۳؍ سے ۶؍ سال کا بچہ بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ اس دوران وہ اپنے آس پاس کے ماحول کا جائزہ لیتا ہے۔ لوگوں کی حرکتوں کو دہراتا ہے۔ اس عمر میں اس کی نشوونما درست سمت میں ہورہی ہے یا نہیں، اس بات کا دھیان رکھنا چاہئے۔ اس کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی نشوونما کو بھی اہمیت دینا چاہئے۔
اگر بچہ اپنی عمر کے مطابق صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نشوونما درست سمت میں ہے۔ تصویر : آئی این این
بچے گھر کی رونق ہوتے ہیں۔ ان کی پیاری پیاری باتیں اور شرارتیں سب کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہنستے کھلکھلاتے رہیں اس کے لئے گھر والوں کی، خاص طور پر ماؤں کی توجہ درکار ہوتی ہے۔
بچوں کی غذائی ضروریات اور نشوونما ایسے معاملات ہیں، کہ کسی بھی ماں کی جانب سے انہیں کسی طور نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ صحت بخش غذا، صفائی اور بیماریوں سے بچاؤ نہایت اہم اور ضروری حفاظتی اقدام ہیں، جو بچوں کو تندرست رکھتے ہیں۔ اگر یہ تینوں معاملات بہتر طریقے سے جاری رہیں، تو بچے کی نشوونما بہترین ہوتی ہے۔ اگر انہیں درست وقت پر مناسب ٹھوس غذا نہ ملے تو ان کی نشوونما پر برا اثر پڑتا ہے اور وہ کمزور ہونے لگتے ہیں۔
۳؍ سے ۶؍ سال کا بچہ ماؤں کی خاص توجہ چاہتا ہے۔ کیونکہ اس دوران وہ اپنے آس پاس کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں کہنا درست ہوتا کہ اطراف کے ماحول کو اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دوسروں کے جذبات اور اشاروں پر جوابی ردعمل بھی دینے لگتا ہے، اس دوران اس میں رسمی تعلیم کے لئے ضروری صلاحیتیں بڑھتی جائیں گی۔ یہ عمر بطور خاص توجہ کی طالب ہوتی ہے، اکثر ماؤں کی اس عمر کے بچوں سے غفلت انہیں عمر بھر کی سنگین مسائل اور تکالیف سے بھی دوچار کر دیتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں میں بڑھوتری پر خصوصی طور پر نظر رکھی جائے۔
تین سے چھ سال کی عمر کے دوران آپ کا بچہ کھیلوں میں حصہ لینے کے لئے بہتر اور مربوط طریقے سے اپنی سرگرمیوں کو ترقی دے گا۔ اس کی توجہ کے ارتکاز میں بہتری آئے گی۔ انگلیوں اور ہاتھوں کی حرکات میں اور زیادہ درستی ہوگی اور اس کے لکھنے کی مہارت میں اضافہ ہوگا۔ یہ ترقی آپ کے بچے کے لئے غور و خوض کرنے اور معلومات حاصل کرنے کی وسیع اور نئی دنیا کھول دیتی ہے۔
لفظی زبان کے بنیادی قواعد جان لینے سے وہ اپنی خواہشات، احساسات، اور خیالات کو آسانی سے ظاہر کرسکتا ہے۔ اگر چہ وہ آپ کے ساتھ بات چیت کرسکتا ہے تو وہ ایسے طریقے سے رویہ اختیار کرنا سیکھے گا، جس سے آپ کو خوشی ہو۔ جیسے جیسے وہ دوسرے لوگوں کے جذبات اور ضرورتوں کو سمجھنے لگے گا اور ان کے خیالات پر توجہ دینا شروع کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ معاشرتی طور سے قابل قبول طریقہ سے بات چیت کرنے لگے گا۔ چوتھے سال تک آپ کا بچہ مندرجہ ذیل کام کرنے کے قابل ہو جانا چاہئے:
اعتماد کے ساتھ دوڑنا، اچھلنا اور چڑھنا۔ بڑی گیند کو پھینکنا اور پکڑنا، کچھ دیر کے لئے ایک پیر پر کھڑا ہونا، تین پہیوں کی سائیکل کو آسانی سے چلانا، بڑے آدمی کی طرح پینسل پکڑنا، پہچاننے کے قابل دائرہ اور مربع بنانا، کھڑی اور ترچھی لکیروں سے بننے والے آسان حروف کو لکھنا شروع کرنا۔
اس عمر کے بچے میں ہم زبان کی نشوونما بھی دیکھیں گے، جیسے کسی بڑے کے ذریعے دی گئی روزمرہ کی ہدایت کی تعمیل کرنا مثلاً کپڑے ٹوکری میں رکھنا، کوئی ہلکی پھلکی چیز اٹھا کر دینا۔ اس کے ساتھ ہی وہ آپ سے چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنے گا اور آپ سے اپنی پسندیدہ کہانی بار بارسنانے کی درخواست کرسکتا ہے۔
سیکڑوں الفاظ کے سرگرم ذخیرہ الفاظ کو استعمال کرے گا۔ جیسے ’آپ‘ ’میں‘ اور ’وہ‘ کا مناسب طور پر استعمال کرے گا۔ آسان جملوں میں اپنی ضرورتوں اور احساسات کو ظاہر کرے گا۔ بڑوں سے گفتگو کرنا شروع کرے گا۔ اجنبی لوگوں سے صاف اور سمجھنے کے لائق زبان میں بات کرنے لگے گا، حالانکہ ابھی وہ کچھ الفاظ کا تلفظ ادا نہیں کر سکے گا۔
آپ کا بچہ اپنا اکثر وقت اپنے آس پاس کی چیزوں کو سمجھنے میں صرف کرے گا۔ وہ آپ سے لگاتار سوال پوچھے گا۔ آپ ان سب ہی سوالوں کے جواب دینے کی کوشش نہ کریں۔ اس سے یہ کہنا کہ، ’’مجھے نہیں معلوم، چلو اس کا پتا لگاتے ہیں!‘‘ اس سے آپ کے بچے کے علم کی توسیع ہوگی، اس کے تجسّس کو اطمینان ہوگا اور وہ تعلیم حاصل کرنے کا طریقہ سیکھے گا۔
بچے اس عمر میں اپنی ہم بچوں سے بھی بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ ان کی نقل کرتے ہیں۔ یہ بھی ان کی نشوونما کا حصہ ہے۔ البتہ یہ ماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کو بتائیں کہ کون سی عادت اپنانی ہے اور کون سی نہیں۔
اگر آپ کا بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے یہ خصوصیات اور صلاحیتیں بھی حاصل کر رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غذائی طور پر بھرپور چیزیں حاصل کر رہا ہے، ساتھ ہی اسے سیکھنے کے موافق ماحول میسر ہے اور وہ مجموعی طور پر صحتمند ہونے کے ساتھ سیکھنے کے مراحل طے کر رہا ہے، لیکن اگر صورتحال اس کے برعکس ہے، تو اس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ مسائل کا تعین اور پھر اُن کا حل ممکن ہوسکے۔