نتیجتاً ایک دن رشتوں کی یہ دیوار ڈھے جاتی ہے ۔  یا بہت کمزور ہوجاتی ہے ۔ اس طرح ازدواجی زندگی کی گاڑی جیسے تیسے چلنے لگتی ہے۔ 
  ان دونوں کے رشتے میں دراڑ یا کمزوری کی  ایک بڑی وجہ احساس برتری ہے ۔ زوجین میں سے کوئی بھی احساس برتری میں مبتلا ہوگا تو یہ رشتہ  غلط رخ پر چلا جا ئے گا، سردجنگ ہو نے لگے گی ۔ دونوں کی قوت بر داشت جواب دینے لگے گی  ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھنٹوں بحث ہوگی ۔ دونوں ضد ی ہو جائیں گے ،چڑچڑے ہوجائیں گے ۔ اس طرح اس رشتے میں خوشی کی گنجا ئش نہیں ہوگی ۔ ہر طرف بے چینی ہوگی ،گھٹن کا ماحول ہوگا۔  دونوں اضطراب میں مبتلا ہوجائیں گے ۔ محبت کی جگہ نفرت کے جذبات پر وان چڑھیں گے ۔ 
  یقینا ً   اس رشتے کو بچانے کی سب اہم ذمہ داری شوہر کی ہے ۔ وہ اپنی سوجھ بوجھ سے بہت کچھ بدل سکتا ہے۔  اس رشتےکو نئی زندگی دے سکتا ہے   لیکن بیوی کا بھی اس میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔  بیوی   چاہے تو گھر کو جنت بناسکتی ہے  لیکن منفی رویے  سے  وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی  ازدواجی زندگی بر با د کرلیتی ہے۔   خاص طور پر ان  لڑکیوں کا گھر سب سے پہلے اجڑ تا ہےجو گھنٹوں اپنی سہیلیوں اور اپنی ماں سے فون پر مشورے لیتی ہیں اور ان سے  شوہر کو کمتر ثابت کرنے کی ترکیبیں سیکھتی  ہیں ۔   ایک وقت تھا کہ مائیں دادیاں یا گھر کی دیگر بڑی بوڑھیاں سسرا ل جانے سے پہلے اپنی بیٹی کو  مثبت طریقے سے زندگی گزارنے کی تلقین کرتی تھیں۔ وہ اپنی بیٹی سے کہتی تھیں کہ سسر ال جاکر  اپنی  سلیقہ مندی سے سب  کا دل جیت لینا ،   رشتوں کو سنبھا لنا ، کسی سے الجھنا مت ، بڑوں کا جواب مت دینا ،   اپنے شوہر کی بات ماننا  اور  اس کی عزت کرنا   وغیرہ  ۔ کچھ مائیں اب بھی اس کا لحاظ کرتی ہیں ،  اپنی بیٹی کو  تمیز اور سلیقہ سکھاتی ہیںمگر اب   بہت کچھ بدل گیا ہے ۔  رشتوں کی ڈور ہاتھ سے چھوٹنے لگی ، ہر جگہ انا ہے ۔ اسی انا کی تسکین  میں رشتے کمزور ہوتے جارہےہیں۔   
  اب  ماں سسرا ل جا تے وقت بیٹی سے کہتی ہے کہ وہاں جا کر کسی سے دبنا مت ، کوئی ایک بات کہے تو تم چار بات سنانا ، کسی کو مت چھوڑنا ،  شوہر کو ہمیشہ  حد میں رکھنا ،  اسے زیادہ مت چڑھا نا ۔  یہی باتیں فون پر سکھا ئی  جاتی ہیں ۔ سہیلیاں بھی   اسے شوہر کو ڈانٹنے اور حد میں رکھنے کی تاکید کرتی ہیں ۔  
 سخت مزاج شوہر الجھ جاتے ہیں اور و ہ بھی اپنے دوستوں کی ’بیوی کو حد میں رکھنے ‘کی نصیحت  پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو حد رکھنے کی کوشش کرنے والے میاں بیوی حد سے  گزر جاتے ہیں ۔ رشتوں کا پاس ولحاظ ختم ہوتا ہے ۔   ہر وقت ہنگامہ ہوتا ہے ،  گھر میدان جنگ بن جاتا ہے۔ بچوں کے سامنے میاں بیوی لڑتے جھگڑتے رہتےہیں۔ اس کا ان پر بھی منفی اثر ہوجاتا  ہے     ، ان کی ذہنی نشو ونما رک جاتی ہے۔     دوسرے اگر شوہر نظر انداز کر نےو الا   ہے ، تب بھی  بیوی کی جھڑکیوں کا اس پر اثر ہوتا ہے ۔  سماج میں اسے’ زن مرید‘ کہا جانے لگتا ہے ۔ گھر والے بھی اسے بیوی کی اشارے  پر ناچنے والا بتانے لگتے  ہیں، اس طرح  سب کی باتیں سن سن کر وہ اندر سے کھوکھلا ہوجاتا ہے۔  وہ نفسیاتی طور پر متاثر ہوتا ہے۔ دفتر اور کاروبا ر ہر جگہ وہ اپنا اعتماد کھونے لگتا ہے ، کہیں بھی اس کا دل نہیں لگتا  ۔  اپنے بچوں سے بھی وہ آدھے ادھورے من سے بات چیت کرتا ہے ، پھر اس کے اندر بھی انتقامی جذبات پر وان چڑھنے لگتے ہیںاوریہ کسی نہ کسی طریقے سے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو کمتر ثابت کرنے میں ازدواجی زندگی تلخیوں سے بھر جاتی ہے  ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK