Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا معاف کرنا واقعی بہت مشکل کام ہے؟

Updated: August 04, 2025, 3:41 PM IST | Khaleda Fodkar | Mumbai

جھکنا کوئی کمزوری نہیں، معافی مانگنے سے حیثیت میں کمی نہیں آتی بلکہ معاف کر دینا تو سب سے بڑی طاقت اور نیکی ہے، اللہ کی صفت ہے۔ معافی کی اہمیت اور اس کے فوائد ہم جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے راضی رہنا اور معافی و تلافی معاشرے کی بہتری کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہنی و قلبی سکون کیلئے بھی ضروری ہے۔

For those with open hearts and minds, both forgiving and asking for forgiveness are very easy. Photo: INN
کشادہ دل و ذہن والوں کے لئے معاف کرنا یا معافی طلب کرنا دونوں امر بہت آسان ہے۔ تصویر: آئی این این

اس سوال کا جواب ہاں بھی ہے اور نہ بھی، اس سوال کا جواب دینے کی ایماندارانہ کوشش ہم شاذ ہی کرتے ہیں کیونکہ اس کیلئے ہمیں اپنی شخصیت کے کچھ تاریک گوشوں کو اُجاگر کرنا پڑتا ہے، اپنی اُن خامیوں اور نا انصافیوں کا معترف ہونا پڑتا ہے جن پر ہم ہمیشہ پردہ ڈالے رکھنا چاہتے ہیں۔ زندگی کے معمولات میں ہم اپنی عادات و اطوار، پسند ناپسند، اپنی بے لچک اَنا اور ہر میدان میں دوسروں سے برتر رہنے کی دائمی خواہشات کا جائزہ لیں تو اس سوال کا جواب ہمیشہ اثبات میں ہی ہوگا، اور تب تک اثبات میں ہوگا جب تک ہماری زندگی میں فراخدلی، رحم، معاملہ فہمی اور درگزر جیسے خوبصورت اور انمول خصائل شامل نہیں ہوتے۔
 بطور انسان ہم میں سے ہر کوئی دوسروں سے تو توقع کرتا ہے کہ اُس کی غلطیاں، کوتاہیاں نظر انداز کی جائیں، اُس کی ناانصافیاں حتیٰ کہ جرم و گناہ کو بھی معافی مل جائے مگر جب کسی اور کو معاف کرنے کا موقع آئے تو ہماری تنگدلی و کم ظرفی انتقام اور بدلے کے ہزار حیلے بہانے تلاش کرلیتی ہے۔ چھوٹی غلطیوں کی بڑی سزائیں اور معمولی خطاؤں کے بڑے تاوان ہمارا عمومی مزاج بن گیا ہے۔ ہمیں کوئی پروا نہیں ہوتی چاہے اس سزا و انتقام کی زد میں کئی انمول رشتے اور قیمتی تعلقات خاک ہو جائیں، خاندان اور دوستیوں کا شیرازہ بکھر جائے۔ اپنی برتری، اَنا اور خود ساختہ شان کے زعم میں مبتلا ہم ایک ایسے ہمالیہ پر کھڑے ہوجاتے ہیں جہاں سے ساری دُنیا کمتر اور بونی دکھائی دیتی ہے۔
 گھر کے باہر کی دُنیا تو تنگدلی و سنگدلی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اپنے گھروں میں بھی ہمارا طرزِ عمل کچھ جدا نہیں، ہم معمولی اور چھوٹی چھوٹی خطاؤں کو بھی درگزر کرنے کے روادار نہیں رہے، ملازمہ کے ہاتھوں کوئی برتن ٹوٹ جائے، صفائی ٹھیک نہ ہو یا بغیر اجازت وہ ناغہ کر لے تو ڈانٹ پھٹکار کی صورت ذلیل کرنا یا تنخواہ کاٹ لینا عام سا رویہ ہے۔ بچوں کے تعلق سے پڑوسیوں سے ان بن، رشتہ داروں کے مابین ہونے والی تلخیاں ہوں یا دورانِ سفر ساتھی مسافروں سے ہونے والی تلخ کلامی، یہ سب ہماری عدم برداشت اور تلخ و ترش مزاج فطرت کی چند مثالیں ہیں۔ غصے میں کہے گئے چند الفاظ یا نا پسندیدہ رویوں کو دائمی ناراضگی اور رنجشوں میں ڈھال کر برسہا برس تک کدورتیں پالتے رہنا بھی ہمارا طریق بن گیا ہے۔ سنی سنائی باتوں اور غلط فہمیوں کے زیرِ اثر، مقابل کو صفائی کا موقع دیئے بغیر ہم دیرینہ تعلقات توڑ لینے میں بھی کوئی دیر نہیں کرتے، اپنی خطا کے باوجود معافی کی اُمید دوسروں سے رکھتے ہیں۔ خود پسندی کے زعم میں مبتلا ہو کر اس انتظار میں وقت ضائع کرتے رہتے ہیں کہ سامنے والا پہل کرے، معافی مانگے اور ہمیں منائے۔
 چھوٹی چھوٹی قابلِ درگزر غلطیوں کو بھی معاف نہ کرنے اور تلخ و تُرش مزاجی کی بدولت ہمارے بچّے، ملازمین، پڑوسی اور رشتہ دار ہم سے سہمے سہمے رہتے ہیں اُنہیں ہم سے محبت یا اُنسیت نہیں ہو پاتی کیونکہ ڈر خوف کی بنیاد پر قائم تعلق نہ پائیدار ہوتا ہے اور نہ ہی محترم۔ اسلئے اپنے اہل و عیال اور متعلقین کے ساتھ مہربانی اور تحمل سے پیش آنا اور قطع تعلقی سے اجتناب کرنا بیحد ضروری ہے کیونکہ طویل عرصے تک چلنے والی ناراضگیوں کے باعث رشتے خلوص اور اپنائیت کھو دیتے ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ جب اُسے محسوس ہوتا ہے دوسرا اُس کی فکر نہیں کرتا، توجہ نہیں دیتا یا عزت و احترام نہیں دیتا تو وہ بھی رفتہ رفتہ ایسے لاپروا اور بدتمیز انسان کے لئے اپنے دل کے دروازے بند کر لیتا ہے اور پھر دلوں میں انتقامی جذبات اپنی جگہ بنا لیتے ہیں جو رشتوں اور تعلقات کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ گلے شکوے شکایتیں احساسات کو جکڑ لیں تو دلوں سے نرمی اور محبتیں رخصت ہو جاتی ہیں اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ سارے رشتوں سے کٹ کر ہم کتنے تنہا رہ گئے ہیں۔ اگر آج ہم نے رشتوں کو بچانے کی کوشش نہ کی تو کل شاید اُن کا وجود صرف یاد بن کر رہ جائیگا۔
 رشتے دوستی اور تعلقات وہ آئینے ہیں جن میں ہماری ہی شخصیت کے عکس ہوتے ہیں ان آئینوں کو ٹوٹنے سے بچا کر کیوں نہ ہم اپنا آپ بچا لیں۔ اپنی انا کے خول کو توڑ کر صلح و مفاہمت کی جانب ایک قدم آگے بڑھائیں کیونکہ معاف کردینا اور معافی مانگ لینا اعلیٰ ظرفی اور نیکی ہے۔ محبّت کرنے والے اور اعلیٰ ظرف انسان کبھی دوسرے کی پہل کے منتظر نہیں ہوتے بلکہ جذبۂ ایثار و قربانی کے تحت ہر نیکی کیلئے خود پہل کرتے ہیں۔ معافی مانگنے سے حیثیت میں کمی نہیں آتی بلکہ معاف کر دینا تو سب سے بڑی طاقت اور نیکی ہے، اللہ کی صفت ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے معافی کے طلبگار ہوتے ہیں تو کوشش کریں کہ ہم بھی اُس کے بندوں کو معاف کرنے والے بنیں۔ دلوں میں وسعت آجائے تو معاف کرنا اور معافی مانگنا بالکل بھی مشکل نہیں، آزما کر دیکھ لیں۔ معافی مانگنے میں پہل کرلیں.... عرش والے سے بھی اور فرش والوں سے بھی!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK