• Tue, 02 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’نام میں کیا رکھا ہے‘ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

Updated: December 02, 2025, 5:00 PM IST | Ansari Ayesha Abshar Ahmed | Mumbai

انسان کی شناخت کا اہم حصہ اس کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ربِ کریم نے حضرت آدمؑ کو سب سے پہلے تمام چیزوں کے نام سکھلائے۔ نام انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نام رابطے، محبّت اور معاشرت میں زینے کا کام دیتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کے نام بغیر سوچے سمجھے رکھتے ہیں؟

A name is like a mold into which a person is molded, so give your children good names. Picture: INN
نام کی حیثیت ایک قالب کی سی ہے جس میں انسان ڈھلتا ہے، لہٰذا بچوں کے اچھے نام رکھئے۔ تصویر:آئی این این
اللہ معبود ہے اور انسان عابد۔ اللہ کو بندے کی صفت عبدیت بہت محبوب ہے جس کا تقاضا ہے کہ یہ صفت عبدیت بندے کی ہر چیز سے ظاہر ہو۔ ناموں کے سلسلے میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس پہلو سے اپنے خاص تعلق کا اظہار فرمایا۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہے۔ ان کو افضل قرار دیا۔ میرا تعلق درس و تدریس سے ہے۔ چونکہ مَیں ناموں کے تئیں ہمیشہ حساس رہی ہوں اور ناموں پر غور کرتی ہوں بہت۔ مَیں نے اپنے اب تک کے کریئر اور مشاہدے میں جتنے بھی عبداللہ اور عبدالرحمٰن نام کے لوگوں کو دیکھا ہے وہ نہایت کامیاب رہتے ہیں۔ دینی شعور بھی رکھتے ہیں کیونکہ عبدیت والے ناموں میں فضیلت و برکت ہے۔ بچوں کے والدین پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں اہم ترین حق یہ ہے کہ بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔
اللہ کے نزدیک محبوب ترین انبیاء ہیں لہٰذا پیغمبروں اور صالحین کے نام رکھنا بہتر اور مستحب ہے ان ناموں میں برکت ہے۔ اسی طرح سے بُرے نام کے ممکنہ بُرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اسلئے شریعت نے معنی و مفہوم کے اعتبار سے اچھا نام رکھنے کا حکم دیا تاکہ بچّے کی زندگی کی شروعات کی پہلی اینٹ درست طور پر رکھی جائے۔ اللہ کے نبیؐ ہر اس نام کو تبدیل کرنے کی کوشش فرماتے تھے جس میں منفی معنی ہوتا۔ ناموں کے متعلق شریعت کی طرف سے اتنی زیادہ تاکید اور ترغیب و ترہیب کے باوجود مسلم معاشرہ غفلت، زبوں حالی اور جدت پسندی کا شکار ہے۔ لوگوں کا یہ مزاح بنتا جا رہا ہے کہ ایسا نام رکھا جائے جو اہل ِ قرابت، پڑوس، محلہ میں سے کسی کا نہ ہو۔ چنانچہ جدت پسندی کے اس جنون میں لوگ ایسے نئے نئے نام تجویز کرتے ہیں جو یا بے معنی اور مہمل قسم کے ہوتے ہیں یا غلط معنی کے ہوتے ہیں اس کیلئے وہ فلمی، افسانوی نام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اسلامی نام ہی رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اب نئے انگریزی طرز کے نام رکھے جانے لگے ہیں۔ صورت و سیرت سے تو مسلمان سمجھنا مشکل تھا صرف نام سے پتہ چلتا تھا۔ لیکن اب نام دیکھئے جو مَیں نے بچوں کے دیکھے ہیں شکھا، نیہا، اسنیہا، سلینا، تناز، سمرن یا پھر وہ نام جو پیار سے پکارے جاتے ہیں جیسے گڑیا، مونا، چندا، چاندنی.... جب اسکول رجسٹر میں لکھوائے جاتے ہیں تو نہایت افسوس ہوتا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نام کے بھی اب مسلمان نہیں رہے۔ اب درست، بامعنی نام رکھنے کا بھی شعور نہیں رہا۔
بچے کے نام ہی سے اسکے خاندانی پس منظر، والدین کے علم و فہم کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ عام طور پر باشعور، سنجیدہ، باوقار، مہذب گھرانوں میں نام بھی عمدہ اور اعلیٰ رکھے جاتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب والدین کی اکثریت ان کے بچوں کے ناموں کے مطلب بتانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ بچوں کو عام طور پر بتایا ہی نہیں جاتا کہ ان کے نام کا کچھ مطلب بھی ہوتا ہے یا ناموں کے مطلب کی کچھ اہمیت بھی ہوتی ہے۔ جدت پسندی کی اس دوڑ میں نئی نسل اِملے، جملے اور تلفظ پر ذرا کم ہی توجہ دیتی ہے۔ اسلئے اکثر اوقات وہ اپنا نام لکھتے بولتے وقت سنگین غلطیاں کر جاتے ہیں اور اس کا انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ اس سے کچھ ’فرق‘ بھی پڑتا ہے جیسے حفصہ نام کو ’حبشہ‘ بولتے ہیں اور ’Hafsha‘ لکھتے ہیں اسی طرح سے شاذیہ نام میں ’Sh‘ نہیں لگاتے۔ آسیہ کو ’Ashiya‘، اسفیہ کو ’Ashfiya‘ لکھ کر مطمئن ہیں۔ کب ’Sh‘ لکھنا ہے کب صرف ’S‘ اس کا اندازہ نہیں ہوتا ہے۔ جویریہ ’Z‘ سے اور زینب ’J‘ سے لکھنے سے معنی کیا سے کیا ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ اپنے ناموں کو یہ معاشرہ میں کس ’شکل‘ میں متعارف کروا رہے ہیں۔ بعض نام ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں اِملے کی تبدیلی سے وہ بے معنی ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی ایک سنگین غلطی ہے جیسے ’فلک‘ کبھی بھی ’Q‘ سے نہیں آئے گا کیونکہ یہاں ’ک‘ ہے اسی طرح ’انیقہ‘ کبھی بھی ’K‘ سے نہیں آئے گا۔ اب نام اُردو میں دیکھئے کہ اس میں ’ک‘ ہے یا ’ق‘، اس کے بعد انگریزی میں اس حساب سے لکھئے۔ یہ سب دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ دوسروں کا نام غلط لکھیں، غلط تلفظ ادا کریں تو پھر بھی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اپنا خود کا نام غلط لینا، غلط لکھنا واقعی افسوسناک تو ہے ہی قابل ِ ترس بھی ہے کہ بیچارے کو اپنا نام ہی ناقابل فہم ہے۔
اسلئے ضروری ہے کہ بچوں کے نام سوچ سمجھ کر اہل ِ علم کے مشورے کے بعد رکھنے چاہئیں۔ بچوں کے ناموں کا انتخاب کرتے وقت اسکے معانی اور اِملا پر غور کریں۔ منفرد نظر آنے کے چکر میں ’کچھ بھی‘ نام نہ رکھیں بلکہ بہترین اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد کسی نیک، متبع سنت بزرگ کے پاس لے جائیں اس سے بچے کے حق میں دعائے برکت کی اور نام رکھنے کی درخواست کریں تاکہ بچے پر اچھا اثر پڑے۔ یہ نا کہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے، بلکہ یہ جان لیں کہ نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK