بدقسمتی سے آج نکاح محض ذمہ داری سمجھا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ تعلق درحقیقت محبت کی سب سے گہری، خاموش، اور بامعنی زبان ہے۔ اگر یہ تعلق صرف فرض سمجھ کر نبھایا جائے تو دل خالی رہ جاتے ہیں، لمس سرد ہو جاتا ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ جذبات پژمردہ ہو جاتے ہیں۔
میاں بیوی ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرکے رشتے کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این
رشتۂ ازدواج صرف دو افراد کو ایک چھت کے نیچے نہیں لاتا بلکہ دو دلوں کو، دو سوچوں کو، دو روحوں کو، اور دو خوابوں کو ایک وحدت میں گوندھ دیتا ہے۔ یہ محض ایک معاشرتی بندھن، ایک رسم، یا قانونی معاہدہ نہیں، بلکہ زندگی بھر کے احساس، جذبات، جسم، خیال، برداشت اور قربانی کا مقدس امتزاج ہے۔ دنیا کے ہر مذہب، ہر ثقافت، ہر زبان اور ہر خطے میں اگر کوئی رشتہ سب سے زیادہ معتبر، محترم اور ہمہ گیر سمجھا جاتا ہے، تو وہ نکاح ہی ہے۔ قرآنِ حکیم نے اس تعلق کو ’لباس‘ کہا، اور لباس وہ ہوتا ہے جو ہمارے جسم کو ڈھانپتا ہے، ہماری کمزوریوں کو چھپاتا ہے، ہمارے وقار کا محافظ ہوتا ہے۔ لیکن اس تشبیہ میں لباس صرف ظاہری پردہ نہیں بلکہ روح کا سہارا، دل کا سکون اور نفس کی حرارت بھی ہے۔ (ترجمہ) ’’وہ تمہارے لئے لباس ہیں، اور تم ان کے لئے۔‘‘ اس میں صرف برابری نہیں، بلکہ تکمیل کا پیغام ہے۔
شادی شدہ کا آغاز تو دو ناموں سے ہوتا ہے، مگر حقیقتاً یہ دو دلوں کے درمیان جاری ایک نہ رکنے والی مکالمہ ہوتا ہے، جو کبھی لبوں سے، کبھی آنکھوں سے، کبھی لمس سے، اور کبھی خاموشی سے ادا ہوتا ہے۔ اکثر ہم نکاح کو ساتھ جینے کا وعدہ سمجھ لیتے ہیں، مگر درحقیقت نکاح ساتھ محسوس کرنے کا تعلق ہے۔ ایک ایسا تعلق جس میں کسی کے درد سے دل بھی بھیگے، کسی کی خاموشی میں آنکھوں کی نمی سنائی دے، اور کسی کے معمولی اشارے سے احساس کی دنیا جاگ اٹھے۔
بدقسمتی سے آج نکاح محض ذمہ داری سمجھا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ تعلق درحقیقت محبت کی سب سے گہری، خاموش، اور بامعنی زبان ہے۔ اگر یہ تعلق صرف فرض سمجھ کر نبھایا جائے تو دل خالی رہ جاتے ہیں، لمس سرد ہو جاتا ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ جذبات پژمردہ ہو جاتے ہیں۔ زندگی چلتی رہتی ہے، مگر رشتہ ٹھہر جاتا ہے۔ عورت اگر اپنے شوہر سے بار بار سرد مہری اور بےتوجہی محسوس کرے تو وہ آہستہ آہستہ خود کو کمتر سمجھنے لگتی ہے۔ وہ اپنی نسوانیت پر شک کرنے لگتی ہے، وہ سوچنے لگتی ہے کہ کیا وہ محبت کے لائق نہیں؟ اور یہ سوچ اسے یا تو مکمل خاموشی اور بےحسی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ لمحہ نہ صرف اس عورت کے لئے تباہ کن ہوتا ہے بلکہ اس پورے رشتے کے لئے خطرے کی گھنٹی ہوتا ہے۔
اسی طرح مرد اگر بیوی سے محبت، کشش اور چاہت کا وہ جواب نہ پائے جس کا وہ خواہاں ہے، تو وہ بھی ٹوٹنے لگتا ہے۔ دن بھر کی مشقت، معاشی دوڑ، اور دنیاوی دباؤ کے بعد اگر شوہر کو بیوی کا مسکراہٹ بھرا چہرہ، نرم لہجہ، اور محبت بھری قربت میسر آئے تو وہ باہر کی ہزار فتنہ انگیزیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ نہ صرف وفادار بنتا ہے، بلکہ مضبوط تر، پُرعزم، اور اپنے گھر اور خاندان کے لئے مکمل سہارا بن کر ابھرتا ہے۔
میاں بیوی کے رشتے مضبوط ہوں تو اس کے اثرات بچوں کی تربیت، گھر کے ماحول، خاندان کی فضا، اور یہاں تک کہ پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ بچوں کو وہ محفوظ فضا ملتی ہے جس میں وہ اعتماد، سکون اور محبت کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ گھر میں برکت آتی ہے، رزق میں وسعت آتی ہے، اور رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔
میاں بیوی کا ایک دوسرے پر تنقید کرنا اور ایک دوسرے کے جذبات نہ سمجھنا، دراصل ان دونوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتا ہے۔ اس گھر کا ماحول بھی بگڑتا ہے۔ بچے بھی ڈرے سہمے رہتے ہیں۔ اس کے بجائے میاں بیوی کو ایک دوسرے کو سمجھنا چاہئے۔ دن بھر کی مشقت کے باوجود شوہر اگر خوشی خوشی گھر میں داخل ہوگا تو یقیناً گھر کا ماحول بہتر ہوجائے گا۔ اسی طرح بیوی بھی گھر کے کاموں کو سمیٹ کر لبوں پر مسکراہٹ سجائے شوہر کا استقبال کرتی ہے تو شوہر اپنی دن بھر کی تھکان بھول سکتا ہے۔ چند معمولی تبدیلیوں سے دونوں اپنے باہمی رشتے کو مضبوط کرسکتے ہیں۔
میاں بیوں کے رشتے میں توجہ، شراکت اور چاہت کا اظہار ضروری ہے۔ اس رشتے کو نبھانے کے لئے صرف وقت نہیں، دل بھی درکار ہوتا ہے۔ نکاح اُس وقت مکمل ہوتا ہے جب شوہر بیوی کی خاموشی کو سنے، اُس کی آنکھوں کو پڑھے اور اُس کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سمجھے، اور اُس کے لمس میں سچائی تلاش کرے۔ جب بیوی شوہر کی تھکن کو محسوس کرے، اُس کی خاموش دعاؤں کو سمجھے، اور اُس کی چاہت میں اپنی نسوانیت کا وقار محسوس کرے۔ تب ہی زندگی میں نہ صرف ساتھ، بلکہ احساسِ ساتھ بھی جنم لیتا ہے۔
یہی احساس ہے جو رشتے کو موسموں کی طرح حسین بناتا ہے۔ ہر دن نیا رنگ اور ہر لمحہ نئی خوشبو لے کر آتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جس میں نکاح زندگی بن جاتا ہے، اور زندگی ایک عبادت۔ میاں بیوی عمر کے جس حصے میں بھی ہوں ایک دوسرے کی اہمیت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ایک دوسرے کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش رہنا چاہئے۔ اس سے رشتے مستحکم ہوتے ہیں۔